تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     28-04-2019

گورنر پنجاب اور آلو چھولے

گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے آخر کار پریس کانفرنس کر ہی ڈالی، مگر جن فیصلوں کے بارے میں چہ میگوئیاں تھیں، اُن کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔ تاثر تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی قیادت اوراس کے طرز ِعمل سے خوش نہیں۔ اس کا اظہار اُنھوںنے چند دن پہلے کیا تھا۔ چوہدری صاحب نے عوامی زبان میں کہا ، ''اگر سب کچھ جہانگیر ترین نے ہی کرنا ہے تو ہم یہاں آلو چھولے بیچنے کے لیے ہیں؟‘‘ یہ بیان کئی اخبارات میں نمایاں سرخی کی صورت شائع ہوا۔ چوہدری سرور کی طرف سے بیان ،اور ایسے وقت میں پریس کانفرنس ، جب عمران خان اور تحریک ِانصاف پر حزب ِ اختلاف اور میڈیا کے ایک حصے کی جانب سے شدید تنقید ہورہی تھی، سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ تحریک ِانصاف کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پارٹی میں جس اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت تھی، وہ چوہدری صاحب کے طرز ِعمل سے مزید کمزور ہوئی۔ 
چوہدری سرور کو تحریک ِ انصاف سے بہت گلہ ہے کہ اُن کی بات نہ پہلے سنی گئی اور نہ ہی اب سنی جارہی ہے ۔ عجیب بات کہہ دی کہ اگر گزشتہ انتخابات میں اُن کی بنائی ہوئی حکمت ِعملی پر عمل ہوتا تو تحریک ِ انصاف دوتہائی اکثریت حاصل کرسکتی تھی ۔ نہ جانے وہ کو ن سا جادو تھا جو سرچڑھ کر بولتا اور تحریک ِ انصاف اتنی اکثریت حاصل کرلیتی کہ وہ آئین میں تبدیلی کی پوزیشن میں آجاتی ۔ 
گورنر صاحب ایسی باتیں تحریکِ انصاف کے مشکل وقت میں کیوں کررہے ہیں؟ کیا اُنہیں معلوم نہیں کہ اُن کے حالیہ بیانوں اور پریس کانفرنس سے تحریک ِ انصاف میں ذاتی نوعیت کے تنازعات توانا اور نمایاں ہورہے ہیں؟ جس طرح ملکی سیاست قطبیت کا شکار ہے ، عین اُسی طرح تحریک ِ انصاف کے اندر بھی دھڑے بندی کا تاثر تقویت پارہا ہے۔ اس دھڑے بندی میں نظریات مفقود، اور ذاتیات کے زاویے گہرے ہیں ۔ کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ اس سے اُن کی سیاسی جماعت کو کتنا نقصان ہوتا ہے ۔
اس وقت عمران خان کئی محاذوں پر سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سب سے بڑا محاذ حزبِ اختلاف کی جماعتیں ہیں، جو اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر مورچہ زن ہیں۔ میڈیا کا بازو بھی استعمال کیا جارہا ہے ۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ان کے خلاف کپتان اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں، اورموثر طریقے سے کررہے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ ضرورت سے کہیں زیادہ جارحانہ انداز اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوامی جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کو ''صاحبہ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا وزیرِ اعظم کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ وہ جب بھی مخالف سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اُن کے لہجے میں کرواہٹ، تلخی، شدت اور نفرت کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ یہ لڑائی نہ تو سیاسی جماعتوں اور نہ ہی جمہوریت پسندوں کے لیے فائدہ مند ہے ۔اس سے اُن کی توجہ اصل امور سے ہٹ جائے گی، اور اپوزیشن کا تو کچھ نہیں جائے گا، حکومت کی کارکردگی متاثر ہوگی ۔
کپتان کا دوسرا محاذ خود پارٹی کے اندر ہے ۔ کچھ رہنما ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ چند ہفتے پہلے شاہ محمود قریشی صاحب نے جہانگیر ترین پر تابڑ توڑ ذاتی حملے کیے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا ہے تو اُنہیں کابینہ کے اجلاسوں میں کیوں مدعوکیا جاتا ہے ؟پارلیمانی نظام ہو، یا صدارتی، سربراہ ِحکومت کسی کو بھی بلا کر مشورہ لے سکتے ہیں۔ کابینہ کے اجلا س میں صرف کابینہ کے اراکین ہی نہیں، ماہرین کو بھی بلاکر کسی موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی جاسکتی ہے ۔ یہاں بات نہ تو آئین اور قانون یا پارلیمانی روایات کی ہے، نہ تحریکِ انصاف میں اتحاد و یگانگت پیدا کرنے کی۔ مسئلہ ذاتی مفاد، دھڑے بندی اور پارٹی کی قیادت پر زیادہ اثر حاصل کرنے کا ہے ۔ اختلافات ہوتے ہیں، لیکن اُنہیں سیاسی جماعت کے اندر ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ سیاسی اور جماعتی ڈسپلن کا تقاضا ہے کہ اُنہیں میڈیا اور جلسوں میں ہوا نہ دی جائے ۔ 
کچھ مسائل کا تعلق تحریکِ انصاف کی تاریخ اور سیاسی ساخت سے ہے ۔ شروع میں تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس کی صفوں میں شامل ہوئے۔ ان افراد نے سیاست کے میدان میں قدم عمران خان کی قیادت سے متاثر ہوکررکھا تھا۔ اس جماعت کا نظریاتی پہلو کافی دلکش تھا۔ انصاف کی فراہمی، کرپشن کا خاتمہ، احتساب کا فعال اور غیر جانبدار نظام اوردو موروثی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری ، اور اُن کی باریاں لینے کی روایت کو توڑنا۔ دودہائیوں تک عمران نے ایک محدود مگر متحرک اور پھیلتے ہوئے سیاسی قافلے کے ساتھ جامد سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کیا۔ اُن کے سامنے دو راستے تھے ۔ ایک یہ کہ جدوجہد جاری رہتی، اور نظریاتی اراکین کو ہی پارٹی ٹکٹ دیتے ۔ ا س کے لیے بہت زیادہ وقت درکار تھا، مگر میرے نزدیک یہ کامیابی کا یقینی راستہ تھا۔ 2013 ء کے انتخابات تک تو تحریکِ انصاف اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہی ۔ اس کی قیادت بھی متحرک کارکنوں کے قریب اور ہم آہنگ تھی۔ وہی اراکین جنہوں نے اس کے تاریخی دھرنے کا کامیاب کیا۔ اس دھرنے کے پلیٹ فارم سے ابھرنے والا طاقتور بیانیہ 2018 ء کے انتخابات پر اثر انداز ہوا۔
لیکن جب تحریکِ انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو موروثی سیاسی جماعتوں کی صفوں سے نکل کر روایتی سیاست دان تحریکِ انصاف کی صفوں میں شامل ہونے لگے ۔ اُن کی آمد کا سلسلہ کافی دیر سے جاری تھا، لیکن اس میں تیزی اُس وقت آئی جب پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا ، اور پی ایم ایل (ن) پانامہ میں قائم کمپنیوں کے راز کھل جانے سے دبائو کا شکار ہوگئی ۔ سوال تو بنتا ہے کہ پانامہ میں ملک کا وزیر ِاعظم اور اُس کا خاندان سرمایہ کیوں رکھے گا؟ اگر یہ حلال کی کمائی ہے تو بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے والے اپنا سرمایہ کیوں بیرونی دنیا میں چھپائے ہوئے ہیں۔ ان میں دیگر صنعت کار، سیاست دان اور سرکاری افسران بھی شامل پائے گئے ۔ جب یہ راز کھلنے لگے تو تحریک ِ انصاف کے بیانیے کا وزن بڑھنے لگا۔
تحریکِ انصاف نے جب زور پکڑنا شروع کیا تو ڈوبتی کشتیوں کی سواریاں حسبِ معمول چھلانگ لگاکر، کناروں کی تلاش میں پی ٹی آئی کا رخ کرنے لگیں ۔ نئے مسافروں کے آنے سے تحریکِ انصاف کی صفوں میں گنجائش پیدا کی جانے لگی ۔ اس کا بنیادی فلسفہ وہی پرانا گھسا پٹا بیانیہ تھا کہ پارلیمانی نظام میں آپ کو حکومت سازی کے لیے عددی اکثریت چاہیے ۔ بس پھر کیا تھا۔ کپتان نے یہ نہ دیکھا کہ کون آرہا ہے ، کہاں سے آرہا ہے اور کیوں آرہا ہے ۔ سب پرندے تحریکِ انصاف کی شاخوں پر جگہ بناتے گئے ۔اس چشمے کاپانی پیتے ہی سب گناہ دھل جاتے ۔ یہی وہ وقت تھا جب پارٹی کے نظریاتی کارکنوں اور نئے شامل ہونے والے روایتی سیاست دانوں کے درمیان گروہ بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس کا پہلا عملی اظہار اس وقت دیکھنے میں آیا جب 2013 ء کے انتخابات سے پہلے کپتان نے پارٹی کے اندر انتخابات کرائے ، اور نتیجہ توقعات کے برعکس نکلا۔ پرانے کارکن اپنا مقام گنوا بیٹھے تھے۔ نئے کھلاڑی اہم عہدوں پر براجمان ہو گئے ۔ اس کی وجہ سے تحریکِ انصاف کے نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد پارٹی چھوڑ گئی ۔ پرانے سیاست دان جب تحریک میں شامل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ روایتی سیاست بھی لائے ۔ یہ روایتی سیاست دھڑے بندیوں، سرپرستی اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر آگے بڑھنے کی رسم سے عبارت تھی ۔
کابینہ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیاں مبصرین کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اسد عمر، جنہوں نے معیشت کو مستحکم کیا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ درآمدات میں کمی لائی گئی، عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے ، آئندہ بجٹ بنانے میں مصروف تھے، کوکیوں گھر بھیج دیا گیا؟ موجودہ مشیرِ اطلاعات بھی تجربہ کار ہیں۔ پی پی پی، پھر مشرف کابینہ ، اور ق لیگ، اور اب پاکستان تحریکِ انصاف کی ترجمانی ۔ کسی کو نہیں پتہ کہ ان کی کون سی خوبی نے کپتان کو متاثر کیا۔ چنائو کا کوئی تو معیار ہوگا۔
سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا وہ یہ فیصلے خو د کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اُن کی مردم شناسی کا معیار کیا ہے ؟ کیا عجلت پسندی ہی معقولیت پر غالب ہے ؟ اب رہی بات گورنر پنجاب کی کہ کیا اُن کا کردار آلو چھولے بیچنے تک محدود ہے ؟ محترم، آپ صوبے میں وفاق کے نمائندے ہیں۔ بس اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ انتظامی سربراہ وزیر ِاعلیٰ ہیں، اور وہ اپنی کابینہ کے ذریعے کام کررہے ہیں۔ گورنر مشورہ بھی نہیں دے سکتا۔ آپ کے اختیارات علامتی ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو وزیر اعلیٰ کی مرضی کے بغیر آلو چھولے بھی نہیں بیچ سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved