تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     26-04-2013

نکلو‘ ہلکے ہو یا بوجھل!

نکلو ہلکے ہو یا بوجھل۔ ملک کے مقدر کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ تاریخ کے چوراہے پر ہم لمبی تان کر سونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہم اسے شریف بھیڑیوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔ اٹھ! اے انسانوں کے سمندر اٹھ! یاسمین راشد کیسی بے مثال خاتون ہیں۔ کیسی بہادر اور کس قدر ایثار کیش۔ لاہور کے مریضوں‘ محتاجوں اور مفلسوں کے لیے‘ افتادگانِ خاک کے لیے‘ ان کی خدمات اتنی بے شمار ہیں کہ ایک کتاب لکھی جائے تو قاری کے دل پر جا اترے۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی گود میں پروان چڑھے اور ملک کی دولت سمیٹ کر برطانیہ بھیج دینے والے نوازشریف کے مقابلے میں لازماً انہیں جیتنا چاہیے۔ وہ جیت سکتی ہیں۔ لاہور کے بچوں کی مادرِ مہربان۔ رونے دھونے کی بجائے‘ تحریک انصاف کے کارکنوں کو میدان میں نکلنا اور گھر گھر جانا چاہیے۔ گجر خان کے فے فے صاحب اپنی فکر خود کریں لیکن گوجرانوالہ کے اُجلے سیاستدان‘ ایس اے حمید اور یاسمین راشد ایسے امیدواروں کے لیے دل و جان کے ساتھ ریاضت سے کس نے روک رکھا ہے؟ ساٹھ ستر فیصد امیدوار اچھے ہیں تو اتنے ہی سہی۔ بدترین حالات میں تحریکِ انصاف کے بے ریا اور مخلص نوجوان‘ جس طرح اپنا پسینہ بہا رہے ہیں‘ وہ قابلِ رشک ہے۔ ظفر مندی کی آرزو ہے تو باقیوں کو بھی یہی کرنا ہوگا۔ ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام تلخ کوشی سے ہے جامِ زندگانی انگبیں لاہور کے حلقہ این اے 120 میں 80فیصد سے زیادہ ووٹر پولنگ سٹیشنوں پر پہنچائے جائیں۔ شریف خاندان نے لاہور کو اغوا کرنے کے لیے ریپڈ بس سروس پر پچاس ارب روپے برباد کر دیئے (موٹروے سے بھی دس ارب روپے زیادہ)۔ لاہور اور پنجاب کے بل پر وہ پورے پاکستان پر قبضہ کرنے کے متمنی ہیں۔ جنگ اسی شہر میں ہے اور سب سے زیادہ حلقہ این اے 120میں۔ لیپ ٹاپ اور شمسی توانائی کے یونٹ بانٹے‘ سستی روٹی‘ پیلی ٹیکسیاں‘ پنجاب کا خزانہ انہوں نے برباد کردیا۔ انہیں سزا ملنی چاہیے اور یہ سزا تحریکِ انصاف کے کارکن ہی دے سکتے ہیں۔ چہار جانب آگہی کے دیے روشن کر کے ع اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ چینل کے چینل بِک گئے‘ پورے کے پورے اخبارات خرید لیے گئے اور اداروں کے ادارے۔ کیا کہنے‘ اس سروے کے کیا کہنے۔ بظاہر نیک نام وہ شخص دعویٰ کرتا ہے کہ پنجاب کے 59 فیصد ووٹر نون لیگ کے حامی ہیں۔ پھر اس کے بعد کیا فکر؟ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ 1970ء کے شیخ مجیب الرحمن کی طرح پنجاب کی سب سیٹیں اس کے ممدوح نوازشریف کی۔ اس نے فرمایا کہ پیپلز پارٹی کے پندرہ فیصد ووٹر عمران خان لے گیا۔ پھر اسی ہنگام نون لیگ کے طنبورے نے ارشاد کیا کہ پیپلز پارٹی‘ عمران خان کی پشت پناہ ہے کہ شریف خاندان کو زک پہنچائے۔ خود کو تباہ کرنے والے کے زرداری صاحب پشت پناہ ہیں؟ پھر شہباز شریف نے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ عمران خان اور آصف علی زرداری کی تقاریر ایک ہی شخص لکھتا ہے۔ قبلہ! ایک ہی شخص؟ زرداری صاحب سے کس کا گٹھ جوڑ تھا؟ شریف برادران یا عمران خان کا؟ کیا یہ برطانوی وزیراعظم نے 2008ء میں بائیکاٹ کے شریفانہ اعلان کے بعد ذاتی طور پر فون کر کے نوازشریف کو الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور نہ کیا تھا؟ کیا چودھری نثار علی خان نے عمران خان سے یہ نہ کہا تھا کہ اگر نون لیگ نے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیا تو وہ پارٹی چھوڑ دیں گے۔ قاضی حسین احمد تو اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ محمود اچکزئی زندہ سلامت ہیں اور قاضی صاحب کے جانشین سید منوّر حسن بھی۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کر وہ بتائیں کہ کیا یہ امریکہ کے نیگروپانٹے اور رچرڈ بائوچر نہ تھے‘ جنہوں نے دو بار بائیکاٹ کا حتمی وعدہ کرنے والے‘ نوازشریف کو فیصلہ واپس لینے پر آمادہ کیا؟ کیا یہ انکل سام نہ تھا‘ جس کے ایما پر میثاقِ جمہوریت کی عبارت لکھی گئی؟ کیا اس میثاق میں یہ نہ کہا گیا تھا کہ امریکہ کے مقبوضہ افغانستان اور پاکستان کو تباہ کرنے کے آرزو مند بھارت سے ہر حال میں اچھے مراسم قائم کیے جائیں گے؟ اچھے تعلقات لازماً‘ پڑوسیوں سے کشیدگی قائم رکھنے میں کون سی دانائی ہے لیکن ہر حال میں کیسے؟ اور امریکہ کے ایما پر کیوں؟ کیا یہ امریکہ ہی نہ تھا‘ جس نے جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ اقتدار کا منصوبہ بنایا اور جس کے لیے بالواسطہ طور پر نوازشریف نے مدد فراہم کی۔ کیا یہ نوازشریف نہ تھے‘ جنہوں نے یوسف رضا گیلانی ایسے شخص کو متفقہ طور پر وزیراعظم بنانے کے لیے ملک کے مجبور عوام سے بے وفائی کی؟ ایک بار پھر سوال ہے کہ نواز شریف کی دولت کہاں ہے ؟ اس کی اولاد کہاں ہے؟ پھر یہ کہ برطانیہ بہادر اس کی سرپرستی کے لیے اتنا بے تاب کیوں رہتا ہے؟ دنیا کی سب سے زیادہ سازشی قوم، جو گورداسپور کو بھارت میں شامل کرنے اور کشمیر کو غلام رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ جس کی سیکرٹ سروس ایم آئی سکس گوادرسے کراچی تک کا علاقہ پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی ہے، نواز شریف سے اتنی محبت کیوں کرتی ہے؟ امریکہ اور اس کے لے پالک عرب ممالک اس خاندان کے سرپرست کیوں ہو گئے؟… اس خاندان کو پاکستان کے دشمنوں پر ہی اعتماد کیوں ہے؟ انہیں اس شخص پر ہی اعتماد کیوں ہے؟ مغربی ممالک کے سفارت کار ، بھاڑے کے ٹٹوئوں سے کیوں سرگوشیاں کرتے ہیں؟۔ ان کے گھروں پر کیوں پہنچتے ہیں؟ انہیں یہ الہام کیسے ہوا اور کارندے ان پر ایمان کیوں لائے کہ عمران خان انتخابی دوڑ میں چوتھے نمبر پر آئیں گے؟ کیا امریکہ کی قیادت میں عرب ممالک اور پاکستان کے زردار طبقات کی مدد سے کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے کہ غیر معمولی تزویراتی اہمیت کے حامل اس ملک کو مجروح اور محتاج رکھا جائے؟ ہمیشہ اس حال میں رکھا جائے کہ بلیک میل کیا جاسکے ؟ ۔ امریکہ سے مالی امداد حاصل کرنے والے چینل اور اخبارات شریف خاندان پر اس قدر مہربان کیوں ہیں؟ گیلپ پاکستان کو اس وقت بھی اپنے جائزوں میں تحریک انصاف کا نام تک شامل کرنے کی توفیق کیوں نہ ہو سکی، دوسرے اداروں نے جب اسے ملک کی سب سے مقبول پارٹی قرار دیا تھا؟ ٹکٹوں کی ناقص تقسیم سے عمران خان نے اپنا جو نقصان کیا‘ سوکیا۔ سوال مگر دوسرا ہے‘ اگر یہ چوتھے نمبر پر آنے والی پارٹی ہے تو ساری دنیا کو اس کے خلاف اتحاد قائم کرنے کی فکر کیوں لاحق ہوئی؟ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کو نوکری مل جائے گی۔ بھاڑے کے ٹٹو سفیر اور سینیٹر ہو جائیں گے مگر پاکستان کو کیا ملے گا؟ کیا یہ ملک ہمارا گھر نہیں اور کیا اس کے انتخابات ہمارا اپنا معاملہ نہیں؟ پھر عربوں‘ امریکیوں اور انگریزوں کو تکلیف کیا ہے؟ ان سے رسم و راہ کا مطلب کیا ہے؟ پھر اس پر حبِّ وطن کے دعوے کیسے ہیں؟ ع زباں کچھ اور بوئے پیرہن کچھ اور کہتی ہے لاہور کے 67سابق ناظم تحریک انصاف سے وابستہ ہوگئے مگر اخبارات اور چینلوں پر اس غیر معمولی واقعے کا چرچا کیوں نہ ہو سکا؟ عمران خان کے جلسے نون لیگ کے جلسوں سے بدرجہا بڑے ہیں۔ اکثر ٹی وی میزبان ان کا حوالہ کیوں نہیں دیتے؟ قیام پاکستان کے 65 برس بعد لاہور کے ڈی سی او کو الہام ہوا ہے۔الہام کہ مینار پاکستان پر جلسہ کرنے سے اس کی تقدیس مجروح ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ نون لیگ اس جلسہ گاہ کو بھر نہیں سکتی۔ قومی خزانہ لٹا کر عوام کے خون پر پلنے والے مالداروں کی مدد ہی سے الیکشن جیت سکتی ہے۔ کہنے والے معتبر لوگوں نے سچ کہا کہ پنجاب کی حکومت آج بھی شہباز شریف چلا رہے ہیں۔ سپیشل برانچ آج بھی ان کے لیے کام کرتی (اور ان کے لیے ٹیلی فون تک ٹیپ کرتی ہے)۔ ڈی سی او کے حالیہ حکم سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی۔ فطری طور پر ایک بار پھر یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کو وزیراعظم بنانے کا منصوبہ کہاں بنا تھا؟ نون لیگ اس خاتون کی حامی کیوں تھی‘ جو ہمیشہ بھارت اور امریکہ کی طرف داری کرتی ہے۔ جس نے یہ کہا تھا: ہمارا ایجنڈہ یہ ہے کہ پاکستان سے اسلام کو ملک بدر کردیا جائے۔ نجم سیٹھی کو وزیراعلیٰ کس نے بنوایا۔ کیا شریف برادران خود ہی آمادہ تھے‘ امریکہ بہادر کے اشارے پر یا برطانیہ نے فرمائش کی؟ کوئی تو بولے‘ کوئی بتائے! نکلو‘ ہلکے ہو یا بوجھل۔ ملک کے مقدر کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ تاریخ کے چوراہے پر ہم لمبی تان کر سونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم اسے شریف بھیڑیوں کے حوالے نہیں کر سکتے۔ اٹھ! اے انسانوں کے سمندر اٹھ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved