وزیر خزانہ اسد عمر کی سبکدوشی کی خبر انتہائی دھماکہ خیز تھی۔ رات کو کامران خان صاحب کے نیوز شو میں انہوں نے ایک گھنٹہ طویل انٹرویو دیا، اور مستقبل کے حوالے سے اپنے لائحۂ عمل پر بھی روشنی ڈالی۔ وہ مطمئن تھے کہ مشکلات کم ہو گئی ہیں اور آنے والے دن گزر جانے والے دِنوں سے بہتر ہوتے جائیں گے۔ ان کے کسی فقرے یا لفظ سے کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔ پورے اعتماد اور اطمینان کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔ کامران خان کے چبھتے ہوئے سوالات کا ہنستے ہوئے جواب دیا جا رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی مَیں نے برادرم اجمل جامی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اِس انٹرویو پر توجہ مرکوز کرنے کی گزارش، اور اس کے منتخب حصے اپنے پروگرام ''نقطۂ نظر‘‘ میں شامل کرکے ان پر تبصرہ کرنے کی اہمیت واضح کی۔ طے پایا کہ آج شام ہماری گفتگو کا آغاز اسد عمر صاحب کے انٹرویو ہی سے ہو گا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان کے استعفے کی خبر نے ٹی وی سکرین پر قبضہ جما لیا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ وزیر اعظم نے ان سے توانائی کی وزارت قبول کرنے کے لیے کہا ہے، لیکن انہوں نے انہیں اس پر راضی کر لیا ہے کہ وہ یہ ذمہ داری اٹھانے سے اجتناب کریں، گویا کابینہ ہی سے الگ ہو جائیں۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں عمران خان صاحب پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ نیا پاکستان ضرور بنے گا... گویا، ان کے بغیر بھی خان صاحب کے ''وژن‘‘ میں رنگ بھرنا ممکن تھا۔ کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اسد عمر کی پریس کانفرنس شروع ہو گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسد عمر نے بسورنے یا ٹسوے بہانے کے بجائے ہنستے مسکراتے اپنا موقف پیش کیا، اور یوں اپنی سیاست کی حفاظت کر گزرے۔ اسد عمر وزیر اعظم عمران خان کے ''اوپننگ بیٹسمین‘‘ تھے۔ ان کے بعد کابینہ کے سب سے معتبر اور بااختیار وزیر۔ عملاً انہیں ڈپٹی وزیراعظم سمجھا جاتا تھا۔ نواز شریف حکومت میں اسحاق ڈار کو جو اہمیت اور حیثیت حاصل تھی، اسد عمر کا مرتبہ اس سے کم نہیں تھا، بلکہ یہ کہا جائے کہ بڑھ کر تھا تو بھی غلط نہیں ہو گا۔ اسحاق ڈار سینیٹر تھے لیکن اسد عمر براہِ راست انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے، اس لیے انہیں عوامی احساسات اور جذبات سے براہِ راست آگاہی حاصل رہ سکتی تھی۔ میجر جنرل غلام عمر کے بیٹے اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں یدطولیٰ رکھنے والے اسد عمر کو ڈیڑھ، دو عشروں سے بزنس گریجوایٹس آئیڈیلائز کر رہے تھے۔ لمز اور آئی بی اے (کراچی) کے طالب علم تو بطورِ خاص ان کے پرستار تھے۔ اینگرو کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر ان کی خدمات کا شاندار الفاظ میں تذکرہ کیا جاتا۔ آئی بی اے کو تو ان پر اس لئے بھی ناز تھا کہ وہ اسی کے گریجوایٹ تھے۔ پاکستان بھر کے بزنس ایگزیکٹوز اسد عمر کی شخصیت میں اپنا مستقبل تلاش کرتے تھے، اور اس تصور میں مگن تھے کہ محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر آسمان کو چھوا جا سکتا ہے۔
وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو پُرعزم نوجوانوں کی نگاہیں اِدھر مرکوز ہو گئیں۔ میرے بیٹے عثمان شامی اُن دِنوں آئی بی اے میں زیر تعلیم تھے۔ اُن کے ہم جماعتوں میں نوے فیصد تحریک انصاف کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا چکے تھے۔ عمران خان نے بھی ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، سر پر بٹھایا، آنکھوں میں سجایا، اور یوں اپنا ڈنکا بجایا کہ تحریک انصاف کے پاس پاکستان کے معاشی مستقبل کو سنوارنے کی کنجی آ گئی ہے۔ گویا اسد عمر پاکستانی معیشت کو اینگرو کی طرح آسمان پر پہنچا دیں گے۔ عمران خان نے حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اسد عمران کے وزیر خزانہ ہوں گے (اور خزانے کو لبالب بھر دیں گے)۔
اسد عمر پاکستان کے ان چند وزرائے خزانہ میں سے تھے جو سیاسی جدوجہد کے راستے اس مقام تک پہنچے۔ اس سے پہلے یہ منصب زیادہ تر ''ٹینکوکریٹس‘‘ ہی کے حصے میں آتا رہا۔ اور تو اور پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ کے طور پر قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی نظر بھی ملازمت پیشہ ملک غلام محمد ہی پر ٹھہری۔ مسلم لیگ کے اہلِ سیاست میں سے کسی کو یہ ذمہ داری نہ سونپی گئی۔ ان کے بعد چودھری محمد علی نے خزانہ سنبھالا تو وہ بھی بیوروکریسی ہی سے آئے تھے۔ ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق کے ادوار کے علاوہ بھی زیادہ تر یہ منصب بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس ہی کے سپرد رہا۔ سید امجد علی، ڈاکٹر مبشر حسن اور میاں محمد یٰسین وٹو کو مستثنیات میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی صدارت اور یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچی تو بھی اس کے پاس ''اپنا‘‘ وزیر خزانہ موجود نہیں تھا۔ پہلے اسحاق ڈار اور پھر حفیظ شیخ اور شوکت ترین سے استفادہ کرنا پڑا۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل کو لے کر آئے، جو اپنی مہارت اور قابلیت کے حوالے سے ممتاز تھے، مسلم لیگ سے تعلق بھی رکھتے تھے، لیکن کسی منتخب ایوان میں نہیں پہنچ پائے تھے۔ ان کے حوالے سے ایک دستوری شق کا فائدہ البتہ یوں اُٹھایا گیا کہ وہ منتخب ہوئے بغیر وزیر بنا ڈالے گئے۔
تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ پندرہ ارب سے بڑھا ہوا تھا، لیکن داخلی کھاتے کی حالت بہتر تھی۔ شرح نمو چھ فیصد کو چھو رہی تھی، گزشتہ پانچ سال کے دوران محصولات کی وصولی دوگنا ہو چکی تھی، بازاروں میں چہل پہل تھی، چہرے بارونق تھے، اور دِل امید سے بھرے ہوئے تھے۔ نئی حکومت نے آتے ہی لٹ گئے، مر گئے، دوڑیو، پکڑیو کا ایسا شور مچایا اور کرپشن کی ایسی دہائیاں، اندرون اور بیرون ملک دیں کہ داخلی کھاتے بھی بگڑنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی رفتار آدھی رہ گئی۔ ڈالر کی قدر بڑھنے لگی، روپے کی وقعت کم ہوتی گئی، سٹاک مارکیٹ بیٹھتی چلی گئی، سود کی شرح بڑھی، افراطِ زر میں اضافہ ہوا، بازاروں کی رونق ماند پڑنے لگی، ایف بی آر کے کارپرداز ہانپنے لگے، کرنٹ اکائونٹ کے خسارے کے ساتھ ساتھ داخلی کھاتوں کی حالت بھی پتلی ہو گئی۔ دِل اور جگر دونوں ہاتھ سے نکلنے لگے۔
ماہرین معاشیات کی بڑی تعداد کا خیال تھا کہ فی الفور آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے، وہاں سے ڈالر وصول کر کے کرنٹ اکائونٹ کے خسارے کو سنبھال لیا جائے، لیکن وزیر اعظم نے دوست ممالک سے ڈالر مانگ مانگ کر جمع کرنا شروع کیے، تاکہ پہلے خزانہ بھریں، پھر آئی ایم ایف سے بات کریں۔ وزیر خزانہ اسد عمر اسی حکمت عملی کے داعی تھے، آئی ایم ایف سے معاہدے کے بغیر ہی وہ سب کچھ کر گزرے، جس کی آج دہائی دی جا رہی ہے۔ شرح سود میں اضافہ، بجلی اور گیس مہنگی، شرح نمو میں کمی، ہر طرف ہاہاکار مچی تو کپتان نے اپنے اوپننگ بیٹسمین کا ''بیٹنگ آرڈر‘‘ بدل ڈالا۔ ان کا دفاع کرتے کرتے اچانک قالین پائوں تلے سے کھینچ لیا۔ یہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا کیا دھرا تھا، یا کسی اور کا اشارہ، یہ بھی کھلتے کھلتے کھل جائے گا۔ سٹاک مارکیٹ بہرحال جھوم اٹھی، حفیظ شیخ واشنگٹن سے آ براجے۔ کئی وزارتیں منتخب ارکان سے لے کر ٹیکنوکریٹس کے سپرد کر دی گئیں، تکنیکی طور پر وزیر اعظم عمران خان خزانے، پٹرولیم، اطلاعات اور صحت کے وزیر بھی ہوں گے کہ ان کے معاملات چلانے کے لیے خصوصی معاون مقرر کیے گئے ہیں۔ فواد چودھری کی جگہ فردوس عاشق اعوان نے لے لی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کا حصہ بھی کم ہو گیا ہے۔ بعض لوگ اسے ''صدارتی نظام‘‘ کی طرف پیش قدمی قرار دے رہے ہیں کہ غیر منتخب ٹیکنوکریٹس اس ہی میں پھلتے پھولتے ہیں، لیکن کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پارلیمانی نظام میں یہ پیوند کاری کرکے اسے ''مستحکم‘‘ کر دیا گیا ہے کہ اگر اس کے اندر یہ کچھ ہو سکتا ہے تو پھر صدارتی نقاب کی کیا ضرورت؟ وزیراعظم عمران خان کا اعلان ہے کہ وہ ''ملکی مفاد‘‘ کی خاطر کچھ بھی کر گزریں گے۔ گویا، آج کے وزرا کو بھی اطمینان کا سانس نہیں لینا پڑے گا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی کی نئی لہر پنجاب اور خیبر پختونخوا کو بھی زیر و زبر کرکے رہے گی۔ اور یوں گزشتہ آٹھ ماہ پر خطِ تنسیخ پھیر کر نئے کھلونے فراہم کر دیئے جائیں گے۔ مٹی کے کھلونوں کا یہی تو فائدہ ہے؎
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مِرا جامِ سفال اچھا ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)