تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-04-2019

محمد اظہار الحق سے آفتاب احمد شاہ اور خواجہ محمدزَکریا تک

برادر عزیز محمد اظہار الحسن اپنے واٹس ایپ میں لکھتے ہیں:
''آج آپ نے کالم میں آفتاب احمد شاہ کا ذکر کیا ہے!
آفتاب احمد شاہ اور میں ڈھاکا یونیورسٹی میں اکٹھے تھے۔ ہم دونوں نے وہاں سے اکنامکس میں ایم اے کیا۔ میں ایم اے کا امتحان دے کر واپس آ گیا۔ وہ کچھ ماہ مزید رکا اور ایل ایل بی کا امتحان بھی وہاں سے پاس کیا۔ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے وہ واپس آ چکا تھا۔ انڈیا کی قید میں وہ نہیں رہا‘ مگر کچھ اور دوست بد قسمتی سے جنگی قیدی بنے۔ ان میں توقیر احمد فائق بھی تھے۔ یہ بھی بعد میں سول سروس میں آئے۔ توقیر میرے اور آپ کے پسندیدہ شاعر اقتدار جاوید کے بڑے بھائی ہیں۔
آفتاب احمد شاہ کا اور میرا ہمیشہ عجیب و غریب انداز میں ساتھ رہا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر دونوں واپس آئے۔ دونوں کو ایک بینک نے ملازمت کے لیے منتخب کر لیا۔ میں نے ایک ہفتہ بعد اس ملازمت کو طلاق دے دی۔ آفتاب احمد شاہ نے کچھ عرصہ بینکاری کی۔
کچھ عرصہ بعد حکومت ِپنجاب نے اکنامکس کے لیکچررز کی تین پوسٹوں کے لیے اشتہار دیا۔ ہم دو بھی انٹرویو کے لیے پہنچ گئے۔ دونوں منتخب ہو گئے۔ اس کی تعیناتی گورنمنٹ کالج ‘جہلم میں ہوئی‘ میری گورنمنٹ کالج تلہ گنگ میں۔ اس نے جوائن کر لیا اور کچھ عرصہ پڑھایا۔ میں نے پھر ڈنڈی ماری اور جوائن کرنے سے معذرت کر لی۔ ہاں ‘کچھ عرصہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے دو پرائیویٹ کالجوں میں پڑھاتا رہا۔
پھر دونوں مقابلے کے امتحان میں بیٹھے اور دونوں کامیاب ہوئے۔ اب کچھ بات اس کی شاعری کے حوالے سے:
ڈھاکہ یونیورسٹی پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ اردو کی کلاسیکی شاعری کا دلدادہ تھا اور میں جدید اردو شاعری کا۔ اس نے مجھے کلاسیکی شاعری کی طرف متوجہ کیا‘ اور اگر یہ کہوں کہ ظفرؔ اقبال‘ منیرؔ نیازی اور کچھ جدید شاعروں کی تخلیقات کا چسکا‘ اسے میں نے ڈالا‘ تو غلط نہ ہوگا۔ میرے استاد حضرت ظہیر فتح پوری کا یہ شعر تو آفتاب نے اپنے ہوسٹل کے کمرے کے دروازے پر لکھ رکھا تھا؎
مرے من موہن! ترے مُکھڑے پر کھلے بیلے کا سجیلا پن ہے
نصیب اب کے بہت اِترایا تبسم ہے یا کنول روشن ہے
ڈی جی خان کے جس مشاعرے کا ذکر آپ نے فرمایا ہے (جس کی صدارت اس نے آپ سے کروائی) اس میں‘ میں بھی موجود تھا۔ اس مشاعرے کا ایک واقعہ نہیں بھولتا۔ لاہور سے ایک شاعر (جو ‘اب خاصے معروف ہیں)اس مشاعرے میں بن بلائے تشریف لے گئے۔ مشاعرے کے بعد ظاہر ہے انہیں معاوضہ نہ ملا۔ منتظمین سے معاوضے کیلئے جس طرح وہ منت سماجت کر رہے تھے اور منتظمین جس طرح مجبوری کے سبب صاف انکار کر رہے تھے‘ وہ کافی عبرتناک منظر تھا۔ نہیں معلوم یہ بات ڈپٹی کمشنر (آفتاب احمد شاہ) تک پہنچی یا نہیں اور وہ صاحب معاوضہ لینے میں کامیاب ہوئے یا نہیں (ویسے اگر انہیں پڑھوایا گیا تھا تو معاوضہ بھی دیا جانا چاہیے تھا:ظ ا)
آپ نے آفتاب کے پہلے شعری مجموعے ''فردِ جرم‘‘ کا ذکر کیا ہے‘ جس کا دیباچہ آپ نے تحریر فرمایا۔ اس کی کلیّات کا دیباچہ میں نے لکھا ہے۔ اس دیباچے کا عنوان ''ملامتی‘‘ ہے۔ کلیات طبع ہو چکی ہے۔
آفتاب کی ہونہار بیٹی صائمہ بھی باپ اور بھائی کی طرح سول سروس میں منتخب ہوئی‘ بہت اچھے شعر کہتی ہے۔ اس نے اپنے دیباچے کے لیے مجھے کہا۔ میں بھتیجی کو انکار نہیں کر سکا؛ چنانچہ لکھا۔ نہیں معلوم کتاب چھپی ہے ‘ابھی یا نہیں۔
المیہ یہ ہوا کہ آفتاب نے شاعری کی ‘مگر غیر سنجیدگی کے ساتھ‘ پوری توجہ کبھی نہ دی۔ اس کے اندر ایک بڑا شاعر بہر طور موجود ہے۔
آفتاب کا تفصیلی ذکر اپنی زیر تعمیر خود نوشت میں کر رہا ہوں۔ دیکھیے چھپنے پر وہ مجھے کتنا زد و کوب کرتا ہے:
محمد اظہار الحق‘‘
افتاد
پچھلے دنوں خواجہ محمد زَکریا تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ زاہد مسعود اور ڈاکٹر نعیم الحق کوہلی بھی تھے ‘جو کافی عرصہ سے امریکہ میں ہوتے ہیں اور اب واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کا شعری مجموعہ ‘الحمد لاہور نے چھاپا ہے ۔ انتساب اپنی اہلیہ شگفتہ زکریا کے نام کیا ہے۔ اس میں غزلیں ہیں اور نظمیں ۔ پیش لفظ انہوں نے خود لکھا ہے۔ اس میں سے کچھ منتخب اشعار:
وہ لاجواب ہو گئے میرے سوال پر
آخر دیا جواب کہ اچھا سوال ہے
کام کوئی نہیں کسی کو یہاں
اور لگتا ہے سب کو عجلت ہے
تنخواہ ہے حلال سبھی کا ہے یہ خیال
اکثر مگر حرام سمجھتے ہیں کام کو
اس سے پہلے تھا ایسا عدل کہاں
ہیجڑے اب ہیں صاحبِ اولاد
ہاتھ میں گر نہیں ہُنر کوئی
غم نہ کر سازشوں کے جال ہی بُن
کس کا خیال ہے کہ جو رکھتا ہے بے سکوں
کس کی تلاش ہے جو میں پھرتا ہوں کُو بکُو
یا ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر لیں
یا کریں دوستی جس کا نہ کوئی ثانی ہو
آج کا مطلع
دل میں اس کے اندر اندر کیا ہوا
جس میں ہم رہتے تھے وہ گھر کیا ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved