امریکی قیادت بھی عجیب مخمصوں کا شکار رہتی ہے۔ جتنی زیادہ طاقت اُتنی ہی زیادہ الجھنیں اور مجبوریاں۔ ایک زمانے سے دنیا امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں حیران و پریشان ہے۔ کئی جنگیں کسی جواز کے بغیر کمزور اقوام پر مسلط کی گئیں۔ کئی خطوں کو یوں تاراج کیا گیا ہے کہ اب اُن کے دوبارہ ابھرنے اور پنپنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔
چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق امریکا نے اس امر کے باوجود کہ اس کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے اور ساری دنیا کو اپنی جیب میں رکھنے کی سکت سے محرومی کا بھی خوب اندازہ ہے‘ جہاں تہاں مداخلت کی پالیسی ترک نہیں کی ہے۔ کبھی کبھی اچانک کوئی غلط قدم بھی اٹھ جاتا ہے اور اُس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
افغانستان کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں قدم جماکر پورے خطے کی نگرانی کی خاطر امریکا نے حالات خراب کیے اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اتحادی افواج افغان سرزمین پر اتار دیں۔ یہ سب کچھ پورے خطے کے لیے انتہائی ناپسندیدہ اور مہلک تھا‘ مگر وقت کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ شدید قسم کا ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کی جائے۔ بھارت کے لیے معاملہ زیادہ پریشان کن نہیں تھا‘ کیونکہ وہ تو ہمیشہ مغرب کے آغوش میں رہا ہے۔ ہاں‘ چین کے لیے الجھن بڑھ گئی۔ ایک طرف اُس کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا اور دوسری طرف اُسے اپنی طاقت کو دباکر بھی رکھنا تھا‘ تحمل کا مظاہرہ کرنا تھا۔ چینی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج خطے میں مفادات کو داؤ پر لگنے سے بچانے کے لیے آگے بھی بڑھنے کا تھا‘ مگر ساتھ ہی ساتھ اس امر کا التزام بھی لازم تھا کہ ایک قدم بھی زائد نہ اٹھایا جائے!
چین تو کامیاب رہا۔ امریکا اور اُس کے اتحادی البتہ منہ کی کھاکر خطے سے کسی نہ کسی طور نکل بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یورپ کی بیشتر اقوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ تو دیا تھا‘ تاہم اب انہیں بھی احساس ہوچکا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ بالکل غلط تھا اور اس کے ازالے کے طور پر وہ جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر کے ''امریکا زدہ‘‘ ممالک سے دوستی اور اُن کی طرف دستِ تعاون بڑھا رہے ہیں۔
اپنی حماقتوں کا احساس تو امریکی قیادت کو بھی ہے ‘مگر وہ اب تک ہیرا پھیری سے باز نہیں آرہی۔ ویتنام کی طرف افغانستان کے معاملے میں بھی امریکا کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک کمزور اور نہتی قوم نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور دیگر یورپی قوتوں نے افغانستان سے بہت حد تک پنڈ چُھڑالیا ہے۔ اُنہیں اندازہ تھا کہ اس تباہ حال ملک میں تادیر رہنا صرف اضافی خسارے کا سودا ہوگا۔
امریکا ؛چونکہ اس پورے ڈرامے کا سیناریو رائٹر‘ ڈائریکٹر اور مین کیریکٹر تھا‘ اس لیے افغانستان سے خود کو الگ کرنا‘ اُس کے لیے آسان نہ تھا۔ افغانستان سے اچانک بوریا بستر لپیٹ کر چل دینے میں اُس کی بَھد اُڑتی۔ واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکی قیادت کو اپنا بھرم بھی رکھنا تھا۔ بھرم رکھنے کی قیمت کم نہ تھی۔ طالبان نے امریکی فوج کو شدید خلجان میں مبتلا رکھا ہے۔ وقتاً فوقتاً ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ صرف امریکا ہی کو شدت کا اندازہ ہے۔ امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کرکے وہاں قدم جما تو لیے تھے‘ مگر اندازہ نہ تھا کہ اِتنی زور دار چپتیں پڑیں گی۔ ع
خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دل لگانے کا!
اچھی خاصی خرابی کے بعد اب امریکا کو طالبان سے مذاکرات سے مجبور ہونا پڑا ہے۔ اللہ اللہ‘ واحد سپر پاور کو یہ دن بھی دیکھنے تھے! زہے نصیب کہ بے سر و سامانی کی حالت میں لڑنے والے طالبان نے واشنگٹن کے پالیسی میکرز کو سوچ بدلنے پر مجبور کیا اور اب معاملات مذاکرات کی میز پر نمٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
امریکا کے لیے افغانستان سے پنڈ چُھڑانا ایک بڑی الجھن ہے۔ یہ کام اُسے کچھ اس انداز سے کرنا ہے کہ عالمی برادری میں تھوڑی بہت عزت بھی رہ جائے۔ اس سے بڑی ایک الجھن اور ہے۔ طالبان امریکا کے نکل جانے کے بعد کی صورتِ حال میں کابل انتظامیہ کو گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ کابل انتظامیہ کسی نہ کسی طور اس امر کی ضمانت چاہتی ہے کہ امریکیوں کے جانے کے بعد طالبان پریشان نہیں کریں گے۔ طالبان ایسی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ بات ایسی نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں نہ آسکے۔ جب اُنہوں نے امریکیوں کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا تو اپنے ہم وطنوں سے کیا خاک ڈریں گے؟ افغانستان کی حکومتی اور ریاستی مشینری امریکیوں کے جانے کے بعد کی صورتِ حال کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوئی جارہی ہے۔ یہ تو فطری امر ہے کہ امریکیوں کو مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہونے پر طالبان کا مورال غیر معمولی حد تک بلند ہوگا۔ یہ بلند مورال اُنہیں ملک کے طول و عرض میں غیر معمولی ایڈوانٹیج سے ہم کنار بھی کرے گا‘جو کچھ امریکا نے دوسری جنگ ِعظیم کے بعد سے اب تک کیا ہے ‘اُس کی روشنی میں دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں نے اپنے لیے محفوظ راستہ چُنا ہے۔ یورپ ایک زمانے سے ''نرم قوت‘‘ کے ساتھ آگے بڑھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ یورپی اقوام نے لشکر کشی سے گریز کرتے ہوئے علم و فن اور کاروبار کو سیڑھی بناکر اوپر چڑھنے کا عمل جاری رکھا ہے۔ امریکا نے ایسا کچھ نہیں سیکھا۔ وہ اب بھی ہر معاملے کو طاقت سے درست کرنے کی ذہنیت کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے سے صرف خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہاں‘ کہیں کہیں امریکا کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اُس کے پالیسی میکرز اب محسوس کر رہے ہیں کہ محض طاقت کے ذریعے معاملات نمٹانے کا‘ درست کرنے کا دور جاچکا ہے۔ چین اور روس میدان میں آچکے ہیں اور طاقت کے استعمال سے گریز کر رہے ہیں۔ دونوں کا زور کاروبار اور سرمایہ کاری پر ہے۔ چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں روس کو بھی کماحقہ شریک کیا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ معاملات کو محاذ آرائی کی بجائے افہام و تفہیم سے درست کیا جائے۔
امریکا کو اس حوالے سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ واشنگٹن کے بزرجمہر اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی نہ کسی حد تک دھونس دھمکی سے کام لے کر معاملات کو اپنے حق میں کیا جاسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ نہ دینے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی اُن کے لیے لکھ دی گئی ہے‘ جو وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور معاملات کو اس طور درست کریں کہ اُن کا فائدہ تو یقینی ہو تاہم کسی کو نقصان ہرگز نہ پہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا کے لیے کامیابی نہیں لکھی گئی!
افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ امریکی قیادت کو نئے دور کا سبق سکھانے کے لیے کافی ہے۔ ہر معاملے کو طاقت سے درست کرنے کا دور لَد گیا ہے۔ واشنگٹن کے پالیسی میکرز کو اب سوچنا ہوگا کہ نئے منظر نامے میں چین اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کے ساتھ مل کر کیسے چلا جائے۔ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے بھارت یا کسی اور ملک کو استعمال کرنا پوری دنیا کا امن خراب کرنے کی سمت لے جانے والا راستہ کھولے گا۔ امریکا کے لیے افغانستان سے اس طور نکلنا اولین ترجیح ہونا چاہیے کہ کسی حد تک آبرو رہ جائے۔