تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     24-04-2019

اختتامی کھیل

شطرنج میں جو کھلاڑی کھیل کے دوران مخالف پر سبقت حاصل کر لے تو پھر اس سبقت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے کھیل ختم کرنا ہوتا ہے۔ جب کھیل کے خاتمے کے لیے چالیں چلنا شروع ہوتی ہیں تو ہارنے والے کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ دفاعی کھیل کھیلتے ہوئے کچھ ایسا کر لے کہ بازی نہ بھی پلٹے مگر کوئی جیت نہ سکے۔ شطرنج کے کھیل کا یہ حصہ انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز ہوتا ہے بلکہ کھیل کی جان یہی حصہ کہلاتا ہے۔ بعض اناڑی تو اپنی جیت کو اسی حصے میں ہار میں بدل ڈالتے ہیں۔ جب کھیل کے خاتمے کے لیے چالیں شروع کر دی جائیں تو اسے کہتے ہیں‘End Game یعنی اختتامی کھیل۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں سیاست کا کھیل اسی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح صرف یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح ان کا عہدہ بچ جائے‘ چاہے اختیارات کسی کے پاس بھی چلے جائیں۔ کہتے ہیں‘ سمندر میں آپ کے جسم سے خون کا ایک قطرہ بھی بہے تو شارک مچھلیاں اسے دعوت سمجھ کر آپ کا کام تمام کر دیتی ہیں۔ سیاست کے سمندر میں بھی یہی ہوتا ہے، یہ سادہ سی بات سمجھنے میں عثمان بزدار صاحب نے آٹھ مہینے لگا دیے۔ اب ان کی وزارت اعلیٰ زخمی ہو چکی ہے اور ان کے گرد گھومتی ہوئی ہر مچھلی اسے ہڑپ کرنے کے لیے موقع تاک رہی ہے۔ 
عثمان بزدار خود کو بچانے کے لیے اس وقت پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور اور عمران خان کے دیرینہ ساتھی نعیم الحق کے کیمپ میں چلے گئے ہیں۔ چودھری محمد سرور اگرچہ سب سے بڑے صوبے کے گورنر ہیں‘ لیکن ان کی متحرک طبیعت کو یہ نمائشی عہدہ سازگار نہیں لگتا۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کی دی ہوئی گورنری بھی اسی لیے چھوڑی تھی کہ شہباز شریف کی موجودگی میں ان کے لیے کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں نکل رہی تھی۔ تحریک انصاف میں شامل ہو کر انہوں نے پہلے سینیٹ کی رکنیت اور پھر پنجاب کی گورنری اس شرط پر ہی قبول کی تھی کہ صوبے اور پارٹی کے معاملات میں ان کی اہمیت بدستور قائم رہے گی۔ گورنر بننے کے بعد جب پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کی ایک اتھارٹی بنوانے میں انہیں چھ ماہ لگے تو پہلی بار انہیں احساس ہوا کہ ان کی مراد اس پارٹی میں بھی بر نہیں آئے گی۔ پنجاب کے لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی کے سادہ سے مقصد کی راہ میں جب پارٹی کے مختلف رہنماؤں نے اعتراض اٹھا کر رکاوٹ ڈالنا شروع کی‘ تو انہیں اندازہ ہوا کہ ہر اعتراض در حقیقت جہانگیر خان ترین کے ایما پر اٹھایا جا رہا ہے۔ عمران خان کی مداخلت سے گورنر کی سرپرستی میں 'آب پاک اتھارٹی‘ بنانے کا بل اسمبلی سے منظور ہو گیا تو اسے ایک ماہ تک اسمبلی میں ہی روک لیا گیا۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ گورنر کی اس اتھارٹی کی سرپرستی کا مطلب صوبے بھر میں ان کی انتظامی مداخلت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہانگیر ترین بھی گورنر کو یہ کردار دینے کے حق میں نہیں تھے اس لیے جب سپیکر صوبائی اسمبلی نے یہ بل روکا تو اس تاخیر کی ذمہ داری بھی جہانگیر ترین کے کھاتے میں پڑی۔ اس کے علاوہ گورنر کے بعض حاسدین ان کی بنائی ہوئی فلاحی تنظیم 'سرور فاؤنڈیشن‘ کا ذکر بھی پارٹی میں شکایتی انداز میں کرتے رہتے ہیں اور اتفاق سے یہ سب جہانگیر خان ترین صاحب کے ساتھ سمجھے جاتے ہیں۔ 
جہانگیر خان ترین بغیر کسی عہدے کے عملی طور پر وزیر اعظم عمران خان کے نائب کے طور پر حکومت اور پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ میڈیا سے دور رہ کر انہوں اپنا اتنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا ہے کہ پاکستان میں طاقت کے تمام مراکز ان کی معاملہ فہمی کے قائل ہو چکے ہیں۔ اس لیے پنجاب میں تبدیلی کے لیے ان کا تحرک فقط انہی کی کوشش نہیں بلکہ اجتماعی طور پر سوچی سمجھی سکیم کے تابع لگتی ہے۔ شنید ہے کہ بعض صوبائی وزرا سمیت پنجاب اسمبلی کے تیس سے زائد اراکین ان سے ملاقات کر چکے ہیں اور ان ملاقاتوں میں ہر ایک سے پوچھا گیا ہے کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ اسے سونپی جائے تو وہ کیا کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے بار ے میں جتنے بھی لوگوں کے پس منظر کھنگالے گئے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی عمران خان صاحب کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اتر پا رہا۔ پہلے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے جنوبی پنجاب سے ہی کسی کو لانے کا پروگرام بنایا گیا تھا‘ لیکن اب تلاش کا دائرہ وسیع کر کے پورے پنجاب تک پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ اگر شمالی یا وسطی پنجاب سے کوئی وزیر اعلیٰ آتا ہے تو پھر صوبے کی گورنری جنوبی پنجاب کو دے دی جائے گی۔ گویا وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی صورت میں یہ بھی امکان ہے کہ چودھری سرور کو پنجاب کی گورنری سے الگ ہونا پڑے۔ ان حالات میں گورنر کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ ہر اس شخص کا ساتھ دیں جسے جہانگیر ترین ہٹانا چاہتے ہیں۔ غالباً گورنر کی یہی مجبوری انہیں عثمان بزدار کی سرپرستی پر مجبور کر رہی ہے۔
بطور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی سے عمران خان کتنے ہی غیر مطمئن کیوں نہ ہوں مگر یہی کارکردگی ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ جہانگیر ترین کے مخالفین کا بنتا ہوا اتحاد دیکھ کر چودھری صاحب نے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں اور وہ بھی بطور وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ بطور گورنر۔ ان کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف تحریری معاہدے کے ذریعے گورنر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختیارات کی تقسیم پر تیار ہو جاتی ہے تو وہ عثمان بزدار کے ذریعے ہی صوبہ چلا کر دکھا دیں گے۔ اس بندوبست کے لیے ق لیگ والے مونس الٰہی کی وفاقی وزارت کی قربانی دے دیں گے‘ اور گورنری کے علاوہ بلدیات سمیت دو وزارتوں کے مکمل حقوق اپنے نام کرا لیں گے۔ اگر یہ تجویز قبول کر لی جائے تو عثمان بزدار بے اختیار وزیر اعلیٰ بن کر اگلے بحران تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے‘ اور صوبہ ق لیگ دیکھے گی۔ اس صورت میں چودھری سرور گورنری چھوڑ کر کیا کریں گے، اس بارے میں فیصلہ عمران خان کریں گے۔ 
جہانگیر ترین کے وار سے بچنے کے لیے عثمان بزدار نے چودھری سرور کے مشورے پر ہی پارٹی کے یوم تاسیس پر تحریک انصاف کے اراکین صوبائی اسمبلی کو گورنر ہاؤس میں اکٹھا کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس پروگرام میں اگر اراکین صوبائی اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز نے شرکت کی تو خیال یہ ہے کہ جہانگیر ترین کو سخت پیغام جائے گا اور پارٹی میں بغاوت کے اندیشے سے عمران خان بھی عثمان بزدار کو قبول کر لیں گے۔ مگر چودھری سرور، عثمان بزدار اور چودھری پرویز الٰہی اپنی دھن میں یہ بھول رہے ہیں کہ عمران خان کو مجبور کر کے کیا جانے والا سودا زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ اراکین اسمبلی سے رابطے انہیں دو مہینے سے کچھ زیادہ وقت تو دے سکتے ہیں، انہیں ہمیشہ کے لیے بچا نہیں سکتے۔ آئندہ دو ماہ میں اگر بزدار غیر معمولی کارکردگی دکھا کر عمران خان کو سرخرو کر دیں تو شاید بچ نکلیں۔ دوسروں کی آڑ لے کر وہ کمزور تر ہو جائیں گے۔ سرگودھا کے مولوی اسلم نے کہا تھا: 
اپاہج اور بھی کر دیں نہ یہ بیساکھیاں تجھ کو
سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں 
جب کھیل کے خاتمے کے لیے چالیں شروع کر دی جائیں تو اسے کہتے ہیں‘End Game یعنی اختتامی کھیل۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں سیاست کا کھیل اسی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح صرف یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح ان کا عہدہ بچ جائے‘ چاہے اختیارات کسی کے پاس بھی چلے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved