تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     23-04-2019

صحابہ کرامؓ… روشنی کے مینار

جنگ احد کے کچھ عرصہ بعد عضل اور قارہ کا ایک وفد آنحضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہمارا قبیلہ مسلمان ہو چکا ہے‘ مگر اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے۔ آپ ہمارے ساتھ کچھ ایسے صحابہ بھیج دیں‘ جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیں اور اسلامی اصول و مبادی سے واقفیت بہم پہنچائیں۔ آنحضوؐر نے اُن کی درخواست پر ایک وفد تشکیل دیا۔ ارکان وفد کی تعداد اور امیر وفد کے بارے میں تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ وفد چھ صحابہ پر مشتمل تھا۔ 
وفد کے تمام ارکان صاحب علم و عرفان اور صاحب شمشیر و سنان تھے۔ جب یہ لوگ قبیلہ ہذیل کے چشمے ذات الرجیع پر پہنچے‘ جو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو ان کے ساتھ غدر کیا گیا‘ جو انسانی تاریخ کا بدترین اور مذموم ترین غدر تھا۔مشرکین سازش تیار کرکے گئے تھے‘ جسے رجیع کے مقام پر عملی جامہ پہنایا گیا۔ صحابہ کرام نے چشمے کے قریب اطمینان سے قیام کیا‘ مگر اچانک ہر جانب سے اپنے آپ کو حملہ آوروں کے نرغے میں پایا۔ حملہ آور انہیں زندہ گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ صحابہ کرامؓ جب اس ناگہانی مصیبت میں گھر گئے تو ان کے امیر عاصم بن ثابتؓ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور فرمایا کہ اگرچہ ہم جنگ لڑنے کیلئے نہیں آئے تھے‘ مگر جنگ ہمارے اوپر مسلط کر دی گئی ہے۔ اپنی تلواریں نکال لو اور پا مردی سے دشمن کا مقابلہ کرو۔ صحابہ کرام ایک ٹیلے پر چڑھ گئے تھے۔ جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ کوئی پیش نہیں کی جارہی تو انہوں نے کہا کہ ہم تم لوگوں کو امان دیتے ہیں اور اﷲ کی قسم کھا کر عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ حضرت عاصمؓ نے فرمایا کہ ہم کسی مشرک کی امان قبول نہیں کرتے اور نہ تمہارے عہد کا ہمیں کوئی اعتبار ہے۔اس کے بعد ان چھ جانثاران نبوی پر مشرکوں نے ہر جانب سے حملہ کردیا۔حضرت مرثد بن ابی مرثدؓ ‘ خالد بن بکیرؓ‘ عاصم بن ثابتؓ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ‘جبکہ حضرت زید بن دثنہؓ‘ خبیب بن عدیؓ اور عبداﷲ بن طارقؓ زخمی حالت میں قید کر لیے گئے۔ ان میں سے بھی حضرت عبداﷲ بن طارقؓ راستے میں اپنے ہاتھوں کو زنجیروں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے اور ایک دشمن سے تلوار چھین کر حملہ کر دیا۔ مشرکین نے حضرت عبداﷲ کے ساتھ رو در رو تلوار سے لڑائی لڑنے کہ بجائے ان سے دور بھاگ کر انہیں پتھر مار مار کر شہید کر دیا۔ یوں یہ صحابی مکہ پہنچنے سے پہلے شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت مرالظہر ان کے مقام پر ہوئی۔ وہیں اُن کی لحد مبارک ہے۔
حضرت عاصم بن ثابتؓ بڑے مشہور جنگجو تھے۔ بدر اور احد میں ان کی شمشیر خارا شگاف نے دشمنان خدا کے گلے خوب کاٹے تھے۔ وہ ماہر تیر انداز بھی تھے‘ انہوں نے احد کی جنگ میں قریش کے دو علمبرداروں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا تھا۔ مقتولین کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ عاصم کے سر کی کھوپڑی میں شراب پی کر اپنے مقتول بیٹوں کا انتقام لے گی۔ اس خاتون سلافہ بنت سعد نے حضرت عاصمؓ کے سر کی بھاری قیمت مقرر کی ہوئی تھی۔ حضرت عاصمؓ بھی اس بات سے بے خبر نہیں تھے۔ شہادت سے پہلے انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے کہا کہ یا اﷲ یہ سر تیری ہی امانت ہے‘ تیری راہ میں یہ حاضر ہے‘ مگر میری ایک آرزو ہے کہ شہادت کے بعد کوئی مشرک میرے جسم کو ہاتھ نہ لگا سکے۔ شہادت کے بعد مشرکین ان کا سر کاٹنا چاہتے تھے‘ مگر عین اسی لمحے شہد کی مکھیوں کا بہت بڑا غول پہاڑی درختوں سے اڑا اور حضرت عاصمؓ کے جسد اطہر پر منڈلانے لگا۔ مشرکین کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انہوں نے سوچا کہ شام کو مکھیاں اپنے چھتے میں چلی جائیں گی تو سر کاٹ لیں گے۔ صاف شفاف آسمان پر اچانک ایک کالی گھٹا نمودار ہوئی جس کے بعد موسلادھار بارش شروع ہو گئی‘ وادی پانی سے بھر گئی اور تیز رفتار پانی اﷲ کے بندے کی آرزو پوری کرتا ہوا اسے بہا کر نامعلوم مقام کی طرف لے گیا۔ دشمن منہ دیکھتے رہ گئے۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے جگہ جگہ اپنے جنود (لشکروں) کا ذکر کیا ہے۔ یہ لشکر زمین و آسمان میں ہر جانب پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ بعض اوقات لوگوں کو نظر آتے ہیں اور بعض اوقات نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ وہ اﷲ کے حکم کے مطابق اپنا کام کرتے ہیں۔ ان کی اثر آفرینی بے پناہ اور ان کی قوت کار بے مثال ہوتی ہے۔ اﷲ کا بندہ‘ اگر یقین کامل کے ساتھ اﷲ کی راہ میں چل نکلے تو قدم قدم پر یہ لشکر اس کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وما یعلم جنود ربک الاہو (المدثر۷۴:۳۱)۔اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حضرت عاصمؓ کا مقام اسلامی تاریخ میں بڑا بلند ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کے خسر تھے۔ آنجناب کے بیٹے عاصم بن عمر بن خطابؓ حضرت عاصم بن ثابتؓ کے نواسے تھے۔ حضرت خبیب بن عدیؓ اور حضرت زید بن دثنہؓ کو بنو ہذیل نے مکہ جا کر فروخت کر دیا۔ صفوان بن امیہ نے حضرت زید کو خرید لیا‘ تاکہ اپنے باپ امیہ بن خلف کے بدلے میں انتقاماً قتل کر سکے۔ حجیر بن ابی وہاب نے حضرت خبیب بن عدی کو خرید کر اپنے بھانجے عقبہ بن حارث بن عامر کے حوالے کر دیا‘ تاکہ وہ انہین اپنے باپ کے بدلے میں قتل کرکے آتش انتقام ٹھنڈی کر سکے۔قریش کے لوگوں نے ان دونوں اسیروں کو اس انتظار میں قید کر دیا کہ حرام مہینے گزر جائیں تو انہیں قتل کیا جائے۔ قید کا یہ زمانہ بھی بڑا یادگار تھا اور جاں نثار ان رسولؓ کی شہادت کے واقعات بھی عظمت کا نمونہ اور روشنی کے مینار تھے۔زید بن دثنہ کو حدود حرم سے باہر لے جا کر ایک مجمع عام کے سامنے شہید کیا گیا۔ صفوان بن امیہ نے اپنے غلام نسطاس کو حکم دیا جس نے ان کا سر قلم کر دیا۔ زید بن دثنہ کی شہادت سے پہلے قریشی سرداروں نے ان سے کہا: اے زید! ہم تم سے خدا کے نام پر پوچھتے ہیں‘ سچ بتاؤ اب تو تم چاہتے ہو گے کہ تمہاری جگہ محمد(ﷺ) پکڑا جائے‘ اس کی گردن اڑا دی جائے اور تم اس کے بدلے میں چھوڑ دیے جاؤ۔ حضرت زید کا جواب تھا: ''خدا کی قسم میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ آنحضوؐر کے پاؤں میں کانٹا چبھے اور اس کے بدلے میں میری جان بچ جائے۔‘‘ سیرت ابن ہشام میں ابوسفیان کا قول یوں نقل کیا گیا ہے: ''خدا کی قسم میں نے دنیا میں کہیں ایسے لوگ نہیں دیکھے‘ جو کسی شخص سے اتنی محبت رکھتے ہوں‘ جتنی محمدؐ کے ساتھ اس کے ساتھی رکھتے ہیں۔‘‘سیدنا خبیبؓ کا ابتلا زیادہ تفصیل کے ساتھ مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ مکہ میں قید کے دوران میں انہوں نے اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی عظمت بڑھا دی اور اپنی ثابت قدمی اور استقامت سے دشمنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اپنے فرشتوں کے ذریعے سے رزق بھی پہنچایا اور ان کے دل کو مضبوطی بھی عطا کی‘ جس گھر میں حضرت خبیبؓقید تھے‘ اس گھر کی ایک کنیز ماویہ جو مسلمان ہو چکی تھیں ‘مگر اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں‘ بیان کرتی ہیں: ''میں نے ایک دن کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو خبیبؓ کے ہاتھ میں انگور کا ایک گچھا تھا۔ اتنے موٹے اور خوبصورت انگور میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور یہ انگوروں کا موسم بھی نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر میرا دل پکار اٹھا؛ خدا کی قسم یہ خبیبؓ کی عظمت ہے۔ یہ اﷲ کی طرف سے اسے رزق بہم پہنچایا گیا ہے۔‘‘ ( طبری‘ جلد دوم ص ۵۴۱‘البدایۃ و النہایۃ جلداول‘ ص ۷۰۴)
تنعیم کے مقام پر دونوں صحابہ کو شہید کیا گیا تھا۔ خبیبؓ کو پھانسی کے لیے لایا گیا۔ مرد‘ عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے سب یہ منظر دیکھنے کیلئے موجود تھے۔ جب ان سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو فرمایا مجھے تھوڑی سی مہلت دو کہ میں دو رکعت نفل ادا کر لوں۔ دو نفل ادا کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا: ''میرا خدا جانتا ہے کہ میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا ہوں اور آج بھی میرے دل میں خواہش تھی کہ آخری نماز لمبے رکوع و سجود اور لمبے قیام و قعدہ کے ساتھ ادا کرتا‘ مگر میں نے جلدی نماز مکمل کر لی کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں۔‘‘جا ںنثار رسول نماز سے فارغ ہوا تو تختہ دار تیار تھا۔ پھانسی کے پھندے کو چومنے کیلئے خبیبؓ تختہ دار کی جانب بڑھے۔ جب تختہ دار پر کھڑے کر دیے گئے تو مجمع عام پر ایک نظر ڈالی۔ کسی شخص کے چہرے پر رحمدلی کے آثار نہیں تھے۔ یہ دیکھ کر خبیبؓ نے کہا: اے اﷲ یہاں کوئی ایسا نظر نہیں آتا‘ جو تیرے رسول تک میرا سلام پہنچا دے۔ پس تو خود ہی میرے آقا کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے اور جو کچھ ہم پہ گزری اس کی آپؓ کو اطلاع دے دے۔حضرت اسامہ بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ اس لمحے آنحضورؓ اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے‘ آپ کے لب ہلے اور آپ نے فرمایا ''وعلیک السلام‘‘ یہ سلام رب کائنات نے جبریلؑ کے ذریعے اپنے نبی تک پہنچایا۔ صحابہ کرامؓ کے استفسار پر آپ نے اپنے جانثاروں پر گزرنے والی قیامت کی تفصیل بتائی اور فرمایا: ''خبیبؓ نے مجھے تختہ دار سے سلام بھیجا ہے۔‘‘
تاریخ اسلام میں حضرت خبیبؓ پہلے شہید ہیں‘ جنہیں پھانسی دی گئی اور جنہوں نے موت سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنے کی سنت ڈالی۔ آنحضورؓ نے اسے اپنی سنت قرار دیا اور جب بھی کسی شخص کو ایسی صورت حال پیش آ جائے‘ تو وہ خبیب کی طرح موت سے پہلے اﷲ کے حضور دو رکعت نفل ادا کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved