اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ رُوئے ارض پر سانسوں کا نصیب بجائے خود زندگی ہے تو جان لیجیے کہ آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ یہ مغالطہ اس لیے ہے کہ عمومی سوچ یہی ہے کہ اِس دنیا میں سانسوں کا تسلسل ہی زندگی ہے۔ اگر سانسوں کا تسلسل ہی سب کچھ ہوا کرتا تو پھر کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ہر طرف ختم نہ ہونے والی جو تگ و دَو دکھائی دے رہی ہے وہ کس کھاتے میں ہے؟ کیا یہ سارا ہنگامہ محض ہمارے مزاج کا حصہ ہے؟ اور کیا ہم یہ سب کچھ محض عادتاً‘ مزاجاً یا دل پشوری کے لیے کر رہے ہیں؟ ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے۔
محض سانسوں کا تسلسل کسی بھی درجے میں حقیقی زندگی نہیں۔ زندگی بہت آگے کی منزل ہے۔ ہم اس دنیا میں کسی نہ کسی مقصد کے تحت بھیجے گئے ہیں۔ رُوئے ارض پر اپنے قیام کو بامقصد بنانے کے لیے ہمیں بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہے؛ اگر محض زندہ رہنا ہو تو یہ سَودا کسی بھی درجے میں مشکل نہیں۔ اور خسارے کا بھی نہیں۔ ہاں‘ جب ہم زندگی بسر کرنے کا ذہن بناتے ہیں ‘تب مشکلات اور امتحانات کا آغاز ہوتا ہے۔ جب ہم دنیا میں اپنے عارضی قیام کو بامقصد بنانے کے لیے کچھ کرنے کی ٹھانتے ہیں تب ہم پر کُھلتا ہے کہ ع
یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشا نہیں ہے
ہم جس کی صنّاعی کا بہترین نمونہ ہیں‘ اُس رب نے ہمیں جسم اور روح بخش کر دنیا میں یونہی نہیں بھیج دیا۔ اس عارضی قیام کو ہر اعتبار سے قابلِ رشک اور بامعنی بنانے کے لیے جو کچھ بھی کرنا لازم ہے‘ اُس کے حوالے سے ہماری پوری راہنمائی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ ہمیں بتادیا گیا ہے کہ کیا کرنے سے ہمارا خاتمہ بالخیر ہوگا اور کیا کر گزرنے کی صورت میں ہمیں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔ جس کے دستِ قدرت میں ہماری جان ہے اُس نے زندگی کو بامعنی‘ بامقصد اور بارآور بنانے کے حوالے سے ہماری راہنمائی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ہر اعتبار سے جامع اور رب کی نظر میں مطلوب زندگی بسر کرنے کے حوالے سے جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے ‘وہ ہمیں بتادیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا۔ع
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی‘ جہنّم بھی
کون سے عمل سے زندگی جنّت بنتی ہے اور کون سے عمل سے جہنّم‘ یہ بھی پوری صراحت کے ساتھ ہمیں سمجھایا جاچکا ہے۔ علم کی حد تک تو معاملہ بالکل صاف ہے۔ اب عمل رہ گیا ہے۔ یہ ہے ہمارا حقیقی امتحان۔ اور اس امتحان میں بھرپور کامیابی ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ہماری راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ سوال صرف عزم اور فیصلے کا ہے۔ ایک بار ٹھان لیجیے تو وہ ضرور ہوکر رہے گا‘ جو آپ نے ٹھان رکھا ہے۔ سوال صرف ڈٹے رہنے کا ہے۔ ثابت قدمی ہے تو کچھ کر گزرنے کی گنجائش ہے‘ ورنہ نہیں۔
محض زندہ رہنا تو کبھی کچھ خاص مشکل نہ تھا۔ لوگ جب احساس کی دولت سے محرومی گوارا کرلیتے ہیں اور سوچے سمجھے جیے جانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تب جینا اچھا خاصا آسان ہو جاتا ہے۔ تمام پریشانیاں‘ الجھنیں اور آزمائشیں صرف اُن کے لیے ہیں جو زندگی کو کسی ایسی نہج پر لے جانا چاہتے ہیں جو قابلِ رشک ہو۔
بامقصد زندگی بسر کرنا ہی اس دنیا میں ہمارے قیام کا بنیادی مقصد ہے۔ ہمارے جسدِ خاکی کو روح سے متصف کرکے اور دل کو دھڑکنیں عطا کرکے ہمارے خالق و رب نے اس بات کا بھی پورا اہتمام کیا ہے کہ ہم اُس کی مرضی اور منشاء کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔ یہ ایسا معاملہ ہے‘ جس سے ہم صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ فہمِ دین اور دُنیوی دانش دونوں ہی کا تقاضا ہے کہ ہم کسی واضح مقصد کا تعین کیے بغیر زندگی بسر نہ کریں۔ اس دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں‘ جو کسی بھی اعتبار سے مذہبی نہیں‘ یعنی اُن کے خیال میں کوئی خالق نہیںہے‘ اور نہ کوئی یومِ حساب ہوگا ‘مگر پھر بھی وہ دنیا میں اپنے قیام کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ ایک ایک لمحے سے حِظ اٹھائیں۔ جب مذہبی سوچ سے غیر متعلق رہنے والے کسی مقصد کے تحت زندگی بسر کرسکتے ہیں تو اُن پر تو اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ‘جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب سے برتر ہستی نے اُنہیں خلق کیا ہے‘ وہی پال رہی ہے اور وہی اس دنیا میں گزارے جانے والے تمام ایام کے حوالے سے افکار و اعمال کا حساب بھی لے گی۔
انسان کی معراج اسی میں ہے کہ وہ اپنے افکار و اعمال سے اس دنیا کچھ نہ کچھ فیض پہنچائے۔ جو لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو ترک کرکے دنیا کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں وہی رب کی نظر میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔
اب آئیے اس حقیقت کی طرف کہ بامقصد زندگی بسر کرنے میں کیا کیا قباحتیں ہیں۔ ماحول میں جو کچھ ہو رہا ہے؛ اگر آپ کے اُس کے خلاف جائیں گے تو لوگوں کو آپ کا یہ یو ٹرن کسی طور نہیں بھائے گا۔ دنیا کا عمومی چلن یہ ہے کہ زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ لوگوں کا مشاہدہ بھی کمزور ہے اور اس کے نتیجے میں ادراک بھی توانا نہیں۔ ایسے میں سوچنے کی صلاحیت کیونکر پروان چڑھ سکتی ہے؟ اور جب سوچنے ہی کی عادت کمزور ہوگی تو عمل کیونکر محکم و مستحکم ہوگا؟ جینے کا لطف اس حقیقت میں مضمر ہے کہ آپ کسی بڑے مقصد کیلئے کوشاں رہیں اور اس حوالے سے درپیش تمام مشکلات کا خندہ پیشانی و دل جمعی سے سامنا کرتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔ ہر معاملے میں آسانیاں تلاش کرنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اصغرؔ گونڈوی نے خوب کہا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
قدم قدم پر آسانیوں کے پائے جانے سے زندگی دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ جو لوگ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بُجھے ہوئے دل سے حالات کا شِکوہ کرتے رہتے ہیں ‘وہ عموماً اس عظیم حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ مشکلات کا سامنا کرنے اور مسائل حل کرنے ہی سے زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے؛ اگر سب کچھ آسان چل رہا ہو تو کسی معمولی سی بھی پریشانی کا سامنا کرنا زندگی کا سب سے بڑا امتحان محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ عموماً بیمار نہیں پڑتے‘ وہ کسی معمولی سی بیماری کو بھی ڈھنگ سے جھیل نہیں پاتے اور تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔
زندگی میں معنویت پیدا کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنے لیے خود ہی مسائل پیدا کرے۔ مسائل اگر اپنے پیدا کردہ ہوں تو ذہن کو زیادہ الجھاتے ہیں‘ کیونکہ اُنہیں حل کرتے وقت قدم قدم پر پچھتاوے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جو مسائل حالات کے پیدا کردہ ہوں‘ اُن سے نبرد آزما ہونا انسان کو عزم و عمل کی رفعت سے ہم کنار کرتا ہے۔
ہم جس دور میں جی رہے ہیں‘ وہ بامقصد زندگی بسر کرنے کے حوالے انتہائے آزمائش سے عبارت ہے۔ قدم قدم پر آسانیاں تلاش کرنے والے کبھی کبھی ایسے الجھتے ہیں کہ پھر سلجھنے کا نام نہیں لیتے۔ زیادہ اور اچھی طرح وہی جیتے ہیں‘ جو زندگی کو بامقصد بنانے کی خاطر جسم و جاں کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہ کریں۔ ؎
در اِسی دیوار میں کرنا پڑے گا
زندہ رہنے کے لیے مرنا پڑے گا