تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-04-2019

مودی پر اب نئی مصیبت

اِدھر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے روس اور یو اے ای کی جانب سے اعلیٰ اعزازات کا اعلان ہو رہا ہے‘ اور اُدھر پیرس کے مشہور اخبار 'لموند‘ میں چھپی ایک خبر مودی کی شان کو دھول میں ملا رہی ہے۔ چنائو کے دوران ان خبروں کے آنے کی خاص اہمیت ہے۔ بھارت کے کسی بھی وزیر اعظم کو بیرونی ممالک کے اتنے اور بڑے اعزاز کبھی نہیں ملے‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تیس ہزار کروڑ روپے جتنے بڑے گھوٹالے سے آج تک کسی بھی وزیر اعظم کا نام نہیں جڑا۔ فرانسیسی سرکار یا وہاں کے کسی اخبار نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مودی نے رافیل سودے میں اربوں روپے کھائے ہیں‘ لیکن کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی انہیں (مودی کو) چور چور کہنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انیل انبانی کو بچولیا (ثالث) بنا کر رافیل کو دیا جانے والا سرکاری پیسہ واپس مودی کو مل جائے گا‘ جس کا استعمال بھاجپا کے لیے ہو گا۔ جب انبانی کو بچولیا بنانے سے سرکار کو اتنا فائدہ ہو گا تو وہ انبانی کو فائدہ کیوں نہیں پہنچانا چاہے گی؟ انبانی کی ٹیلی کام کمپنی 'ریلائنس ایٹلانٹک فلیگ فرانس‘ پر فرانسیسی سرکار نے گیارہ سو کروڑ روپے کا ٹیکس کئی برسوں سے ٹھوک رکھا تھا‘ لیکن اپریل 2015ء میں جیسے ہی رافیل سودا ہوا‘ اس کے چھ ماہ کے اندر فرانسیسی سرکار نے صرف چھپن کروڑ روپے میں معاملہ نمٹا دیا۔ اس سارے معاملے کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اب فرانس کی سرکار اور بھارت سرکار‘ دونوں نے کہا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے اور اس کا رافیل سودے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا یہ ماننا ٹھیک ہو سکتا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ ٹھیک ہے تو اسے تین برس پہلے ہی ظاہر کیوں نہیں کر دیا گیا؟ اسے بیان کرنے کے لئے اتنا لمبا انتظار کیوں کیا گیا۔ ویسا اگر اس وقت کرتے تو شاید رافیل سودے کی دلالی بھی اسی وقت ظاہر ہو جاتی۔ لیکن اب راہول گاندھی کا الزام ہے کہ اس معاملے میں نریندر مودی کو فرانس اور انبانی کے بیچ دلال بنا دیا ہے۔ سارا معاملہ اب سپریم کورٹ کے زیرِ غور ہے۔ اگر 23 مئی سے پہلے بھارتی عدالت نے کوئی الٹی رائے ظاہر کر دی تو مودی پر مصیبت کا نیا پہاڑ ٹوٹ سکتا ہے۔ ان کے لئے نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان کی مشکلات دوچند ہو سکتی ہیں۔ ویسے بھارت کے 2019ء کے چنائو میں عام ووٹر پر اس معاملے کا کتنا اثر ہے‘ اس بارے میں ابھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم کچھ حلقوں کو ایسا لگتا ہے کہ اس چنائو میں مقامی‘ صوبائی اور ذات پات کے مدعوں کا اثر کہیں زیادہ رہے گا۔ اس کے کچھ بھی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
مایا ہوئیں ملائم
ملائم سنگھ یادو مین پوری سے ایم پی کا چنائو لڑ رہے ہیں اور مایا وتی ان کا چنائو پرچار کرنے وہاں پہنچ گئیں۔ اس طرح ایک انہونی ہو گئی۔ ملائم پر مایا چھا گئیں اور مایا خود ملائم ہو گئیں۔ اتر پردیش کے ان دونوں لیڈروں کے درمیاں گزشتہ چوبیس برس سے چھتیس کا آنکڑا رہا ہے۔ ایک کا منہ اِدھر تو دوسرے کا اُدھر! دونوں کے منہ سے ایک دوسرے کے لیے میں نے ایسے الفاظ سن رکھے ہیں‘ جنہیں یہاں دوہرایا نہیں جا سکتا۔ جون 1995ء کی بات ہے۔ ملائم سنگھ کی سرکار بنی تھی‘ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج وادی پارٹی کے اتحاد سے۔ مایا وتی نے اس وقت اتحاد توڑ دیا اور ملائم سنگھ کی سرکار گرانے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس پر ملائم کے حامیوں نے مایا وتی پر حملہ کر دیا تھا۔ دونوں پارٹیوں کے لاکھوں حامیوں اور ان دونوں لیڈروں کی بیچ تب سے ایسی گانٹھ پڑ چکی ہے‘ جیسی دو دشمنوں کے دلوں میں پڑتی ہے‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اس گانٹھ کو بعد ازاں کھولا‘ اکھلیش یادو نے۔ اکھلیش نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں مایا وتی کے بارے میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جو کڑوی ہو اور ان کے لئے تکلیف دہ ہو۔ بلکہ ان کو وہ احترام کے ساتھ بُوا جی کہا کرتے تھے۔ اب اس نے سپا (سماج وادی پارٹی) اور بسپا (بہوجن سماج وادی پارٹی) کا اتحاد کر کے یو پی کی تصویر ہی بدل دی ہے۔ وہ بھاجپا اور کانگریس‘ دونوں پارٹیوں کے لیے بہت بھاری پڑ رہے ہیں۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی لوک سبھا سیٹوں کے چنائوں میں بھاجپا کو شکست دے کر انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ بسپا اور سپا کا اتحاد بھاجپا کے لیے اب 2019ء میں کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں پارٹیاں مل کر چالیس پینتالیس نشستیں بھی حاصل کر لیں تو مرکز میں مودی کا دوبارہ وزیر اعظم بننا آسان نہیں رہے گا۔ اس صورت میں متحدہ سرکار بنانے کے لیے بھاجپا کو کسی نئے لیڈر کا نام آگے بڑھانا پڑے گا۔ بسپا اور سپا کا یہ اتحاد کسی اصول پر نہیں ہے بلکہ یہ اس ملک (بھارت) کے محروموں اور شیڈیولڈ کاسٹ میں پیدا ہونے والوں کے لئے نیک اظہار کی نشاندہی ہے۔ بھارت کی موجودہ سیاست اصولی نہیں‘ یہ اقتدار کی ہوس میں کی جا رہی ہے۔ اقتدار ہی وہ گوند ہے‘ جو پارٹیوں اور لیڈروں کو ایک دوسرے سے چپکاتا ہے۔ میری نظر میں اس گوند کا اثر 23 مئی کے بعد لا محدود ہونے والا ہے۔
سری لنکا میں خطرناک دہشت گردی
سری لنکا کے سنگھل اور تامل لوگوں کے بیچ ہوئی خطرناک لڑائی نے پہلے ساری دنیا کا دھیان اپنی طرف کھینچے رکھا تھا‘ لیکن حال ہی میں ایسٹر کے موقع پر بہی خون کی ندیوں نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک اہم موقع پر سری لنکا کے چرچ اور ہوٹلوں میں ہوئے بم دھماکوں میں 250سے زیادہ لوگ مارے گئے اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں درجنوں یورپی‘ امریکی اور ایشیائی لوگ بھی تھے۔ دہشت گردی کا اتنا بڑا حملہ دنیا میں شاید پہلے کبھی نہیں ہوا۔ دنیا کے عیسائی اور مسلم ممالک میں اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت ہو رہی ہے۔ یہاں اہم سوال یہی ہے کہ آخر یہ ہوا کیوں اور کیسے؟ سوا دو کروڑ آبادی والے سری لنکا میں لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ بودھ ہیں‘ پچیس لاکھ ہندو ہیں‘ بیس لاکھ مسلم ہیں اور پندرہ لاکھ عیسائی ہیں۔ بودھ لوگ سنگھل زبان بولنے والے ہیں۔ سنگھلی ہیں۔ زیادہ تر مسلم تامل ہیں اور عیسائیوں میں سنگھل اور تامل دونوں ہیں۔ وہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بیچ ذات پات کے جھگڑے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ مسلمانوں اور بودھوں کے بیچ 2014ء اور 2018ء میں دو بار ذاتی معاملات کو لے کر فسادات ہوئے‘ جو بعد ازاں دنگوں میں بدل گئے تھے۔ ان دنگوں میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا تھا۔ مسلمانوں کو پتا ہے کہ بودھ لوگ مہاتما بدھ کی اہنسا کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے جیسا مجموعی تشدد دنیا میں بہت کم ذاتیں کرتی ہیں۔ اب غصہ عیسائیوں پر اتارا گیا اور اس کے لیے انہوں نے عالمی دہشتگردوں کا سہارا لیا۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اتحادوں کی سازش کے بنا اتنا بڑا حملہ کرنا سری لنکا کی کسی بھی کمیونٹی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کچھ سری لنکن مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے پتا چلے گا کہ اس سازش کے پیچھے اصلی عناصر کون سے ہیں۔ ایسٹر کے دن سر ی لنکا کے گرجا گھروں پر حملوں کا ایک بڑا پیغام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دہشت گرد یورپ اور امریکہ کو بتا رہے ہیں کہ لو وہاں نہیں تو یہاں تم سے ہم بدلہ نکال رہے ہیں۔ اس دہشت گردی کے بعد سری لنکا کے مسلمانوں کا جینا حرام ہو جائے گا بلکہ ہو چکا ہو گا۔ سری لنکا کے صدر اور وزیر اعظم کے بیچ پہلے سے دنگل چل رہا ہے اور اس ملک کی اکانومی پیندے میں بیٹھی جا رہی ہے۔ ایسے میں سری لنکا کو فرقہ واریت کے دنگوں سے بچانا ضروری ہے۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں کو اس مدعا پر ایک جٹ ہونا ہو گا۔
بھارت کے 2019ء کے چنائو میں عام ووٹر پر اس معاملے کا کتنا اثر ہے‘ اس بارے میں ابھی واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم کچھ حلقوں کو ایسا لگتا ہے کہ اس چنائو میں مقامی‘ صوبائی اور ذات پات کے مدعوں کا اثر کہیں زیادہ رہے گا۔ اس کے کچھ بھی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved