مختلف ٹیلیویژن چینلز پر نواز لیگ اور آصف علی زرداری کے ترجمان اور چند اینکرز حضرات‘ وزیر اعظم عمران خان اور تحریک ِانصاف کی حکومت کی نا اہلی ثابت کرنے کیلئے اقتصادی صورت حال کے بارے میں مبینہ اعداد و شمار کے پردوں میں‘ جس قسم کے مغالطے پیش کر رہے ہیں‘ اس سے وہ پاکستانی قوم کی اکثریت کو کچھ عرصہ کیلئے گمراہ تو کر سکتے ہیں‘ لیکن جب سچائی سب کے سامنے آئے گی‘ تو اس سے ان سب کو اس قدر شرمندگی ہو گی کہ ان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اوران کے الفاظ ان کا ساتھ نہیں دے سکیں گے‘ پھر انہیں ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ جھوٹ کی اس تشہیری مہم سے اب تک اپنے ذاتی اور سیا سی فائدے کیلئے قوم کو دھوکہ دیئے جا رہے تھے۔
تحریک ِانصاف کی بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس نے جسے نواز لیگ اور پی پی پی کے جھوٹ اور آئے دن کی بہتان ترازیوں کا جواب دینے کیلئے وزیر اطلاعات مقرر کیا ‘اس نے جھوٹ کے پردے چاک کرنے کی بجائے اپنی ذاتی تشہیری مہم کے ایجنڈے کو ہی مقدم جانا ۔ اطلاعات کے سابق وزیرنے اپوزیشن کے جھوٹوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے وہ زبان استعمال کرنا شروع کر دی‘ جس سے چند جذباتی حلقوں میں اپنی واہ واہ تو کرالی‘ لیکن اپوزیشن کے جھوٹوں کی جانب دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا‘ جس سے کمال مہربانی سے نواز لیگ اور پی پی پی کو بلامقابلہ فتح دلاتے ہوئے وکٹری سٹینڈ پر کھڑا کرا دیا۔ شاید ایسے حضرات کے بارے میں کہا گیا '' ہوئے تم دوست جس کے‘ دشمن اس کا آسمان کیوں ہو‘‘۔ ایک فواد چوہدری پر ہی نہیں ‘تحریک ِانصاف کے بہت سے دوسرے وزراء کوبھی لاعلمی اور کمزور معلومات یا جان بوجھ کر وزیر اعظم عمران خان کو بے نطق سنائی جانے والی جعلسازیوں پر خاموشی اختیار کئے دیکھا جاتا رہا‘ جیسے دل میں وہ بھی اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہوں۔ اپوزیشن جماعتوں کا کا رٹل تین بین الاقوامی اداروں کی‘ جن جعلی رپورٹس اور اعداد و شمار کا ترجمان بن کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہے ‘ان کا اب تک؛ اگر حکومتی وزراء میں سے کسی نے پردہ چاک نہیں کیا تو شکوک و شبہات کا سر اٹھانا لازمی امرہے ۔
نواز لیگ اور پی پی پی سے یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی دوسرے کے یا پھر ان بین الاقوامی اداروں کے آلہ کار بن کر ان کی تیار کر دہ جھوٹی اور جعلی رپورٹس کو پھیلا رہے ہیں؟ کیونکہ جو کچھ میں لکھنے جا رہا ہوں‘ اس سے ثابت ہو جائے گا کہ موجودہ حکومت کی معاشی صورت حال کے متعلق تمام بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ریکارڈ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہ تمام اعداد و شمارFAKE ہیں۔ میرے جیسے ایک عام سے لکھاری کی جانب سے اتنا بڑا یہ دعویٰ ؛اگر آپ کیلئے قابل قبول نہیں‘ تو سب سے پہلے آپ دنیا کے ان تین بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی جی ڈی پی گروتھ کے اعداد و شمار کا تضاد ہی ملاحظہ کر لیجئے‘ مثلاً: ایشیائی ترقیاتی بینک کہہ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی جی ڈی پی گروتھ3.9 فیصد ہے‘ جبکہ عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ گروتھ 3.4فیصداورآئی ایم ایف اپنے اعداد و شمار کے ریکارڈ میں یہ گروتھ صرف2.7 فیصد کی صورت میں سامنے لا رہا ہے ۔ یہ حیران کن نہیں کہ دنیا کے تینوں مالیاتی اداروں کی پاکستان جیسے اہم ترین ملک کے بارے میں تیار کی گئی رپورٹس میں اس قدر تضاد ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کی وہ تمام طاقتیں ‘جو ہمیشہ سے ہماری سول حکومتوں کو ملک کے دفاعی اداروں سے ٹکرانے کی ہلا شیری دینے کا لالچ دیتی رہی ہیں‘ آج دکھ اور تکلیف میں اس لئے مبتلا ہو چکی ہیں کہ ان کی سازشوں کے بر عکس وزیر اعظم عمران خان کی سول حکومت اور فوج اپنے مشترکہ دشمنوں سے لڑنے کیلئے جانباز سپاہیوں کی طرح ایک کیوں ہیں۔ آپ کے ذہنوں میں یہ سوال لازمی آ رہا ہو گا کہ آخر پی ٹی آئی کی حکومت کی پہلی سہ ماہی سے ہی ملک کی اقتصادی صورت حال پر دنیا کے تینوں بڑے مالیاتی اداروں نے جی ڈی پی گروتھ بارے شکوک و شبہات کیوں پیدا کئے؟ اس سے ان سب کا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے۔یہ سب تو جھوٹوں کے دیوتابنے ہی ہوئے ہیں ‘لیکن پاکستان کے با شعور لوگوں کو تو سوچنا ہو گا کہ نواز لیگ اور پی پی پی کا ہر ایک ترجمان ٹی وی چینلز پر ان بوگس اعداد و شمار کو اپنے ہی ملک کی عوام کے ذہنوں میں لگاتار کیوں اور کس کے کہنے پر ٹھونسے جا رہے ہیں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ آلہ کار بن کر ان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کسی ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں؟ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ عالمی بینک ‘ ایشین بینک اور آئی ایم ایف کا کہا ‘حرف ِآخر ہوتا ہے‘ لیکن ان کے اس قدر تضاد نے ایک طرف جہاںان کی اہلیت اور قابلیت پر سوالیہ نشانات اٹھا دیئے ہیں‘ تو دوسری جانب نواز لیگ اور زرداری صاحب کے ترجمانوں کی تان ان کے جھوٹ پھیلانے کو کیوں ٹوٹی پڑی ہے۔ یہ ایک عام آدمی سے لے کر ہوش مند اور اہل علم کو اپنے ہی ملک کی اقتصادی صورت حال بارے کیوں گمراہ اور بد ظن کرتے رہے ۔
اسد عمر کی وزارت خزانہ سے علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف کے ذریعے امریکی حکومت پاکستان پر دبائو بڑھا نا نہیں‘ بلکہ مجبور کر رہی تھی کہ دو ماہ بعد پیش کئے جانے والے بجٹ میں براہ راست ٹیکسوں کا ہدف 5400 ارب مقرر کرے۔جس پر وزیر اعظم عمران خان کو کہنا پڑا کہ امریکہ کی دھونس اور سازش ملاحظہ کیجئے کہ ایک جانب آئی ایم ایف کے ذریعے ہماری جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد بتا رہا ہے‘ تو دوسری طرف ہمیں پہلے سے بھی چالیس فیصد زیا دہ ٹیکس لگانے پر مجبور کر رہا ہے۔یہ ہے ‘وہ امریکی بلیک میلنگ ‘جس کا شکار پاکستان کو آئی ایم ایف کے اقتصادی بیل آئوٹ پیکیج کی شکل میںکیا جا رہا تھا‘ اندازہ کیجئے جس ملک کی جی ڈی پی گروتھ اس قدر کم ہو‘ اس کے صنعتی اور تجارتی اداروں سے پہلے سے بھی چالیس فیصد زائد ٹیکس کوئی پاگل اور ملک دشمن ہی لے سکتا ہے۔
گوادر ‘سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ نے امریکہ اور بھارت کی تلواروں کو نیام سے نکال رکھا ہے ‘جسے وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر ہوا میں لہرائے جا رہے ہیں اور معاشی طور پر قرضوں میں جکڑے پاکستان پر امریکی دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے کہ اس کے سامنے چین سے سی پیک قرض کے قواعد و شرائط کی تمام تفصیلات سامنے لائی جائیں‘ امریکہ کا یہ حکم جتنا بھی سخت کیوں نہ ہو‘ یہ کسی خود مختار ملک کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ 16 اپریل2018ء کو cadtm.org میںIs Pakistan falling into China's debt trap? کے عنوان سے عبدالخالق نے سی پیک پر اپنے مضمون میں خوفناک منظر کی آگاہی دیتے ہوئے لکھا ہے ''2024ء تک پاکستان کو100 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں ‘جن میں چین کے18.5 ارب ڈالر بھی شامل ہیں‘ جو بینک قرضوں کی صورت میں19 early harvest projects کیلئے نواز حکومت نے حاصل کئے تھے۔ ویب سائٹ کے مطا بق؛ چین‘ اگر چاہے تو پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر بنا سکتا ہے‘ لیکن بھاری قیمت ادا کرتے ہوئے وہ چین کی ایک کالونی بن کر رہ جائے گا ‘ جبکہ امریکی پراپیگنڈے کا چین کے سرکاری ترجمان نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک ہمارے دوست ملک پاکستان کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں بنیادی کر دار ادا کرے گا۔