تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     20-04-2019

بلوچستان‘ دہشتگردی کی نئی لہر اور وفاقی کابینہ میں ردو بدل

دو درجن کے لگ بھگ مہمانوںکے ساتھ یہ ظہرانہ‘ شہر کے سینئر مدیرانِ جرائد ‘ کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کا نمائندہ اجتماع بن گیا تھا۔ شامی صاحب کی عمرہ سے واپسی پر یہ اہتمام نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے کیا تھا۔ کبھی اس طرح کی مبارک باد ی تقریبات کا اہتمام کسی پہلی خوشی کے موقع پر کیا جاتا تھا‘ لیکن اب یہ حالِ دل کہنے اور سننے کے لیے احباب کے مل بیٹھنے کا بہانہ ہوتا ہے۔ورنہ شامی صاحب کا یہ پہلا عمرہ تو نہ تھا اس سے پہلے وہ اپنے خرچ پر (اور سر کاری وفود کے ہمراہ بھی) کتنے عمرے کر چکے ‘ صحیح تعداد شاید انہیں بھی یاد نہ ہو۔عمر شامی اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ یہ عمرہ اپنے خرچ پر تھا۔ شامی صاحب (اور طاہرہ بھابی )کے ایسے دو تین عمرے تو ہمیں( اپنے قیامِ جدہ کے دور کے) بھی یاد ہیں۔تب میاں نواز شریف جلا وطن تھے۔رمضان کا آخری عشرہ وہ مدینہ منورہ میں گزارتے اور افطاری بھی مسجد نبوی میں کرتے ۔ شامی صاحب بھی ان دنوں عمرے پر آئے تھے۔ یہ چاند رات کی افطاری تھی۔ طے پایا کہ اگلے روز نماز عید کے بعدمیاں صاحب کے ساتھ ان کے ہوٹل میں ''عید ملن ‘‘ ہو گی۔ شامی صاحب کو اسی شام جدہ پہنچ کر لاہور کی فلائٹ لینا تھی؛ چنانچہ یہ ''عید ملن ‘‘ قدرے مختصر رہی جس میں بیشتر وقت پاکستان کے سیاسی حالات اور معاملات پر گفتگو ہوئی۔ میاں صاحب مہما ن کو چھوڑنے لفٹ تک آئے ۔ الوداعی مصافحے کے ساتھ ان کا کہنا تھا : پاکستان میں آمر یت کے خلاف یہ جہاد کا وقت ہے۔ شامی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا :امیر میدان میں موجود نہ ہو تو جتنا اور جیسا جہاد ہو سکتا ہے‘ وہ تو ہو رہا ہے۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اس ظہرانے میں شاید بے وقت بارشوں اور تند و تیز ہواؤں سے فصلوں کو ہونے والے نقصان پر بھی بات ہوتی ‘ لیکن اس وقت کی سب سے بڑی خبر بلوچستان میں گزشتہ شب دہشت گردی کی سنگین وادات تھی‘ جس میں پاک بحریہ کے 9اہل کاروں سمیت 14مسافروں کو بسوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ ابھی چند روز قبل ‘ اسی حساس صوبے میں دہشت گردی کی ایک اورسنگین واردات میں 20افراد جان بحق ہوئے تھے (سبزی منڈی ہزار گنجی کا سانحہ)۔تو کیا بلوچستان سرحد کے اس پارسے ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر کی زد میں ہے؟ اس پر سبھی کا اتفاق تھا کہ یہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی پرانی سازش کا نیا مرحلہ ہے۔ ایسے میں سکیورٹی کے معاملات بھی زیر بحث آئے۔ ملک کے اندر دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا بہت حد تک قلع قمع کر دیا گیا‘ لیکن سرحد کے اُس پاران کا خاتمہ ایسا آسان نہیں۔چند کالعدم تنظیموں‘ کے معاملات بھی زیر بحث آئے ‘ان میں سے بعض کو پہلے بھی کئی بار کالعدم قرار دیا جا چکا ۔ذہن نشین رہے کہ کیا کسی تنظیم نے بلوچستان میں دہشت گردی کی تازہ وار دات کی ذمہ داری قبول کی؟ لیکن یہاں کسی تنظیم کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے کی حقیقت پر بھی سوال اٹھا ۔ سلمان غنی صاحب نے سوشل میڈیا پر ایک ''الرٹ ‘‘ کی نشاندہی کی ‘جس میں لاہور کے بعض حساس مقامات پر دہشت گردی کے خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی‘ لیکن یہ ایک جعلی الرٹ تھا۔
بلوچستان پر بات ہو رہی تھی کہ جناب جمیل اطہر نے وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے کی ''بریکنگ نیوز‘‘ سنائی۔ بلوچستان پس منظر میں چلا گیا تھا۔اسد عمر تو ابھی واشنگٹن میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے لوٹے تھے‘ شاید اس اعصاب شکن ایکسر سائز اور طویل سفر کی تھکن بھی پوری طرح نہ اتار پائے تھے۔ اور گزشتہ رات ہی توانہوں نے دنیا نیوز کے پروگرام'' کامران خان کے ساتھ‘‘ میں کوئی گھنٹے بھر کا طویل انٹرویو دیا تھا۔ اسد عمر کے بقول :وزیر اعظم نے ان سے استعفے کی بات بدھ ‘ جمعرات کی درمیانی شب کی تھی ۔سیاسی مخالفین کو تو تبدیلی کی دعویدار حکومت کے ان آٹھ ماہ میں کسی شعبے میں بھلائی کا کوئی کام نظر نہیں آتا‘ بلکہ ہر جگہ بربادی کے مناظر نظر آتے ہیں‘ لیکن معیشت کی روزافزوں بربادی تو ایسی حقیقت ہے‘ غیر جانبدارانہ مبصرین اور ماہرین بھی جس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتے۔ڈاکٹر اشفاق حسن تین روز قبل شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کیا کچھ نہیں کہہ گئے...کہا جاتا ہے کہ معیشت کی یہ صورت حال تمام قومی اداروں کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔ اسد عمر کے استعفے کی بریکنگ نیوز بہت سوں کے لیے پہلے سے متوقع تھی۔ لیکن اس ڈرامائی انداز میں وفاقی کابینہ کے اہم ترین رکن اور وزیر اعظم کے معتمدترین ساتھی کی رخصتی میں حیرت کا عنصر بہر حال موجود تھا۔البتہ اس میں وزیر موصوف کی عزت اور وقار کو ضرور مدنظر رکھا گیا کہ یہ خبر پرائم منسٹر ہائوس کے نوٹیفکیشن کی بجائے خود وزیر موصوف کے ٹوئٹر کے ذریعے منظر عام پر آئی۔ ان کا کہناتھا کہ وزیر اعظم نے انہیں وزارتِ خزانہ کے عوض وزارتِ توانائی کی پیش کش کی لیکن انہوں نے شکریے کے ساتھ معذرت کرلی۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں واحد وزیر تھے جن کے پورٹ فولیو کے متعلق سب کو پہلے سے معلوم تھا۔ وہ گزشتہ پارلیمنٹ میں ‘ خزانے کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سربراہ بھی رہے؛ چنانچہ وہ یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتے کہ قومی معیشت سے متعلق حقائق سے لاعلم تھے (یا انہوں نے اس کے لیے ہوم ورک نہیں کیا تھا) لیکن تحریک انصاف کی بیس‘ بائیس سالہ تاریخ میں اہم قومی مسائل پر کسی سنجیدہ ہوم ورک کا کلچر تھا ہی کب؟ البتہ ایک بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سے اس کی توقع کچھ ایسی بے جا نہ تھی کہ اس نے حکومتی ذمہ داری کے حوالے سے کچھ تو ہوم ورک کیا ہوتا۔ غلام سرور خان کو(جنہیں گیس کے بحران اور ہوشربا بلوں کے حوالے سے سخت تنقید کا سامنا رہا اور اس باعث ان سے یہ وزارت واپس لے کر ''ہوابازی‘‘ کا محکمہ دے دیا گیا )۔ اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ اپنی وزارت کے لیے ان کا کوئی ہوم ورک نہیںتھا کہ انہیں کیا خبر تھی کہ کس وزارت کابٹیرا ان کے پائوں تلے آجائے گا)یہی معاملہ باقی وزرا کاتھا۔
شامی صاحب کے ظہرانے میں اسد عمر کے استعفے کو کسی نے پہلی اینٹ کے نکلنے سے تعبیر کیا (جو دیوار کی اہم ترین اینٹوں میں شمار ہوتی تھی)تو کسی نے بارش کا پہلا قطرہ قرار دیا۔ یہ پہلا قطرہ دوپہر کی بات تھی‘ شب کے پہلے پہر برکھا برسی۔ یوں لگا حکومت ہل کر رہ گئی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایم ڈی پی ٹی وی ارشد خاں کے مسئلے پر وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق کو پچھاڑ دیا تھا‘لیکن اب اطلاعات جیسی اہم وزارت لیکرانہیںسائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا کھلوناتھما دیا گیاہے۔اعظم سواتی کوسپریم کورٹ کے سوموٹو پر وزارت سے فارغ کیا گیا تھااب وزیر پارلیمانی امور بن گئے ہیں۔ وزیر صحت عامر کیانی بھی رخصت ہوئے‘ یہ عذر ان کے کام نہ آیا کہ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ تو گزشتہ حکومت کر گئی تھی۔ ا یک اہم ترین تبدیلی بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کے لیے وزارتِ داخلہ کا قلم دان ہے (جو ان آٹھ ماہ میں خود وزیر اعظم کے پاس رہا)۔ گزشتہ دنوں فرمایا کہ عوام اپوزیشن کے بہکاوے میں آکر سڑکوں پر نہ آئیں ‘ ورنہ چھترول ہوگی اور گرمیاں بھی زیادہ دور نہیں۔ جنرل مشرف نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ عمران خان کی کابینہ کے آدھے سے زیادہ وزیر توان کے اپنے ہیں۔اب ان میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور ان کے ہمدمِ دیرینہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان بھی‘ مشرف کی قاف لیگ سے زرداری کی پیپلز پارٹی میں آئی تھیں۔
صدارتی نظام کے حق میں مہم چلانے والوں کی اہم ترین دلیل یہ ہے کہ اس میں وزیر اعظم غیر منتخب ماہرین /ٹیکنوکریٹس کی خدمات سے بھی استفادہ کرسکتا ہے‘لیکن اس کے لیے نئی آئین سازی کے خطرات مول لینے کی کیا ضرورت ؟ موجودہ پارلیمانی نظام میں بھی وزیر اعظم کی کابینہ کے 47ارکان میں سے 16غیر منتخب ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved