جنرل مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کو سپریم کورٹ کے باہر آبدیدہ دیکھ کر یاد آیا خدا کیسے کیسے نظارے دکھاتا ہے۔ ہم ہیں کہ سیکھتے ہی نہیں ۔ میں تو کانپ کررہ گیا ہوں کیونکہ میں نے جنرل مشرف کے وہ آٹھ برس قریب سے دیکھے ہیں جب ان کی مرضی کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تھا۔ فوری طور پر کچھ لوگ ذہن میں آئے جن کے ساتھ جنرل مشرف دور میں بدترین تشدد کیا گیا۔ مجھے پتہ نہیں ان میں سے کس کی آہ لگی ہے کہ جنرل مشرف کو یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔ فہرست طویل ہے۔ ان ناموں میں سے جاوید ہاشمی اور ڈاکٹر ظفر الطاف بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک ایڈیٹر کے خاندان کے ساتھ جو کچھ جنرل راشد قریشی کی سربراہی میں کیا گیا ، اس کا عینی شاہد ہوں ۔ اس ایڈیٹر کا قصور تھا کہ اس نے پاکستانی میڈیا کے آج کے بڑے بڑے ناموں کے برعکس جنرل مشرف دور میں جھکنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس باغی ایڈیٹر کو سزا دلانے کے لیے اُس پر کپڑے دھونے والی مشین چوری کا مقدمہ درج کرایا گیا اور پھر اُسے کراچی سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں پھینک دیا گیا تھا۔ اس بے گناہ کی حاملہ بیوی اپنے چھ چھوٹے بچوں کو کراچی چھوڑ کر میرے اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ راولپنڈی کے ججوں کی عدالتوں کے باہر دھکے کھاتی اور روتی رہتی اور ہم دونوں اسے تسلیاںدیتے۔ اس پر بس نہ ہوا تو اس ایڈیٹر کے کم عمر بھانجے کو گرفتار کر لیا گیا۔ سینیٹر ظفر علی شاہ کا اللہ بھلا کرے انہوں نے اس وقت کیس لڑا جب ایم آئی براہ راست اس مقدمے کو ڈیل کررہی تھی اور جنرل راشد قریشی فرعون بنے ہوئے تھے۔ کیا جنرل مشرف کو چھ بچوںکی حاملہ ماں کی بددعا لگی ہے جو اپنے بے گناہ خاوند کو چھڑانے کے لیے اسلام آباد میں دھکے کھاتی رہی کہ آج جنرل مشرف کا وکیل عدالت کے باہر رو رہا ہے کہ اُس کے مؤکل کو بیمار ماں سے ملنے دیا جائے؟ قصوری کو روتے دیکھ کر یاد آیا کہ کیسے جاوید ہاشمی نے پانچ سال تک بہادری سے جیل کاٹی اور ہمارے جیسے سرائیکی علاقوں کے لوگوں کا سر فخر سے بلند کیا جو یہ طعنے سنتے سنتے تنگ آگئے تھے کہ سرائیکی لیڈر مزاحمت نہیں کرتے۔ ایک ٹی وی شو میں شیخ رشید نے اپنے روایتی انداز میں طعنہ دیا ’’ملتان کے سیاستدان مزاحمت نہیں کر سکتے‘‘۔ میں نے کہا حضور! آپ تو نہ کہیں۔ جب مزاحمت کا وقت آیا تو آپ اس وقت جنرل مشرف کے قدموں میں تھے اور اقتدار کے مزے لے رہے تھے۔باقی بہادر لیڈرز لکھت پڑھت کے بعد جدہ میں دربار لگا کر جگتیں سن رہے تھے۔ ملتان سے ہی یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی اڈیالہ جیل میں جنرل مشرف کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے۔ چلیں یوسف رضا گیلانی نے تو جیل کے دنوں کی قیمت ہم سب سے کھل کر کیش میں وصول کی لیکن جاوید ہاشمی نے تو جنرل مشرف سے حلف لینے تک سے انکار کر دیا تھا جب چوہدری نثار علی خان، اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق سمیت بہت سارے نواز لیگ کے دوست با ادب قطار میں لگ کر وزارتوں کاحلف لے رہے تھے۔ شیخ رشید جو آج کل نیک پروین بن کر سب کو بھاشن دیتے رہتے ہیں، الٹا اسی جاوید ہاشمی کو ملتان دھمکی دے کر آئے تھے بہتر ہے باز آجائو وگرنہ مارے جائو گے اور وہی ہوا چند روز بعد جاوید ہاشمی پانچ سال کے لیے جیل میںقید تھا۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق ان قیدیوں میں سے تھے جن پر بے پناہ جسمانی تشدد تک کیا گیا ۔ ہاشمی صاحب کو جیل لے جایا گیا۔ پوری رات اُن پر بدترین تشدد ہوا۔ اس جیلر نے خود مجھے واقعہ سنایا تھا کہ انہوں نے کیسے بہادری سے جیل کاٹی۔ شدید گرمی میں وہ رات ڈھلنے کا انتظار کرتے کہ کب تھوڑی سی گرمی کم ہو اور وہ گیلے کپڑوں کے ساتھ سو پائیں۔ ایک دفعہ رات گئے مجھے فون آیا ۔ سخت گرمیوں کا موسم تھا ۔ میں آواز نہ پہچان پایا تو پتہ چلا کہ جاوید ہاشمی تھے۔ کسی نے فون پر بات کرادی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ کتنا مشکل ہے اپنی بچیوں سے دور رہنا اور جمہوریت کے نام پرتنہا جیل کاٹنا۔ شورش کاشمیری کی آپ بیتی’’پسِ زندان‘‘ پڑھ کر میرے دل میں ان سب کے لیے دل میں عزت بڑھ گئی ہے جنہوں نے جنرل مشرف کے دور میں جیل کاٹی ہے۔ خواجہ آصف ہوں، اسحاق ڈار یا پرویز رشید سب نے اپنے اپنے حصے کا دکھ جھیلا ہے۔ اگرچہ جب ان سب سیاسی دوستوں کا دور لوٹا تو انہیں اپنے جیسے مظلوم یاد نہ رہے اور وہ جو کچھ کر سکتے تھے، نہ کر سکے۔ میری زندگی اور خیالات پر جن چند لوگوں کا اثر ہے ان میں سے ڈاکٹر ظفر الطاف کے نقش بہت گہرے ہیں ۔ میں اگر ان سے نہ ملتا تو بہت حوالوں سے جاہل ہی رہتا ۔ ان سے کمزور انسانوں کے ساتھ کھڑے ہونا ، ظالم اور طاقتور کے ساتھ لڑنا سیکھا ۔ ان جیسا بہادر سول افسر میں نے نہیں دیکھا اورشاید دیکھ بھی نہ پائوں۔ پندرہ برس ہوتے ہیں جب میری ان سے دوستی شروع ہوئی۔ کیا شاندار اور انسان دوست باغی انسان ہے۔ ہر طاقتور وزیراعظم سے پنگے لیے، جواب میں سزا پائی۔مجال ہے کبھی پچھتائے ہوں۔ جنرل مشرف دور میں سب سے زیادہ زیادتی کا شکار ہوئے۔ روم گئے ہوئے تھے کہ دوست کا فون گیا واپس مت لوٹنا جنرل مشرف نے شوکت عزیز، عبدالرزاق دائود اور خیر محمد جونیجو کے بہکانے میں آکر نیب کو حکم دیا ہے ظفر الطاف کو گرفتار کر لو۔ جواب دیا ویسے تو تین دن بعد لوٹنا تھا، اب اگلی فلائٹ سے لوٹ رہا ہوں۔ حکم ہوا بینظیر بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنو۔ جواب دیا ماں نے وہ دودھ نہیں پلایا کہ کسی خاتون کے خلاف گواہی دوں۔ جو کرنا ہے کرلو۔ نیب نے آڈٹ پیروں کو بنیاد بنا کر بائیس مقدمات بنائے۔ میں اور ڈاکٹر صاحب روزانہ پنڈی جاتے، گھنٹوں نیب دفتر کے باہر ایک کرنل کا انتظار کرتے، ان کی رعونت بھری باتیں سنتے اور شام گئے لوٹ آتے۔ ایک ویب سائٹ کے لیے 2001ء سے وہ آرٹیکل لکھنا شروع کیے کہ آج بھی پڑھ لیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں کہ کیسے ایک سول افسر فوجی اقتدار کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ڈٹ کر لکھا ۔ سب نے منع کیا نہیں مانے اور جنوں کی حکایت لکھتے رہے۔ نیب کو حکم ہوا انہیں سیدھا کیا جائے۔ ان کی بیوی کو دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بیوی نے نہیں بتایا کہیں ڈاکٹر صاحب حوصلہ نہ ہار بیٹھیں۔ ایک دن نیب کے افسر نے دھمکی بھرا فون ان کی بیوی کو کیا اور وہ ریسیور ہاتھ میں پکڑے وہیں دم توڑ گئیں۔ خاموش اور دکھی ڈاکٹر صاحب اُسے ایمبولینس میں ڈال کر لاہور دفن کرآئے۔ اداس سرد رات‘ مَیں چپ چاپ ان کے ساتھ کھڑا تھا اور وہ ایک چٹان کی طرح مضبوط۔ پنجاب کے شریف سیاستدان جدہ سے لوٹے تو انہوں نے بھی جنرل مشرف کی طرح ڈاکٹر ظفر الطاف کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔ ایک جھوٹ کو بنیاد بنا کر انٹی کرپشن میں مقدمہ درج کرایا تاکہ لاہور میںادارہ کسان کا ہلہ دودھ بند کرایا جائے اوراپنے برخوردار کا دودھ مارکیٹ کرایا جائے۔ شہباز شریف نے آخری حکم ڈاکٹر ظفرالطاف کے خلاف جاری کیا۔ سبحان تیری قدرت! ایسی بے شمار داستانیں ہیں جو جنرل مشرف کے اقتدار کے دنوں کی بکھری پڑی ہیں۔ مجھے تو احمد رضا قصوری کے آنسو متاثر نہیں کرسکے کیونکہ مجھ سے اسلام آباد میں دربدر ہوتی کراچی کی چھ بچوں کی حاملہ ماں ، جاوید ہاشمی اور ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی نہیں بھلائی جاتی۔ مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری‘ جو جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک ہمیشہ تاریخ کے الٹ چلتے ہیں، کے آنسو دیکھ کر یاد آیا کون کہتا ہے خدا انسانوں کو سزا دینے کے لیے قیامت کا انتظار کرتا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved