اوکاڑہ ضلع بنا‘ تو شاہد رفیع وہاں بطورِ اے سی تعینات ہوئے۔ نہایت نفیس اوراپ رائٹ افسر تھے۔ کسی سفارش تک کے روادار نہ تھے۔ میرے محلے ہی کے ایک جیالے محمد رمضان عرف جانی کا بیٹا کسی معمولی جرم میں اندر ہوا‘ تو میں نے ان سے کہا کہ اگر اُسے معاف کر دیں ‘تو آئندہ ایسی حرکت نہیں کرے گا اور اس طرح اس کی گلوخلاصی ہوئی۔ ایک دن شام کو ان کا چپڑاسی آیا اور بولا کہ اے سی صاحب یاد فرما رہے ہیں۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اور یاد کیا کہ میں نے تو ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔ گیا تو ان کے پاس آفتاب احمد شاہ بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً یہ دونوں سانحہ ٔ ڈھاکہ کے بعد بھارت کی قید میںبھی رہے تھے۔ شاہد رفیع سے میرا انہوں نے باقاعدہ تعارف کرایا‘ ورنہ پہلے مجھے وہ بطورِ ایک وکیل ہی کے جانتے تھے۔
آفتاب احمد شاہ سے دوستانہ کافی پہلے کا تھا اور میں نے اُن کے پہلے مجموعۂ کلام ''فردِ جرم‘‘ کا دیباچہ بھی لکھا تھا۔ اس دوران ایک لطیفہ یہ بھی گزرا کہ وہ جب کمشنر ڈیرہ غازی خاں
تھے‘ تو وہاں ایک مشاعرہ کروایا اور مجھے گاڑی بھیج کر بطورِ خاص منگوایا گیا اور ستم بالائے ستم یہ کہ میرے نہ نہ کرنے کے باوجود مجھ سے صدارت بھی کروا دی؛ حالانکہ کئی سینئر شعراء منیر نیازی اور احمد ندیم قاسمی بھی موجود تھے۔ میں نے اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کا چارج لینا تھا‘ تو آفتاب اقبال کے ہمراہ آفتاب شاہ بھی سہولت کار کے طور پر موجود تھے‘ جبکہ آفتاب ان دنوں وزیراعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کے میڈیا ایڈوائزر تھے۔ اب بھی کبھی کبھار ان کا فون آتا ہے اور پھر کافی عرصے کے لئے غوطہ لگا جاتے ہیں۔ ایک بار بتایا کہ بیٹی بھی شاعرہ ہیں اور صاحبِ کتاب بھی ہونے والی ہیں۔ مجھ سے دیباچہ لکھنے کا کہا‘ لیکن میں نے کہا کہ آپ کا دیباچہ لکھا ہے‘ اب بیٹی کا لکھنے بیٹھ جاؤں‘ یہ مجھے مناسب نہیں لگتا۔
اب آتے ہیں؛ اپنے اصل موضوع کی طرف ‘جو شاہد رفیع صاحب کی گرفتاری سے پیدا ہوا۔ میرا دل نہیں مانتا کہ شاہد رفیع جیسا شخص کرپٹ بھی ہو سکتا ہے اور ‘اگر خدانخواستہ ہو بھی تو اس کی جو وجوہ میری سمجھ میں آتی ہیں ‘وہ یہ ہیں کہ شریفوں کے ادوار میں؛ چونکہ کرپشن اوپر‘ یعنی چوٹی سے شروع ہوتی تھی‘ اس لئے اس کا بتدریج نیچے تک آنا قدرتی بات تھی کہ وہ جی حضوری قسم کے افسروں ہی کو اچھی جگہوں پر لگاتے تھے‘ جو ان کا ہر جائز ناجائز حکم مانتے تھے‘ ورنہ اُنہیں کھڈے لائن لگا دیا جاتا اور ان کی ترقیاں بھی کافی عرصے تک کھٹائی میں پڑی رہتیں اور یہ افسر؛ چونکہ لاڈلے ہوا کرتے تھے‘ اس لئے بے دھڑک رشوت ستانی میں بھی ملوث ہو جانا‘ ان کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہ ہوا کرتی؛ چنانچہ حکومت کا کام بھی خوب چلتا اور ان افسروں کا بھی۔ اس لئے رشوت ستانی ان افسروں کی سہولت کم اور مجبوری زیادہ تھی‘ کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اگر اوپر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے‘ تو اُنہیں کیا ڈر ہے۔ بہت کم افسر ایسے تھے‘ جنہوں نے آفتاب احمد شاہ کی طرح حالات کا مقابلہ بھی کیا اور عزت کے ساتھ نوکری بھی نبھائی۔
ان میں کئی ایسے بھی تھے‘ جو بظاہر نیک پاک بنے رہتے‘ کیونکہ باقی سارا کام ان کے سانبھو کرتے ‘جو ان کے گھریلو خرچوں کے ذمہ دار بھی ہوتے اور باقی معاملات بھی خوبصورتی سے سرانجام دیا کرتے۔ ایسے حضرات گھنے بن کر ہی جملہ معاملات سے سرخرو ہوا کرتے۔
یہ تحریر کرپٹ افسروں کے دفاع میں نہیں ہے‘ بلکہ ان کے حوالے سے ہے ‘جو زبردستی کرپٹ بنا دیئے گئے یا جن کے پاس اور کوئی چارہ ٔکار ہی نہ تھا‘ جو اگر کرپشن نہ کرتے ‘تو نہ شریفوں کے منظورِ نظر ہوتے‘ نہ ڈھب سے نوکری کر سکتے اور اب صورت حال یہ ہے کہ شریفوں کے ساتھ یہ بھی بھگت رہے ہیں‘ یعنی :ع
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تُم کو بھی لے ڈوبیں گے
اور اب حسب معمول اس ہفتے کی تازہ غزل:
ناروا تھا تو یہ کس طرح روا ہونا تھا
تو مرا ساتھ نبھاتا بھی تو کیا ہونا تھا
ہمیں تھوڑی سی توجہ ہی بہت کافی تھی
کون سا ہم نے ترے در کا گدا ہونا تھا
ابھی موسم نے بدلنی تھی ذرا سی کروٹ
ابھی کچھ دیر کو صرصر نے صبا ہونا تھا
صورتِ حال ابھی موڑ پہ آنا تھی کوئی
دیکھتے دیکھتے بندے نے خُدا ہونا تھا
دل پہ اک بوجھ تھا لادا ہوا خود ہی‘ ورنہ
وہ کوئی قرض نہیں تھا جو ادا ہونا تھا
اور پھر جھوم کے بادل نے برسنا تھا ابھی
مور نے ناچنا‘ جنگل نے ہرا ہونا تھا
کسی تدبیر سے تاثیر نے ہونا تھا وداع
کسی تصویر سے رنگوں نے ہوا ہونا تھا
مضحکہ خیز تو تھا‘ قابلِ افسوس نہیں
یہ جو مل بیٹھنے سے پہلے جُدا ہونا تھا
عشق نے رنگ جمانا تھا کچھ اس طرح‘ ظفرؔ
اور‘ اس شہر کے اچھوں نے بُرا ہونا تھا
آج کا مطلع
اب جو نہیں رہی ہے‘ شراکت کا شکریہ
جتنی بھی کر سکے ہو محبت کا شکریہ