سیاسیات بلکہ حکمرانیات طویل عرصے سے ادبِ لطیف کے ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں۔ کون نہیں جانتا ادبِ لطیف میں جہاں قصیدے پائے جاتے ہیں وہیں پہ ہجو کے بھی انبار لگے ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی، پنجابی زبانوں میں بھی۔
میدانِ سیاست میں کچھ لطیفے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ کچھ دوسرے وارد ہوتے ہیں یا سر زد ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر مختلف زبانوں اور بولیوں کے اختلاط اور تصادم سے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب اسی ہوتا کو ہی لے لیجیے۔ ماضی کے دو طرح دار سیاست دانوں کے درمیان یادگار مکالمہ ہوا، جس نے لا زوال جملے تخلیق کیے‘ جن میں سے ایک یوں تھا ''جنابِ والا! کوئی فاضل رکن کو بتائے کہ جو اٹک کے پار ہوتی ہے وہ اٹک کے اِس طرف ہوتا ہے‘‘۔ یہاں ہوتی کا اشارہ صنفِ نازک کی طرف ہرگز نہ تھا بلکہ اسم ''ہوتی‘‘ کی جانب تھا... یہ ان وقتوں کی بات ہے جب سیاست ادبِ لطیف سے پُر ہوا کرتی تھی۔ سیاست میں اس ادبی چاشنی کی بڑی وجہ مختلف جماعتوں میں ایسی نابغہ شخصیات کی موجودگی تھی، جو شعر سمجھتے ہی نہیں، شعر کہتے بھی تھے۔ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ علم الکلام سے بھی ان کا واسطہ تھا۔ صرف مقرر نہیں باقاعدہ محرر بھی تھے۔ ان کی تحریروں میں یہ سب اوصاف از خود جھلکتے رہتے۔ زبان دان ہونے کے لیے کوئی ایک زبان، لہجہ یا بولی مخصوص نہیں ہے۔ ہر زبان اپنے اندر ادبِ لطیف کا بے پناہ سامان لیے پھرتی ہے۔ مثال کے طور پر لفظ لطیفہ کو ہی لے لیجیے یا شیخہ۔ لطیفہ عربی زبان میں معروف نام ہے اور شیخہ لقب۔ جبکہ اردو زبان میں کسی شیخ صاحب سے بے تکلفی ہو تو اسے شیخہ کہہ کر بلاتے ہیں۔ عربی والا لطیفہ مؤنث ہے اور شیخہ بھی‘ جب کہ اردو میں لفظ لطیفہ اور شیخہ مذّکر سمجھے جاتے ہیں۔ اردو چونکہ بذاتِ خود ایک لشکری زبان ہے اس لیے یہاں دوسری زبانوں کے سارے تصورات با آسانی ترجمہ ہوتے رہتے ہیں۔ لسانیات کی دنیا میں یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ کسی زبان کے زندہ، پروگریسو اور ((organic ہونے کی دلیل اور نشانی ہے۔ اب یہی دو لفظ دلیل اور نشانی لے لیں‘ جو بے چارے اتنے وزنی اور اس قدر با معنی ہونے کے باوجود بھی مؤنث ہی میں شمار کیے جاتے ہیں۔ شاعری کسی بھی زبان کے ادبِ لطیف میں اہم ترین صنف سمجھی جاتی ہے‘ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جو بات کہنے کے لیے نثر کا ایک پورا صفحہ یا پھر پیراگراف چاہیے وہ منظوم دنیا میں ایک شعر یا ایک مصرع اختصار کے ساتھ مگر ٹھیک نشانے پہ مار دیتا ہے۔ اردو کے لشکری زبان ہونے کے ذکر پر مجھے ایک عزیز لشکری رئیسانی یاد آ گئے ہیں۔ کچھ ماہ پہلے لشکری رئیسانی نے ٹیلی فون کیا اور بتایا کہ وہ بلوچستان کے پسماندہ علاقے کے لیے کتابیں جمع کرتے ہیں۔ انہوں نے میری بھی ڈیوٹی لگائی کہ غریبوں کے اس بُک بینک میں اپنا نصیب نبھاؤں۔
آ ئیے لشکری رئیسانی سے لشکری زبان کی طرف واپس چلتے ہیں جس نے اپنے اندر ترکی، فارسی، ہندی، پنجابی، سنسکرت اور عربی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی پناہ گزین کا درجہ دے رکھا ہے۔ یہ نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے دو چار برس کی بات نہ ہے۔ اُن دِنوں آل انڈیا کانگریس کے شہ دماغوں نے حضرت قائدِ اعظم پر سیاسی حملے کرانے کے لیے کانگریسی مولوی آگے کر رکھے تھے۔ بابائے قوم کی فنکشنل زبان یعنی روزمرہ امور والی زبان انگریزی تھی اس لیے ان پر دُشنام اور طنز میں لپیٹ کر جملے پھینکے جاتے تھے۔ اس کے جواب میں اپنے وقت کے بہترین محرر و مقرر کو بانیٔ پاکستان حضرت قائدِ اعظم نے محض ایک جملے میں ہمیشہ کے لیے قید کر کے رکھ دیا۔ یہ تھے مولانا ابوالکلام آزاد جنہیں بابائے قوم نے 'شو بوائے آف کانگرس‘ انگریزی میں کہا۔ لیکن یہ جملہ آزاد صاحب سے اردو میں بھی چپک کر رہ گیا۔
1973ء کے آئین کی تخلیق کار اسمبلی میں بھی کئی معرکۃالآرا عملی مُناقشے ہوئے۔ ایک روایتی مولانا صاحب نے ماڈرن مولوی کوثر نیازی کو چھیڑ دیا۔ فرمایا: کوثر نیازی داستان گوئی کے ایسے ماہر ہیں کہ جنابِ سپیکر اگر ہائوس آف پارلیمنٹ کے کسی روشن دان سے کوئی مچھر اندر آ جائے تو حضرت کوثر نیازی زورِ کلام سے ثابت کر دیں گے کہ ہاتھیوں کا ایک پورا لشکر اسی روشن دان سے ابھی اس ایوان میں گُھس آیا ہے اور جنابِ سپیکر ہاتھیوں کا یہ لشکر اب حملہ شروع کرنے والا ہے۔ کوثر نیازی کہاں خاموش رہنے والے تھے۔ وہ ابراہا کے ہاتھی تک جا پہنچے جو یمن سے مکۃالمکرمہ میں اللہ کے گھر پر حملہ آور ہونے کے لیے آیا تھا۔ کوثر نیازی مرحوم نے اس ہاتھی کا نام بھی تقریر میں اچھال دیا جسے یہاں دہرانے کی چنداں حاجت نہیں۔ جن دنوں وفاقی وزارتِ قانون و انصاف کی ذمہ داری میرے پاس تھی‘ تب سنٹرل پنجاب کے ایک پیر صاحب کا فون آیا جو اکثر حکومتِ وقت کے ذمہ داروں کے ساتھ تصویریں چھپوانے کا شغل فرمایا کرتے تھے۔ قبلہ حضرت نے کمال شفقت سے مجھے کھانے پر دعوت دی۔ میرے لیت و لعل کو دیکھ کر اسلام آباد تشریف لے آئے۔ رسمی گفتگو کے بعد فرمایا: آپ تختِ لاہور کا نام نہ لیا کریں۔ وجہ نہیں اس کی وجوہات کا پورا مینیو کھول رکھا۔ ساتھ کہنے لگے: اس سے میرے مریدانِ خاص کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اپنے ہاں کی اس روایت سے ہم سبھی اچھی طرح واقف ہیں کہ جس پر چاہیں پھبتی کَس دیں لیکن جواب میں ہلکی سے نشتر زنی بھی ہماری چیخیں نکال دیتی ہے۔ 1970 ء کے سیاسی عشرے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ شہید بھٹو کی والدہ سے لے کر ختنے تک۔ ہر عوامی اجتماع میں بڑے بڑے جُغادری خطاب فرماتے۔ خود حظ اٹھاتے اور اس کارکردگی پر ہزاروں کے مجمع میں کھلی داد بھی وصولتے۔
جوابِ آں غزل کے طور پر قائدِ عوام نے کسی کو آلو‘ کسی کو ڈبل بیرل خان جیسے القابات کا تحفہ بھجوایا۔ ایک وکیل صاحب‘ جو اب اس دنیا میں نہیں رہے‘ بھٹو صاحب پر کچھ ایسا ہی بولے۔ چند دن بعد لاہور آمد پر پہلے سے تیار ایک صحافی نے بھٹو صاحب سے سوال کیا کہ وہ صاحب آپ کے بارے میں یہ، یہ کہتے ہیں۔ مرحوم وکیل صاحب کا نام ایکٹر کمال ایرانی اور سنگر ثریا ملتانی سے ہم وزن تھا۔ بھٹو صاحب اس نام سے واقف نہ تھے۔ صحافی کے سوال پر حیران ہو کر اس کی طرف مُڑے اور رپورٹر پر اُلٹا سوال ڈال دیا: ''Who is she‘‘۔ شورش کاشمیری تحریر و تقریر اور سیاست و سیادت پر بولنے والوں کے بادشاہِ وقت سمجھے جاتے تھے۔ شورش نے اس بازار کے عنوان سے یوں طبع آ زمائی کی:
کچھ ایرے ہیں کچھ غیرے ہیں
کچھ نتّھو ہیں کچھ خیرے ہیں
کچھ جھوٹے ہیں کچھ سچّے ہیں
کچھ بُڈّھے ہیں کچھ بچّے ہیں
کچھ تِلیّر اور بٹیرے ہیں
کچھ ڈاکو اور لُٹیرے ہیں
کچھ ان میں ہر فن مولا ہیں
کچھ ''رولا‘‘ ہیں کچھ ''غولا‘‘ ہیں
کچھ کوڈو، کوڈ کبڈی ہیں
کچھ جاہل اور پھَسڈّی ہیں
بولیں تو خطیبِ شہر ہیں
گھولیں تو سیاسی زہر ہیں