تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     25-04-2019

صدارتی نظام، مخالفت کیوں؟

ان دنوں پارلیمانی طرز حکومت کی بجائے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں‘ جن کے رد عمل میں صوبائیت کی حامی سیاسی لیڈرشپ کے علاوہ وہ اہل قلم بھی صدارتی طرز حکومت کو ملکی سلامتی کیلئے مہلک ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، پچھلے تیس سالوں میں جنہوں نے منتخب سیاستدانوں کی کردار کشی کی مہم چلا کے پارلیمانی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ایک میڈیا گروپ سے وابستہ ان نامور تجزیہ کاروں نے بھی صدارتی نظام کی مخالفت میں کئی کالم تحریر فرمائے، جنہوں نے نوے کی دہائی میں ایک اخبار میںکارگل ایشو پہ ایسے ''بامعنی‘‘ مضامین لکھے جو بالآخر ایک پھلتے پھولتے پارلیمانی نظام کی بیخ کنی کے علاوہ جنرل مشرف کے روشن خیال مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کا وسیلہ بنے تھے۔ آج وہی اہل قلم، پارلیمانی نظام کے محافظ بن کے صدارتی طرز حکمرانی کو ملکی سلامتی کیلئے مضرت رساں باور کرانے کی جدوجہد میں سرگرداں نظر آتے ہیں، مگر افسوس کہ یہ اہل دانش صدارتی نظام حکومت کی خرابیوں کی سائنسی یا منطقی انداز میں توضیح کرنے کی بجائے ماضی کے ان کرداروں کو بطور دلیل پیش کر رہے ہیں جنہوں نے بزور شمشیر اقتدار پہ قبضہ کرنے کے بعد عوامی حمایت کے بغیر اپنی آمریت کو صدارتی نظام کے لبادے پہنا کے دنیا کو فریب دیا۔ ایوب خان ہوں، یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب نے پہلے بندوق کے زور پہ حکومت پہ تسلط جمایا اور پھر دوام اقتدار کی خاطر جعلی ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام کی اصطلاح کا غلط استعمال کیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں حقیقی صدارتی نظام کو کبھی آزمانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ اگر جائز اور فطری انداز میں عوام کے ووٹوں سے یہاں اصل صدارتی نظام کو نافذ کرنے کی تدبیر کی جاتی تو وہ اس فرسودہ پارلیمانی جمہوریت سے ہزارہا درجے بہتر نتائج دیتا، جس نے ہمیں سیاسی، جغرافیائی، سماجی اور مذہبی اعتبار سے تقسیم کر دیا۔ جو لوگ فوجی آمریتوں کو صدارتی نظام حکومت باور کرا کے لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اگر وہ دنیا بھر میں رائج اصلی صدارتی نظام ہائے حکومت کے نقصانات کے بارے میں ہمیں آگاہی دیتے تو یہ قوم ان کی مشکور ہوتی۔ 
بلا شبہ، اگر کوئی طالع آزما مصنوعی صدارتی نظام کی آڑ لے کر پھر سے ملک پہ آمریت مسلط کرنا چاہتا ہو تو اس کی مخالفت حق بجانب ہو گی لیکن ایک معروف جمہوری عمل کے ذریعے یہاں اگر صدارتی طرز حکومت رائج کرنے پہ اتفاق ہو جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہو گی۔ جمہور کے حق حاکمیت کا ادراک رکھنے والے اہل دانش مانتے ہیں کہ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت لائیں یا صدارتی طرز حکمرانی کے تحت امور مملکت چلانے پہ اکتفا کریں۔ بہرحال! کسی بھی سیاسی نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا انحصار سسٹم کو بنانے اور چلانے والوں کی صلاحیتوں سے مشروط رہتا ہے۔ اگر کسی مملکت کے ارباب حل و عقد خدا ترس اور اہل ہوں تو وہ عوامی فلاح و بہبود کی خاطر کسی بھی نظام ہائے ریاست سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماضی قریب میں دنیا کی کئی اقوام نے جن متضاد تجربات سے گزر کے ترقی کی منازل طے کیں، ان میں صدارتی اور پارلیمانی سمیت شاہی نظام ہائے حکومت کے تجربات بھی شامل تھے‘ لیکن حیرت انگیز طور پہ مختلف نظام ہائے مملکت اپنانے کے باوجود سب نے یکساں ترقی کی اور آج بھی ان کے سسٹم منجمد نہیں بلکہ بتدریج تبدیل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ خوب سے خوب تر کی تلاش کیلئے دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اصلاحات اور تبدیلیوں کے عمل کو پیہم رواں رکھتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ترکی نے محض طیب اردوان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی خاطر آئین میں معمولی ردّ و بدل کے ذریعے پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی طرز حکمرانی میں ڈھال لیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت اور فرانس و امریکہ کا صدارتی نظام حکومت، مختلف ماحول میں متضاد تجربات کے ذریعے پختگی کے مراحل طے کرتا رہا‘ اور متذکرہ بالا ممالک کے رجال کار کی اہلیت اور لیڈرشپ کے اخلاص کی بدولت صدارتی اور پارلیمانی، دونوں سسٹم کامیابی سے ہمکنار ہوئے، آج بھی دنیا کے متعدد ممالک میں صدارتی اور درجنوں ممالک میں پارلیمانی نظام ہائے حکومت نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں، اس لئے کسی نظام سیاست کو فی نفسہٖ مہلک اور دوسرے کو مطلقاً مفید کہنا درست نہیں ہو گا۔ ہاں! البتہ نظام کو چلانے والے رجال کار کی کم یا زیادہ استعدادِ ذہنی اور سیاسی اشرافیہ کے مقاصد سسٹم کی کامیابی یا ناکامی کا محرک بن سکتے ہیں‘ کیونکہ دنیا کا ہر نظامِ سیاست اپنے برتنے والے انسانوں کے وظائفِ ذہنی کا معمول ہوتا۔ برطانیہ نے پارلیمانی، امریکہ نے صدارتی اور جاپان نے شاہی نظام کے تحت ترقی کی لیکن چینی، روسی، کیوبن، مصری اور شمالی کوریا جیسی اقوام نے استبدادی (Authoritarian) نظام ہائے حکومت کے ذریعے اقوامِ عالم میں مقام پیدا کیا، لہٰذا کسی واحد نظام حکومت کو قومی بقاء کے لئے ناگزیر ثابت کرنا خلاف عقل ہو گا۔ ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت، ذہنی ساخت، سماجی رجحانات اور قومی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے، انگریز سے وراثت میں ملنے والی پارلیمانی جمہوریت پہ اصرار کرنے کی بجائے کسی متبادل طرز حکمرانی پہ غور کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ 
ہر چند کہ قیام پاکستان کے بعد آغاز ہی سے یہاں اچھی حکمرانی کا ایشو زیر بحث رہا‘ لیکن ان سیاسی امور سے سواد اعظم کی لا تعلقی عقلِ اجتماعی کو بروئے کار لانے کی راہ میں حائل رہی۔ آج کی طرح ماضی میں بھی ایسی بحوثات فقط سسٹم کے بینیفشریز تک محدود رہیں، جن میں مقتدرہ کے علاوہ با اثر سیاستدان، میڈیا ہائوسز اور بیوروکریٹس شامل تھے۔ اس لئے ہم سیاسی نظام کی استواری کی خاطر کوئی ایسا مربوط زاویہ نگاہ اپنانے میں ناکام رہے جو وقت کے ساتھ پھیلتی ہوئی اجتماعی زندگی سے ہمیں ہم قدم رہنے کے قابل بناتا۔ پارلیمانی جمہوریت کے کثیر جہتی نظام نے ہمارے روایت پرست سماج کو کنفیوژ کر کے گروہی کشمکش کی دھار تیز کر دی ہے۔ شدید ترین سیاسی پولرائزیشن کے باعث قوم ذہنی طور پہ تقسیم ہوئی تو ملک دو لخت ہو گیا۔ اس سانحہ سے سبق سیکھنے کی بجائے ہم نے باقی ماندہ ملک کو بھی یونیفائیڈ رکھنے کے برعکس فیڈریشن کی چار اکائیوں میں منقسم کر کے مرکز گریز قوتوںکو نئی کشمکش کے اسباب مہیا کر دیئے۔ اسی بیکار جدلیات میں نظم ریاست کمزور اور مسائل کا دائرہ وسیع تر ہوتا رہا؛ چنانچہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے دبائو کے ساتھ اقتصادی فروغ کی راہیں تنگ ہوئیں، قومی دولت کے بڑے حصے پہ چند افراد کے تصرف نے طبقاتی تقسیم کی لکیر کو گہرا کر دیا‘ اور مایوس سیاستدانوں نے علاقائیت، لسانیت اور مذہبی فرقہ پرستی کے وسیلے ایسے تعصبات کی آبیاری کی، جس نے سوشل تبادلہ اور انسانوں کی بنیادی آزادیوں کا دائرہ محدود کر دیا۔ ذرائع ابلاغ میں مقابلے کی فضا نے بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا تو خوف کی اس فضا میں ہر فرد نے اپنی مذہبی، لسانی اور علاقائی عصبیتوں میں پناہ تلاش کرنے میں عافیت جانی۔ یہی ذہنی کیفیت، جس کا عکس ہمیں اٹھارہویں ترمیم میں دکھائی دیتا ہے، صوبائی خود مختاری کی آڑ میں مختلف صوبوں میں بسنے والے پاکستانیوں کو علیحدگی کی طرف مائل کرتی نظر آئی۔ اگر یہاں ایک یونیفائیڈ گورنمنٹ کے تحت بڑے صوبوں کی بجائے چھوٹے انتظامی یونٹس بنائے جاتے تو علاقائی اور لسانی عصبیتوں کو پنپنے کا موقعہ نہ ملتا۔ مالیاتی امور اور ابلاغ کے آلات پہ ریاست کا کنٹرول ہوتا تو دولت پہ نجی تصرف طبقاتی تقسیم کا سبب بنتا‘ نہ کالا دھن سیاسی مساوات کی راہ روک سکتا۔ جیمز اسٹیفن نے سچ کہا تھا ''جمہوریت کو ابنائے سیاست نے ناجائز اہمیت دی ہے، ورنہ سیاسی طاقت فقط شکل بدلتی ہے اپنی فطرت نہیں بدلتی‘‘۔ ہمارے پڑوسی ملک چین نے جمہوریت کو مملکت میں داخل نہیں ہونے دیا‘ اور پارٹی ڈکٹیٹرشپ کے ذریعے استبدادی نظامِ حکومت کے تحت ڈیڑھ ارب کی آبادی پہ مشتمل وسیع مملکت کو متحد رکھتے ہوئے مثالی ترقی کی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved