تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-04-2019

ن لیگ کی منزل؟

نوازشریف سے منسوب مسلم لیگ کی منزل کیا ہے؟
اس سوال کا کوئی متعین جواب کسی کے پاس نہیں۔منزل کی خبر نہ ہو تو راستے کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔جادہ و منزل کی بحث سے بے نیاز یہ جماعت، آخر کب تک عوام کو اپنی طرف متوجہ رکھ سکے گی؟ نوازشریف اپنی صحت سے آگے کچھ نہیں دیکھ رہے۔شہباز شریف کہاں دیکھ رہے ہیں،کسی کو کچھ خبر نہیں۔یہ خاندان پارٹی میں کسی اورکو فیصلے کا حق دینے پربھی آمادہ نہیں۔شہباز شریف ملک سے باہر ہیں تو کسی حکمتِ عملی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔عوام آخر اس جماعت کی تائید کریں تو کیوں؟ کوئی آدرش؟ کوئی لائحہ عمل؟کوئی منزل؟
نون لیگ کوبرے حالات میں کس چیز نے زندہ رکھا ؟بطور وزیراعلیٰ،شہباز شریف کا حسنِ انتظام؟ توانائی کے بحران کا خاتمہ؟ایک مستحکم معیشت؟یقیناً ان عوامل کا بھی کردار ہو گا لیکن میرے نزدیک یہ نوازشریف کا بیانیہ تھا جس نے بدترین حالات میں مسلم لیگ کو سنبھالا دیا۔کارکردگی بنیاد ہوتی تو سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت دوبارہ نہ بن سکتی۔سیاست میں اصل اہمیت بیانیے کی ہے۔نوازشریف کے بیانیے نے مخالفانہ یلغار میں بھی ن لیگ کے سیاسی انخلا کو ناممکن بنادیا۔
انتخابات کے بعد،ن لیگ اس بیانیے سے وابستگی کا کوئی عملی مظاہرہ نہیں کر سکی۔شہباز شریف صاحب نے بھولے سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔یہ باپ بیٹا احتساب کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ تلاش کرتے رہے۔اب عمران خان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے،انہوں نے اس سوال سے دانستہ گریز کیا۔اس سوال ہی سے نوازشریف کا بیانیہ جڑا ہو اہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سوال اٹھانے کی ایک قیمت ہے۔اگر نو ن لیگ یہ قیمت نہیں دے سکتی تو پھراسے کوئی نیا بیانیہ اختیار کر نا چاہیے۔یہ پھر بعد کی بات ہے کہ عوام اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
میرا احساس ہے کہ نوازشریف کا بیانیہ جڑ پکڑچکا۔اب یہ سماج کے باشعورطبقے میں گہری بنیادیں رکھتا ہے۔جو ریاست و سیاست کے مبادیات سے بھی واقف ہے،اس کے لیے مشکل ہے کہ اس سے اختلاف کرے۔اس کی تائید میں پاکستان کی پوری تاریخ کھڑی ہے۔یہ سوال تو زیرِ بحث آ سکتا ہے کہ خودنوازشریف صاحب کی اس بیانیے سے وابستگی کتنی دیانت دارانہ ہے لیکن سیاسیات کا کوئی طالب علم اس مقدمہ کی صحت سے انکار نہیں کر سکتا،نوازشریف جس کے علم بردار بن کر کھڑے ہوئے۔اس مقدمے کی وجہ سے بہت سے لوگ نوازشریف صاحب کی دیگر کمزوریوں سے صرفِ نظر کرنے پر آمادہ ہیں۔بالکل اسی طرح ،جیسے کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے والے،عمران خان صاحب کی زندگی کے کمزورپہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اگر نوازشریف یا مریم نواز طویل عرصہ خاموش رہتے ہیں یا ن لیگ اس بیانیے سے گریز کا راستہ چنتی ہے تویہ جما عت اس طبقے کے لیے اپنی کشش کھو دے گی جو اس بیانیے سے وابستہ ہے۔ ایک فطری اصول کے تحت،پھراس بات کاامکان ہو گا کہ کوئی نئی قیادت ابھرے جو اس بیانیے کی علم برداربن کر کھڑی ہو جا ئے۔اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ یہ طبقہ خاموشی کے ساتھ سیاسی عمل سے بیگانہ ہو جائے۔
ہم-90 1980 ء کی دہائی میں ایسا ہوتا دیکھ چکے ہیں۔جب پیپلزپارٹی سیاسی عمل سے لاتعلق کر دی گئی اور سیاسی افق پر کوئی ایسا گروہ نمودار نہ ہوا جو پیپلزپارٹی کے حقیقی بیانیے کاوارث ہو تا تو اس گروہ نے سیاسی عمل سے گریز کا راستہ اپنایا جو اس بیانیے کی وجہ سے پارٹی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسی طرح جب زرداری صاحب کے دور میں پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی تو بھی یہ طبقہ پارٹی سے لاتعلق رہا۔مجھے حیرت نہیں ہو گی اگرآج تاریخ اس معاملے میں خود کو دھراتی ہے۔
نوازشریف صاحب کے بیانیے کی صحت سے لوگوں کو انکار نہیں ہو سکتامگر اس میں ایک پیچیدگی ہے۔اس کا تعلق لائحہ عمل سے ہے۔سوال یہ ہے کہ اس بیانیے کوکس طرح آگے بڑھایا جائے کہ اداروں کے ساتھ تصادم نہ ہو اورمنزل بھی مل جائے؟تصادم کا جو بھی نتیجہ نکلے،ملک بہر صورت ایک بڑے بحران میں مبتلا ہو جائے گا۔ مشرقی پاکستان میں ہم یہ دیکھ چکے۔
اب عملاً دو صورتیں ممکن ہیں۔ایک یہ کہ فریقین اتنے بالغ نظر ہوں کہ وہ سیاسی بحران کی نوعیت کو سمجھتے ہوں۔وہ جمہوریت،ووٹ کی اہمیت، آئین، قومی یک جہتی اورتقسیمِ کار جیسی اقدار اور تصورات سے واقف ہوں اور سیاسی استحکام کے لیے ان کی اہمیت جانتے ہوں۔ان کو معلوم ہو کہ جمہوریت دراصل عوامی امنگوں کی صورت گری کا نام ہے اور یہ عوام کے منتخب نمائندوں ہی کی ذمہ داری ہے۔بایں ہمہ ،وہ شعور رکھتے ہوں کہ قومی سلامتی کے معاملات میں ریاستی اداروں سے مشاورت کی کیا اہمیت ہے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوت پر انحصارکریں اور اس کی بنیاد پر فریقِ ثانی کو مجبورکریں کہ وہ دوسرے کی برتری کو قبول کر لے۔جس کے پاس جو طاقت ہے وہ اس کا اظہار کرے۔ کسی کاانحصار عوامی تائید پر ہے تو عوام کو سڑکوں پر لے آئے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟
پہلا حل اگر ممکن ہو تاتو نوبت یہاں تک پہنچتی کیوں؟جس معاشرے میں ہر طبقہ بالغ نظر ہو،وہاںیہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔سارا مسئلہ اس بالغ نظری ہی کا تو ہے۔اس کے فقدان نے ہمیں یہ دن دکھایا۔دوسرا حل بھی ایسا ہے کہ اس کے ممکنہ نتائج سے دل کانپ اٹھتا ہے۔میرا احساس ہے کہ معاملے کی اسی پیچیدگی نے نو ن لیگ کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔اب ن لیگ اس بند گلی سے کیسے نکلے؟
راستہ ایک ہی ہے:پرامن جد وجہد اور عزیمت ۔ن لیگ تمام جمہوری ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھے اور عوامی تائید کا حلقہ وسیع کرے۔اس راہ میں اگر کوئی مشکل آئے تو عزیمت سے برداشت کرے۔ن لیگ کے پاس تین فورم موجود ہیں:پارلیمنٹ،میڈیا اور عوامی اجتماعات۔وہ ان فورمز پر اپنا مقدمہ پیش کرسکتی ہے اور رائے عامہ کو ہموار کر سکتی ہے۔
ایک سیاسی جماعت کی قوت عوام کی تائید ہی ہو سکتی۔اس سے معاشرہ فطری ارتقا سے گزرے گا اور تصادم سے بھی محفوظ رہے گا۔اگر اس کے خلاف طاقت استعمال ہوتی ہے تو اسے عزیمت کے ساتھ اس کا سامنا کرنا چاہیے۔ مظلوم کی خاموشی اور استقامت سے زیادہ طاقت ور ہتھیارآج تک وجود میں نہیں آیا۔اس سے امید ہے کہ فریقِ ثانی کا بھی دل پگھلے گا۔کیا معلوم کہ نئی قیادت درست سیاسی تجزیہ تک پہنچ جائے۔آخر قومی مفاد کے لیے مذہبی گروہوں کے استعمال کے باب میں بھی ہم ایک خوش گوار تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ 
ن لیگ ایک قومی جماعت ہے۔سیاسی حرکیات کو سمجھتی ہے۔تصادم کی بھی قائل نہیں۔اس کا نوازشریف کے بیانیے کے ساتھ متحرک ہونا قومی مفاد میں ہے۔اگر ن لیگ نے اس بیانیے سے انحراف کیاتو اسے جان لینا چاہیے کہ سیاست میں خلا نہیں رہتا۔یہ بیانیہ جڑ پکڑ چکا۔یہ اپنی قیادت خود ڈھونڈلے گا۔اگر ن لیگ اس بیانیے پرقائم رہتی ہے اوراسے طاقت سے روکا جاتا ہے تو پھر قومی بصیرت کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
ن لیگ کواب طے کرنا ہوگا کہ اس کی منزل کیا ہے؟ اگر نوازشریف کے بیانیے پر کھڑا رہنا ہے تواس کا ایک لائحہ عمل ہے اور قیمت بھی۔اگر روایتی سیاست کی طرف لوٹنا ہے تو اس کا بھی اک لائحہ عمل ہوگا اور ظاہر ہے کہ ایک قیمت بھی۔یہ فیصلے اس کی قیادت کوکرنا ہے کہ وہ کیا قیمت دے سکتی ہے۔ تاخیر اسے سیاسی عمل سے لاتعلق کر دے گی۔اُس وقت کا انتظار جب حکومت اپنے ہی بوجھ سے گر جائے،کوئی حکمت ِ عملی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved