وزارت لینے سے انکار نہیں کیا، وزیراعظم
کے فیصلے کو مانتا ہوں: غلام سرور
سابق وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا ہے کہ ''وزارت لینے سے انکار نہیں کیا، وزیراعظم کے فیصلے کو مانتا ہوں‘‘ جبکہ پہلے انکار کر کے وزیراعظم کو ذرا یرکانے کی کوشش کی تھی لیکن جیسا کہ اصول ہے کہ اگر نہ یرکے تو خود یرک جائو، چنانچہ نہایت شرافت کے ساتھ خود یرک گیا ہوں اور کافی آرام سے ہوں اور آئندہ بھی اپنی صحت کا اسی طرح خیال رکھوں گا کیونکہ صحت ہے تو سب کچھ ہے۔ یعنی جان ہے تو جہان ہے کیونکہ سارا کچھ جان لڑا کر ہی کرنا پڑتا ہے جبکہ انکار اور پھر اقرار میں بھی جان ہی کو لڑانا پڑتا ہے اور چونکہ بھوکا بٹیر زیادہ لڑتا ہے، اس لیے جان کو بھوکا بھی رکھنا چاہئے، بلکہ جان میں باقاعدہ چوہے دوڑنا چاہئیں، اور جب تک بلّی نظر نہ آ جائے، چوہے دوڑتے ہی رہتے ہیں اور اگر بلّی نو سو چوہے کھا چکی ہو اور حج پر جانے کا ارادہ کر رہی ہو ہو تو چوہوں کو اطمینان سے دوڑتے رہنا چاہئے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی مختلف سیاسی جماعتوں کا گُلدستہ ہے:خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کا گُلدستہ ہے‘‘ اور اس گلدستے سے خوشبو تو آتی ہے لیکن ہم ذرا زکام شکام کی کیفیت میں ہیں اس لیے یہ خوشبو ہم تک نہیں پہنچ رہی اور امید ہے کہ قیادت کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد زکام کی شکایت نہیں رہے گی بلکہ زکام کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں میں بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ہم اگر پیسے واپس نہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس سے بڑا فائدہ اور کیا ہو سکتا ہے کیونکہ ہم جیل سے نہیں ڈرتے بلکہ اب تو جیل خود ہم سے ڈرنے لگی ہے کہ اگر سزایابی ہو گئی تو جیل اتنے لوگوں کا بوجھ کیسے برداشت کرے گی کیونکہ جتنے اکاؤنٹ ہوں گے، سزایابیاں بھی اُتنی ہی ہوں گی جبکہ جیل کا خرچہ بھی ایکدم بڑھ جائے گا۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام کی طرف سے حمایت پر اُن کا شکر گزار ہوں: اسد عمر
سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ''عوام کی طرف سے حمایت پر ان کا شکر گزار ہوں‘‘ تاہم، مجھے ان کی عقل پر شُبہ ہونے لگا ہے، تاہم اُنہیں زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وزیر ریلوے برادرم شیخ رشید صاحب مجھے منانے کے لئے آنے والے ہیں اور میں اپنے بھائی کی بات کیسے ٹال سکتا ہوں جبکہ وزارت کے بغیر میرا اپنا دل بھی کوئی خاص نہیں لگ رہا۔ چنانچہ امید ہے کہ میں اور شیخ حفیظ صاحب دونوں مل کر عوام کی چیخیں خوب نکلوائیں گے کیونکہ یہ اکیلے آدمی کا کام ہی نہیں ہے جبکہ ایک ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں اور جو نو دو گیارہ ہونے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں، اس لئے ہر وزیر کو اخلاقی طورپر نکالے جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر وزیر کو تیار رہنے کی ریہرسل بھی کرنی چاہئے کیونکہ کسی کھلاڑی کو کسی وقت بھی کپتان تبدیل کر سکتا ہے یا کھڈے لائن لگا سکتا ہے جبکہ کھڈے لائن بھی ایک طرح سے آب و ہوا کی تبدیلی ہی ہوتی ہے۔ آپ اگلے دن اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اسد عمر کی ضد کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی: رانا تنویر حسین
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''اسد عمر کی ضد کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی‘‘ جبکہ ہم نے یہ کام کسی ضد کے بغیر بڑے آرام آرام سے کر دیا تھا جبکہ ہمارے قائدین کو ضد کرنے کی عادت ہی نہیں تھی جبکہ وہ زیادہ عادتوں کے بھی قائل نہیں تھے بلکہ صرف عوام کی خدمت کی عادت تھی جس پر وہ اس وقت تک قائم رہے جب تک وہ انتقامی کارروائیوں میں اندر نہیں کر دیئے گئے اور اب وہ ضمانتوں پر باہر آئے ہیں تو انہیں باہر رہنے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ دوبارہ اندر جانے کو جی ہی نہیں چاہتا بلکہ مزید باہر ہونے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور پیسوں کا انتظام ہوتے ہی پرواز کر جائیں گے جس کے لئے چھوٹے میاں کو لندن بھیجا ہوا ہے بشرطیکہ خود انہیں وہاں رہنے کی عادت نہ پڑ گئی اور ہم سب دیکھتے کے دیکھتے ہی نہ رہ گئے جس کے امکانات روز بروز روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں ظہرانے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب شعر و شاعری کے حوالے سے ضمیر طالب کا تازہ کلام:
ضرور ملنا ہے مجھ سے تو پھر یہیں آ جا
کہیں نہیں ہوں میں، تو بھی کہیں نہیں آ جا
ویسے تو آپ کو میں بھول چکا ہوں کب کا
رابطہ اور کسی کام سے رکھا ہوا ہے
میں جیسے جی رہا تھا کوئی جی نہیں رہا تھا
میں جیسے مر رہا ہوں کوئی مر نہیں رہا ہے
مری تسلی کو یہ بات بھی بہت ہے ضمیرؔ
جو کر رہا ہوں میں وہ کوئی کر نہیں رہا ہے
گرا چکا ہوں میں اپنی دُنیا
اب اُس کی دُنیا میں رہ رہا ہوں
کوئی بھی نہیں ہے زمانہ مرا
ازل تا ابد دیکھ آیا ہوں میں
ابھی تو شورنے ڈھانپا ہوا ہے چہرہ مرا
کبھی خاموش ہوئے لوگ تو پھر دیکھنا تم
حُسن سے کی تھی بغاوت اک بار
عشق کی قید میں ہوں تب سے میں
اُس مسافر کا تو نشاں تک نہیں
جس کی خاطر بنایا تھا یہ راستا
ایسا بھی وقت مری آنکھوں پہ گزرا ہے ضمیرؔ
اُس کی باتوں کے سوا کچھ نظر آتا نہیں تھا
آج کا مطلع:
یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے
کوئی آسانی تو پیدا کر، کوئی آواز دے