وہ جو فراز نے کہا تھا ''خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے ‘‘تہران میں صدر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کے کچھ فقروں نے ناقدین کو سنجیدہ تنقید کے ساتھ طنزومزاح کا بھی خاصا سامان فراہم کر دیا تھا۔
وزیر اعظم کے طور پر یہ خان صاحب کا پہلا دورۂ ایران تھا جس کا آغاز ہی حیرت (اور تشویش) سے ہوا۔ وزیر اعظم تہران کے لیے پا بہ رکاب تھے جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اورماڑہ (بلوچستان) میں حالیہ دہشت گردی کے حوالے سے کہا کہ حملہ آور ایران سے آئے تھے، جہاں ان کے باقاعدہ ٹریننگ اور لاجسٹک کیمپ موجود ہیں۔ وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے علاوہ فارن آفس نے ایرانی سفارتخانہ کو احتجاجی مراسلہ بھی ارسال کیا‘ جس میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کئے جانے پر شدید احتجاج کے ساتھ یہ بات بھی ریکارڈ پر لائی گئی تھی کہ (ایران کی سرزمین سے آپریٹ کرنے والی) دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے پہلے بھی کئی بار مطالبہ کیا گیا۔ حالیہ دہشت گردی سے متعلق بھی ایران سے انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کیا جا چکا تھا‘ لیکن بد قسمتی سے ایران کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
وزیر اعظم کے دورۂ ایران سے فوراً پہلے میزبان ملک کے حوالے سے وزیر خارجہ پاکستان اور فارن آفس کا ''یہ ردِ عمل‘‘ ایک غیر معمولی بات تھی۔ اس شام پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر ڈاکٹر ممتاز انور اور ان کے رفقا کے لیے ممتاز قانون دان ہمایوں احسان کی طرف سے عشائیہ کا اہتمام تھا۔ شہر کا ایک سے بڑھ کر ایک دانشور موجود تھا۔ وزیر خارجہ کا بیان اور فارن آفس کا مراسلہ موضوعِ بحث تھا۔ وزیر اعظم کے دورے سے قبل، یہ ''کارروائی‘‘ یقینا کسی سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہو گی، لیکن یہ حکمتِ عملی کیا ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہ تھا۔ بزرگ اور ممتاز دانشوروں نے بھی ''رموز مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ کہہ کر جان چھڑا لی۔
وزیر اعظم پاکستان کا دورۂ ایران خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوا۔ ایرانی قیادت نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ''ردِ عمل‘‘ کا کوئی منفی اثر نہیں لیا تھا؛ البتہ الوداعی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نے اپنے پاکستانی ناقدین کے لیے تبصروں اور تجزیوں کا خاصا مواد فراہم کر دیا۔ ہمسایہ ملکوں میں مثالی تعلقات کے سلسلے میں جرمنی اور جاپان کی مثال دی اور فرمایا کہ جنگ عظیم میں دونوں نے ایک دوسرے کے لاکھوں لوگ مارے، اور اب ان میں مثالی دوستانہ تعلقات ہیں، اس کے لیے جرمنی اور جاپان کی سرحد پر دونوں ملکوں کے مشترکہ اقتصادی منصوبوں کا حوالہ دیا۔ ہم نے میٹرک میں تاریخ کی کتاب میں پڑھ لیا تھا کہ جنگ عظیم میں جاپان اور جرمنی باہم اتحادی تھے۔ اب یہی بات ناقدین نے کہی اور یہ بھی کہ جرمنی اور جاپان پڑوسی نہیں، برلن اور ٹوکیو میں 9,043 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ سرکاری ترجمان اسے ''سلپ آف ٹنگ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول وزیر اعظم جرمنی اور فرانس کہنا چاہتے تھے۔ لیکن بال کی کھال اتارنے والوں کو کہنا ہے کہ اس صورت میں بھی حملہ آور جرمنی نے تو لاکھوں فرانسیسی مارے لیکن فرانس تو سینکڑوں جرمنوں کو بھی نہ مار سکا تھا۔ فرانسیسیوں کے قدم ایسے اکھڑے کہ نازی فوج دیکھتے ہی دیکھتے فرانس کے دو تہائی علاقے پر قابض ہو گئی۔ اب فرانس اور جرمنی میں دوستانہ ہے لیکن ان کی سرحد پر مشترکہ منصوبے، کہاں ہیں؟ کس طرف کو ہیں؟ کدھر ہیں؟ دیرپا دوستی کے لیے سرحد پر مشترکہ منصوبے ہمارے وزیر اعظم کا نیا آئیڈیا نہیں۔
ایران کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال ہونے والی بات میں بھی وزیر اعظم کو احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔ ان کے پیشرو پر اس سے کہیں تھوڑی بات کہنے پر سکیورٹی رسک کا الزام آتا رہا ہے۔ لاہور ایلاف کلب کی ہفتہ وار میٹنگ میں (جس میں وزیر اعظم کے مداح بھی خاصی تعداد میں تھے) اس پر اتفاق تھا کہ وزیر اعظم کو انٹرنیشنل فورمز پر فی البدیہہ کی بجائے تیار شدہ تقریر کرنی چاہیے۔ دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت/ حکومت لکھی ہوئی تقریر ہی کرتے ہیں کہ ایک دنیا کی آنکھیں اور کان ان پر لگے ہوتے ہیں۔ لوگ الفاظ پر ہی نہیں، ایک ایک ادا پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ (جدید زبان میں جسے باڈی لینگویج کہا جاتا ہے) وزیر اعظم نے نئے پاکستان کے لیے ایران جیسے انقلاب کی خواہش کا اظہار بھی کیا (وزیر اعظم کی وضعداری ہے کہ جس ملک میں جاتے ہیں، میزبانوں کی دلداری کے لیے، وہاں کے نظام کو اپنے لیے ماڈل قرار دیتے ہیں، ملائیشیا گئے تو مہاتیر محمد کا ماڈل، ترکی میں اردوان ماڈل اور چین میں چینی ماڈل)۔
اتفاق سے انہی دنوں جناب مختار مسعود (مرحوم) کی ''لوحِ ایام‘‘ بھی ہمارے زیر مطالعہ رہی۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ بار بار پڑھتے ہوئے بھی پہلی بار پڑھنے جیسا لطف دیتی ہیں۔ مختار مسعود کی کتابوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ''لوح ایام‘‘ مصنف کے قیام ایران کا ''روزنامچہ‘‘ ہے۔ یہ قیام آر سی ڈی (پاکستان، ایران اور ترکی کے مابین علاقائی تعاون برائے ترقی کی تنظیم) کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے تھا۔ یہ وہی دور تھا جب ایران میں ترقی و خوشحالی اُبلے پڑ رہی تھی، لیکن زیر زمین ایک اور طرح کا طوفان کروٹ لے رہا تھا، جسے ''مستضعفین‘‘ کے انقلاب کا نام دیا گیا۔ کمزور، کچلے ہوئے، محروم اور استحصال زدہ عوام کا انقلاب۔ مختار مسعود لکھتے ہیں:
'' تہران میں موٹروں کی کثرت سے اکثر راہ بند ہو جاتی ہے۔ جتنی موٹریں اس شہر میں ہیں، اتنی سارے پاکستان میں نہیں۔ نئی سڑکیں بھی اس تعداد کے لئے ناکافی ہیں۔ مصروفیت کے اوقات میں ذرا سا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے‘‘... ''ریستوران بھرے ہوئے ہیں، میز ''ریزرو‘‘ کرائے بغیر جائیں تو انتظار گاہ میں گھنٹہ آدھ گھنٹہ آسرا لگائے بیٹھنا پڑتا ہے۔ مرسیڈیز خریدنے جائیں تو انتظار کی مدت کا تعلق اس کے ماڈل سے ہوتا ہے۔ ایک دوست جو موٹر خریدنا چاہتے تھے، مجھے ہمراہ لے گئے... شورم کا مالک 35,30 برس کا ہو گا۔ اس نے استقبال کچھ اس طرح کیا، آپ کو مرسیڈیز درکار ہے۔ 190 ماڈل کے لئے تین ماہ، 200 کے لئے چار ماہ، 280 ایس ایل کے لئے چھ ماہ اور 540 کے لئے ایک سال انتظار کرنا ہو گا۔ موٹر کار فوری طور پر درکار ہے تو میں نئی گاڑی نائیجیریا میں رجسٹریشن کے بعد ہوائی جہاز سے منگوا سکتا ہوں‘: اس صورت میں کیا آپ فاضل اخراجات برداشت کر سکیں گے؟ ہم اس کی صورت دیکھتے رہ گئے‘‘۔
''لوحِ ایام‘‘ کی کچھ اور سطور: ''شہنشاہ کے خلاف جو محدود اور کمزور سی تحریک چل رہی تھی، وہ ماہ رمضان میں روز بروز زور پکڑتی چلی گئی۔ اثر کا دائرہ بڑھتا چلا گیا۔ شامل ہونے والوں کی تعداد میں دن دونا، رات چوگنا اضافہ ہوتا گیا۔ خاموش مظاہروں کی زبان کھل گئی۔ ہزاروں نہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ گئے۔ انتظامیہ کے رویے میں سختی آ گئی۔ مظاہرین کا رویہ بھی بدل گیا۔ بھاگنے کی بجائے گرفتاریاں دینے لگے، آنسو گیس چھوڑی گئی تو منتشر ہونے سے انکار کر دیا۔ آگ لگی، سینما، بینک، ہوٹل اور دفاتر جلے، گولی چلی، لوگ بڑی تعداد میں مرنے لگے، زخمیوں کا تعاقب کرتے ہوئے انتظامیہ جوتوں سمیت تہران اور کرمان کی مساجد میں داخل ہو گئی ... دیکھتے ہی دیکھتے کئی شہروں میں مارشل لا لگ گیا‘‘۔
شاہ کے آخری ایام ''14 جنوری، ہر شے جسے چلنا چاہئے وہ کھڑی ہے۔ ریل ، بس، ٹرک، ہوائی جہاز سب بے حرکت، ہر شے جسے کھلنا چاہئے وہ بند ہے، بینک، ہوائی اڈہ اور بازار، وزراء کے دفاتر مقفل، طلباء کے وظائف بند، ہوسٹل بند، تعلیمی ادارے بار بار بند، منصوبے ملتوی، تعمیر رکی ہوئی، ماہرین کی تنخواہیں بند، ٹھیکیداروں کے واجبات بند۔ 15 جنوری... یہ ملک اب رہنے کے لائق نہیں رہا۔ شاہی خاندان کے افراد آج اسے چھوڑ کر امریکہ چلے گئے، صرف رضا شاہ اور فرح دیبا رہ گئے۔ محل کی تنہائیاں بڑھ گئی ہیں اور وسعتیں تنگ ہو گئی ہیں۔ 16جنوری... ''جو کوئی بھی دفتر آیا، وہ واپسی سے آدھ گھنٹے پہلے یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس وقت بلوا کہاں ہو رہا ہے تاکہ وہ گھر جانے کا نسبتاً محفوظ راستہ منتخب کر سکے۔ خبروں کو شروع ہوئے 5 منٹ ہو گئے کہ یکایک انائونسر کا لہجہ بدلا وہ ذرا سا رُ کا۔ ایک انتہائی اہم خبر ابھی ابھی موصول ہوئی ہے، شہنشاہ آج دوپہر ایک بجکر تیس منت پر تہران سے روانہ ہو گئے ‘‘۔
قارئین کو بھٹو شاہی کے خلاف 1977ء کی تحریک کے مناظر بھی شاید یاد آئے ہوں گے!