تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-04-2019

نیرو کا راگ

2008ء میں پی پی پی کی حکومت نے نوید قمر کو وزیر خزانہ مقرر کیا‘ لیکن نا قص کار کردگی پر انہیں صرف پانچ ماہ بعد ہی آصف علی زرداری نے تبدیل کر کے سینیٹر حفیظ شیخ کو اپنا وزیر خزانہ مقرر کر دیا‘ جن کا تعلق ق لیگ سے تھا اور جو پرویز مشرف کے ساتھ بھی وزیر خزانہ رہ چکے تھے۔ نون لیگ کے اسحاق ڈار کو بھی پی پی پی نے اپنا وزیر خزانہ مقرر کئے رکھا اور آج جس فہرست کے حوالے سے بلاول بھٹو‘ قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر داخلہ مقرر کئے گئے سید اعجاز شاہ کی جانب اشارے کرتے ہوئے چلا رہے تھے‘ کیا وہ بھول گئے کہ اسی فہرست میں ایک نام چوہدری پرویز الٰہی کا بھی تھا‘ جسے ان کے والد محترم آصف علی زرداری نے بحیثیت ِصدر ِپاکستان اور پی پی پی چیئرمین اپنی حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم مقرر کئے رکھا اور پھر بلاول تو کیا ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے کسی جیالے کو کیسے یاد رہا ہو گا کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وزیر خارجہ اور محبوب الحق کو اپنی کابینہ میں لیا تھا۔
23 اپریل کی صبح ٹی وی آن کرتے ہی جو پہلی خبر سامنے آئی‘ وہ کرا چی تعلیمی بورڈ کے تحت فرسٹ ائیرکا امتحان شروع ہونے سے تین گھنٹے قبل گھر گھر پہنچ جانے والے امتحانی پرچے اورمع اس کے حل کئے گئے امتحانی سوالات کی دھوم تھی۔ ا س سے کوئی تین ہفتے قبل سندھ بھر میں ہوئے میٹرک کے امتحانات میں جس قسم کی کھلی نقل اور امتحانی مراکز کو قبضہ مافیا کے کنٹرول میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے دیکھا‘ اس نے ہمارے تعلیمی نظام اور سندھ میں قانون کی عملداری کو دنیا بھر کے سامنے تماشا بنا کر رکھ دیاہے۔ کھلے عام نقل کرتے ہوئے طلبا و طالبات کی ٹی وی چینلز پر براہ ارست ویڈیوز سے ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے تعلیمی اداروں کی ڈگریوں پر ہر طرف سوالات اٹھ رہے ہیں اور جب پاکستان بھر کا میڈیا کھلے عام میدانوں‘ گلیوں اور بازاروں میں امتحانی پرچہ جات اور ان کی جوابی کاپیوں کو حل ہوتا ہوا اس طرح دکھا رہا ہو کہ پولیس خاموش تماشائی بنی ایک جانب ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو ‘تو پھر خود ہی سوچئے کہ ہماری تعلیم اور تعلیمی اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریوں کی کیا اخلاقی اور قانونی حیثیت رہ جاتی ہے؟اور وہ ریا ست اور صوبائی حکمران‘ کس منہ سے آئین اور قانون کا راگ الاپ سکتے ہیں؟
سندھ بھر میںپولیس ‘ انتظامیہ اور تعلیمی اداروں کے افسران کی نظروں کے سامنے ہر طرف کھلے عام نقل ‘ موبائل فون کا بے دریغ اور اعلانیہ استعمال ‘امتحانات سے ایک دن پہلے امتحانی سوالات کی نقل ہر امیدوار کے موبائل میں اور کمرہ امتحان میں ہر امیدوار کے پاس گائیڈ‘ کتاب اور ساتھ ہی ایک مددگار کی موجو دگی ۔یہ تو سندھ کی وہ حکومت نہیں‘ جس پر بلاول بھٹو نازاں رہتے ہیں‘ جس کی شان میں وہ تعریفوں کے زمین و آسمان کلابے ملاتے ہیں۔آکسفرڈ سے تعلیم یافتہ بلاول بھٹو اپنی یونیورسٹی کے اساتذہ کو کس طرح بتائے گا کہ اس کی حکومت میں اس کی عمل داری کے علا قوں میں تعلیمی معیار یہ ہے اور اس کی انتظامیہ کی نگرانی میں تعلیمی امتحانات میں بہترین کامیابی کیلئے مہیا کئے گئے شارٹ کٹ طریقوں سے وہ جاہلوں اور مجرمین کی سندھ بھر میں ایک نئی نسل تیار کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو سندھ کے میدانوں اور شہر وں میں جاگیرداروں کی پر آسائش رہائش گاہوں میں جب اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں وزیر اعظم عمران خان پر گرج برس رہے ہوتے ہیں‘ تو کوئی ان سے کیوں نہیں پوچھتا ‘ کیوں نہیں کہتا جناب بلاول بھٹو زرداری کیا ہی اچھا ہو کہ اپنی تقریروں اور گرجنے برسنے سے پہلے اپنے صوبے کے میٹرک کے طالب علموں کی دس برس اور ایف ایس سی کی بارہ سالہ تعلیمی مدت کا معیار ‘ قابلیت اور اہلیت جانچنے کیلئے میٹرک اور ایف ایس سی جیسے بنیادی امتحانات ‘اگر گھر بیٹھ کر ہی حل ہونے ہیں اور ا س قسم کے تعلیمی معیار سے کل کو سول سروس‘ انجینئرز اور ڈاکٹر بننے والوں نے اسی طرح میٹرک اور ایف ایس سی میں بہترین اور میرٹ کا ریکارڈ توڑنے والے نمبر حاصل کرنے ہیں تو ان چند ہزار غریب‘ لیکن ہونہار طالب علموں کا کیا قصور ہے‘ جو خود کو آئین اور قانون کے طابع سمجھتے ہوئے صرف اپنی محنت اور توجہ سے تعلیمی اسناد حاصل کرتے ہیں۔ ان کمزور اور شریف طلبا پر مشتمل ایک چھوٹا سا طبقہ جب دیکھتا ہے کہ ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے بیٹھے ہوئے طلبا کے موبائل فون پر پہلے سے ہی حل کئے ہوئے امتحانی سوالات اپنے جو ابات کے ساتھ سامنے رکھے ڈیسک پر جگمگا رہے ہیں تو ایسے طلبا کو لمحے بھر کو خیال ستانے لگتا ہے کہ یہ تو وہ منزل نہیں‘ جس کے قانون کے پابند ہو کر وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری کئے ہوئے تھے‘ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ جس طرح امتحانی سوالات حل کئے جا رہے ہیں‘ اس سے لگتا ہے کہ جنگل کا کوئی منظر ہے۔
سندھ بھر میں میٹرک کے امتحانات کے شرمناک مناظر ابھی بھولے نہیں تھے کہ ا یف اے‘ ایف ایس سی کے امتحانات شروع ہونے سے قبل سیکرٹری تعلیمی بورڈ نے سندھ حکومت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز کو لکھے گئے اپنے خط میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کی حفاظت کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کا طاقت ور مافیا ان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ انہیں ہر بڑے شہر میں ان کی مرضی کے امتحانی سینٹر بناکر دیئے جائیں اور کسی بھی مضمون کا امتحان شروع ہونے سے پہلے انہیں اس کی جوابی کاپیاں مہیا کی جائیں ‘ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا۔
سوموار کو قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے بلاول بھٹو کی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جیسے جیسے آواز بلند ہو تی جا رہی تھی‘ تو کراچی کے کنٹرولر امتحانات اور سیکرٹری تعلیمی بورڈ صدیقی صاحب کی ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز کے سامنے اپنی جان کی حفاظت کیلئے کی جانے والی آہ و بکا میں تیزی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ بلاول بھٹو قومی اسمبلی کو جلسہ عام سمجھتے ہوئے‘ جس طرح بازو لہرا لہرا کر تقریر کر رہے تھے‘ تو ایسا لگ رہا تھا کہ روم کو جلتا دیکھ کر نیرو بانسری کے راگ الاپ رہا ہے۔
کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ کے دوران جگہ جگہ اپنے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری بلند آواز میں وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے جب یہ طنزیہ جملے کہہ رہے تھے تو شاید ان کی قوت سماعت کی سمت کچھ غلط ہو رہی تھی‘ کیونکہ چیخوں کی آوازیں اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس سے نہیں‘ بلکہ کراچی کی سڑکوں پر سندھ بھر کی خواتین اور مرد اساتذہ کے جسموں پر پولیس کی برسنے والی لاٹھیوں کی ضربوں سے بلند ہو رہی تھیں۔ بلاول بھٹو‘ شاید بھول گئے ہوں گے کہ یہ اساتذہ بھی مزدور اور کسان ہیں یہ بھی انسان ہیں یہ بھی لیاری اور کورنگی کے غریبوں میں سے ہی ہیں ۔یہ بھی لاڑکانہ ‘ نواب شاہ ‘ خیر پور ‘ لانڈھی اور ملیر کے محنت کش ہیں۔
بلاول بھٹو جب اپنے ٹرین مارچ میں وزیر اعظم عمران خان کو وارننگ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اب اگر تمہاری پولیس کے ڈنڈوں سے پی پی پی کے کسی کارکن کا خون بہا تو پھر دما دم مست قلندر ہو گااور اسی وقت سندھ پولیس میں بھرتی کئے گئے پی پی پی کارکنوں پر مشتمل سندھ پولیس ‘دما دم مست کہتے ہوئے وزیر اعلیٰ ہائوس اور پریس کلب کراچی کے ارد گرد اپنے ہی مرد اور خواتین اساتذہ کا خون بہا رہی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved