تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-04-2019

کابینہ میں تبدیلی

وفاقی وزیر فواد چوہدری اور وزیر اعظم کے پولیٹیکل اسسٹنٹ نعیم الحق کے درمیان میڈیا پر اور ذاتی طور پر وجۂ تنازعہ بننے والے ایم ڈی پی ٹی وی والے ڈرامے کا ڈراپ سین اس طرح ہوا کہ ایک طرف تو نعیم الحق کی چوائس ارشد خان کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تعیناتی منسوخ کر دی گئی تو دوسری جانب نعیم الحق کو مطمئن کرنے کے لیے فواد چوہدری سے وزارت اطلاعات واپس لینے کے علا وہ نعیم الحق گروپ کے بہت ہی قریب سمجھی جانے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو مشیر برائے اطلاعات تعینات کردیا گیا۔ سچ پوچھئے تو اس کے لیے شیخ رشید بطور وزیر اطلاعات بہترین چوائس تھے بہر حال یہ چونکہ وزیر اعظم کی چوائس ہے اس لئے آنے والے دن ہی ان کے اس فیصلے کے درست ہونے کو ثابت کریں گے ۔ فواد چوہدری اور نعیم الحق میں پی ٹی وی کے ایم ڈی کی تعیناتی اور اختیارات پر میڈیا کی رونق بننے والے اختلافات نئے نہیں بلکہ یہ معاملات اس وقت شروع ہو ئے جب اپنے قریبی ساتھیوں کے مشورے سے فواد چوہدری نے پی ٹی وی کی گورننگ باڈی کے لیے چند ایک ایسے نا موں کی فہرست تیار کی جن میں نواز لیگ کے ایک میڈیا سپوکس مین بھی شامل تھے۔ جیسے ہی یہ اطلاع مجھ تک پہنچی تو میں نے اسے اپنے ایک دوست اینکر سے شیئر کر دیا جس سے یہ خبر میڈیا ٹاک بننے سے وہ فہرست د م توڑ گئی جو فواد چوہدری کے ہمراز اور پی پی پی کے ایک سابق وزیر اعظم کے ہونہار فرزند کی مشاورت سے تیار کی گئی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے وفاقی سطح پر کابینہ میں سیا سی اعتبار سے بہت ہی اہم رد وبدل کا فیصلہ غیر متوقع نہیں تو چونکا دینے والا ضرور ہے ۔وزیر خزانہ اسد عمر جنہیں عرصۂ اپوزیشن کے وقت سے تحریک انصاف کے نوجوان حلقوں میں انتہائی عزت اور احترام حاصل تھا اور معاشیات کے ماہر کے طور انہیں خاصی شہرت حاصل ہوئی‘ تاہم ان کی معاشی مہارت کا طلسم اس وقت ٹوٹ کر بکھر گیا تھا جب تحریک انصاف کو اقتدارملنے کے چند ماہ بعد ہی ڈالر اور مہنگائی اس بلند مقام تک جا پہنچے کہ اس کے زخم اس قوم کو شدت سے تڑپا گئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کچھ نون لیگ والے اس ملک کے ساتھ کر گئے ہیں بڑے بڑے ماہرین معاشیات کے لیے اس صورتحال کو سنبھالنا شاید ممکن نہ ہو۔ ''38 ارب ڈالر‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں قیا م پاکستان سے عمران خان کی حکومت تک تمام حکمرانوں کی جانب سے پاکستان کی گردن اور کمر پر لادے گئے تمام قرضوں کی تفصیلات پیش کی ہیں‘ جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ نا اہل عمران خان نہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔رہی بات عامر کیانی کی تو روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اڑان کے نتیجے میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا جسے بہتر طریقے سے کنٹرول نہیں کیا گیا اور وہ ادویات جو بد قسمتی سے آج گھر گھر کی ضروریات بن چکی ہیں ان کی قیمتوں پر کنٹرول کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے عامر کیانی کی تبدیلی غیر متوقع نہیں تھی۔ فواد چوہدری کا نعیم الحق پر شعروں کی شکل میں کیا گیا حملہ در اصل نعیم الحق پر نہیں بلکہ براہ راست عمران خان پر حملہ تھا جسے دو وجوہ کی بنا پر برداشت کیا گیا ۔ وزیر اعظم کا اپنے سیا سی مشیر اور دوست نعیم الحق کے بارے میں اپنے ہی وفاقی وزیر کی زبان سیــ ـ''بنے ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا‘‘کی زبردست چوٹ سہنے کے با وجود ان کی تبدیلی کا فیصلہ بہت دیر سے شاید اسی مجبوری کی وجہ سے کیا گیا جو بہت پہلے کر دینا چاہئے تھا ۔ میری معلومات کے مطا بق فواد کی جانب سے عمران خان کے ایک بہت ہی ذاتی طور پر مخالف میڈیا گروپ کے دو سینئر اور معروف اصحاب کے ساتھ راز و نیاز کی محفلوں میں اندر کی باتیں شیئر کی جا رہی تھیں اس کے علا وہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے والے ان کے ہونہار بیٹے‘ جن کی سفارش پرانہیں گیلانی صاحب کا ایڈوائزر مقرر کرایا گیا ان سے اہم مخبریاں حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران چوہدری صاحب عمران خان اور ان کے با اعتماد ساتھی شیخ رشید کے خلاف وہی زبان استعمال کیا کرتے تھے جیسے دانیال اور طلال وغیرہ مریم صفدر کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ 
لاہور سے تعلق رکھنے والے میڈیا سے متعلق حضرات کو شاید یاد رہ گیا ہو کہ جب ایوان اقبال لاہور میں پنجاب حکومت کی ششماہی کار کردگی کی رپورٹ پیش کرنے کے لیے پی ٹی آئی کا سیمینار ہو رہا تھا تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بہت پیچھے عام نشستوں پر بٹھایا گیا جس پر نعیم الحق انہیں اپنے ساتھ لا کر وفاقی اور صوبائی وزرا کے لیے مخصوص کی گئی نشستوں پر بٹھاتے دیکھے گئے ۔ اس سے یہ تاثر ابھرا کہ وزیر اطلاعات کے لوگ شاید ڈاکٹر فردوس کے وزیر اعظم عمران خان سے ملنے پر خائف ہونا شروع گئے ہیں۔ میرے لئے اس وقت سے ہی یہ بڑی خبر تھی اور جب تحقیقات کی گئیں تو یہ خدشات درست ثابت ہونے لگے کہ نعیم الحق اور فواد چوہدری میں کچھ تنائو ضرور ہے۔ نعیم الحق کے عمران خان صاحب سے قریبی تعلقات اور وزیر اعظم ہائوس میں با اثر ہونے سے خائف خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب جن کے پاس میڈیا ایڈوائزری کا عہدہ ہے ان کو چوہدری فواد نے اپنے ساتھ ملا رکھا تھا جنہیں یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ایسے تمام صحافیوں اور میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو وزیراعظم عمران خان سے بد ظن کریں گے اور حکم دیا کہ اس قسم کے لوگ جو گزشتہ دس بارہ برسوں سے ''میثاق جمہوریت ‘‘کے بھائیوں کی جانب سے آنے والی تمام دلکش پیشکشوں کو ٹھکرا کر تحریک انصاف اور عمران خان کے ویژن کا ساتھ دیتے چلے آ رہے ہیں انہیں عمران خان کے نزدیک نہ آنے دیا جائے اور یہ احکامات وزارت اطلاعات کے ماتحت اداروں کو بھی جاری کر دیئے گئے ۔ بہت سے معاملات نہ جانے کیوں شکوک و شبہات ابھار رہے ہیں جن میں میاں شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور حنیف عبا سی کی ضمانتی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ سے عمران خان حکومت اور نیب کا رجوع نہ کرنا سر فہرست ہے۔ عمران حکومت کے لیے اس میں کیا مجبوری ہو سکتی ہے؟سوشل میڈیا کو دیکھیں تو سبھی کہہ اٹھے ہیں کہ ان کی ضمانتیںعمران خان کے احتساب کے عزم کو کمزور کر رہی ہیں تو ان کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے میں دیر کیوں ؟
عمران خان کی چند ایسی غلطیاں جن کے متعلق پاک فضائیہ سے ریٹائر میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جاوید ہاشمی کو جب پی ٹی آئی میں لیا جا رہا تھا تو اس وقت بہت سے ہمدرد اور خیر خواہ چیختے رہے کہ مت کریں لیکن خان نے سب کی بات ٹھکرائی جس کا خمیازہ اس طرح بھگتا کہ اس نے چپکے سے کمر میں اس وقت چھرا گھونپا جب کپتان وکٹ پر کھڑا تھا۔اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اسد عمر کی تمام فیملی انتہائی کٹرقسم کی نواز پرست ہے اور انہوں نے وزیر خزانہ بنتے ہی مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کی پالیسیوں سے ایک انچ بھی انحراف نہ کیا اور وہ گڑھے جو نواز لیگ نے کھودے تھے ان سے بچنے کی بجائے انہی میں پاؤں رکھا۔میاں شہباز شریف کو لیڈر آف اپوزیشن تسلیم کرنا اور اس کی پیروی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو بھی پنجاب میں یہ عہدہ عطا کرنا سخت نادانی نہیں تو اور کیا ہے ۔ اور پھر آئین اور قانون سے ہٹ کر پروڈکشن آرڈر جاری کرانا سمجھ سے با لا تر ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved