تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-04-2013

شُکر ہے، ایمان بچ گیا!

مرزا تنقید بیگ کے خون میں تنقید شامل ہے۔ نہیں نہیں، آپ اُن کے والد کے بارے میں بدگمانی نہ پالیں۔ مرحوم نقّاد نہیں تھے۔ وہ تو خاصے شریف آدمی تھے۔ اِس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ مرزا میں شرافت نہیں۔ مگر خیر، اُن میں جو تھوڑی بہت شرافت پائی جاتی ہے وہ اُن کے مرحوم والد ہی کا موروثی صدقہ ہے ورنہ مرزا نے تو خود کو ’’عظیم الدّہر‘‘ ثابت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی! کون ہے جس پر مرزا تنقید نہیں کرتے؟ کون ہے جو اُن کی زبان سے نکلے ہوئے ملامتی تیروں سے بچ سکا ہے۔ ہم تو خیر نامعلوم زمانوں سے اُن کے نشانے پر ہیں۔ مگر ہاں، ڈاکٹر طاہرالقادری کے مُقدّر پر رشک آتا ہے جنہیں مرزا نے بخوشی استثنٰی دے رکھا ہے! ہم سوچ رہے تھے کہ الیکشن نزدیک ہے تو جلسوں کی گرم بازاری بڑھتی ہی جارہی ہے مگر ’’شیخ الاسلام‘‘ خاموش ہیں۔ خوشا کہ لاہور میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے لَب کُشائی فرمائی ہے اور وہ بھی اِس انداز سے کہ ہم تو سہم گئے۔ ڈاکٹر صاحب نادیدہ لَٹھ لیکر الیکشن کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ پہلے تو اُنہوں نے الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کیا۔ پھر کہا کہ انتخابات ہونے ہی نہیں چاہئیں۔ اِس کے بعد پولنگ کے دن دَھرنے دینے کا اعلان کیا۔ یہ سب تو میٹھی گولیاں تھیں، اب وہ خاصی کڑوی گولیوں کی بوتل کھول کر میدان میں آئے ہیں۔ انتخابات کے خلاف لاہور میں نکالی جانے والی ریلی میں شریک اپنے مُریدوں اور جاں نثاروں سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے 11 مئی کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کو گناہِ کبیرہ قرار دے دیا ہے۔ یہ سیاسی فتویٰ ہے تو خاصا دِل دہلانے والا مگر پھر بھی ہم نے سُکون کا سانس لیا۔ کیا؟ سُکون کا سانس؟ آپ حیران ہو رہے ہوں گے۔ ہم تو اِس بات پر اللہ کا شُکر ادا کر رہے ہیں کہ موصوف نے یہ نہیں کہا کہ جو اِس بار الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرے گا اُس کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔ اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر وہ ووٹ کاسٹ کرنے والوں کو اسلام کے دائرے ہی سے خارج کرسکتے تھے! گناہِ کبیرہ کا الزام ہم سہہ لیں گے، مگر شُکر ہے، ایمان بچ گیا! ڈاکٹر طاہرالقادری کے معاملے میں مرزا تنقید بیگ خاصے ڈائی ہارڈ واقع ہوئے ہیں۔ اپنے ممدوح کے خلاف وہ ایک لفظ بھی نہیں سُن سکتے۔ جنوری میں ہم نے اسلام آباد میں کنٹینر میں بیٹھ کر دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرنے پر تنقید کی تھی تو اُن کا کہنا تھا۔ ’’اِس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ ہمارے ہاں ہر دور میں قیادت کو contain کرنے کی ہی تو کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ایسے میں اگر ڈاکٹر صاحب نے ’’کنٹینر لیڈرشپ‘‘ متعارف کرادی تو کون سا گناہ کیا؟‘‘ مرزا کا استدلال ہے کہ جیسی رُوح ویسے فرشتے کے اُصول کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا وجود اِس قوم کے لیے بالکل موزوں ہے۔ ہم نے جب کینیڈا میں سکونت اختیار کرنے پر اعتراض کیا تو مرزا کا کہنا تھا۔ ’’یہ قوم اہل علم اور اہل فن کی قدر ہی کہاں کرتی ہے؟ ناقدری ہی سے پریشان اور مایوس ہوکر ڈاکٹر صاحب کینیڈا کا انتہائی سرد موسم جھیلنے پر مجبور ہوگئے۔ اور یہ بھی خلوص ہی کا اظہار ہے کہ خود سخت سردی جھیلتے رہتے ہیں مگر وطن واپس آکر تھوڑی بہت گرما گرمی اور گرم بازاری کا اہتمام کرتے ہیں!‘‘ گزشتہ روز ہم نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب الیکشن نہیں لڑتے تو نہ لڑیں، دوسروں کی راہ میں دھرنے تو نہ اٹکائیں! یہ سُننا تھا کہ مرزا پھٹ پڑے۔ ’’ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی اپنے معاملات میں آزاد ہیں، جیسی چاہیں طرز عمل اختیار کریں۔ یہاں سبھی اپنی مرضی سے جی رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ڈاکٹر صاحب بھی اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ایسا کرنے سے ہوگا کیا؟ الیکشن کا بائیکاٹ تو سمجھ میں آتا ہے۔ مگر اُس کی مخالفت اور پھر پولنگ اسٹیشنز پر دھرنے دینے کا اعلان کِس ایجنڈے کے تحت ہے؟ مرزا تِلمِلا اُٹھے۔ ’’تم جیسے لوگ تو ہر معاملے میں ایجنڈا تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ لازم تو نہیں کہ ہر معاملے کی پُشت پر کوئی سازش کار فرما ہو۔ کوئی ایک آدھ کام آدمی اپنی صوابدید سے بھی کر ہی لیتا ہے۔ ڈاکٹر قوم کی راہ نُمائی فرما رہے ہیں تو اِس پر بھی اعتراض؟‘‘ ہم نے نُکتہ اعتراض پر کہا کہ ڈاکٹر صاحب راہ کہاں دِکھا رہے ہیں، وہ تو الیکشن کی راہ سے لوگوں کو ہٹانے پر تُلے ہوئے ہیں، ووٹ ڈالنے سے متنفر کر رہے ہیں! ’’یہ بھی راہ نُمائی ہی کی ایک شکل ہے۔ وہ لوگوں کو ووٹ نہ دینے کی راہ دِکھا رہے ہیں! مگر سیاست کے جدید اُصول اور اُن کا اطلاق تم کیا جانو۔‘‘ مگر قوم کو حکمران منتخب کرنے ہیں۔ پولنگ کا بائیکاٹ کرکے حکمران کِس طور منتخب کئے جاسکتے ہیں؟ ’’قوم نے اب تک بھی تو حکمران منتخب کئے ہیں۔ کیا نتیجہ نکلا؟ راستے مزید تباہی کی طرف گئے ہیں۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ حکمران غلط ثابت ہوتے بھی رہے ہیں تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انتخابی عمل ہی کو ترک کردیا جائے۔ پولنگ کے ذریعے حکمرانوں کا احتساب ہوسکتا ہے۔ جو توقعات پر پورے نہیں اُترے اُنہیں مسترد کرکے ردی کی ٹوکری میں ڈالا جاسکتا ہے۔ مرزا چہک کر بولے۔ ’’تم پھر کتابی باتوں پر اُتر آئے۔ کئی بار کہا ہے کہ اِتنا مت سوچا کرو کہ دِماغ کام کرنے سے انکار کردے! سوچتے رہنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ تمہارا دماغ اب کام نہیں کرتا اور اِس خامی کو چھپانے کے لیے کالم لِکھ لِکھ کر لوگوں کو دھوکا دے رہے ہو!‘‘ مضبوط اعصاب کے حامل کالم نگاروں کی طرح ہم نے بھی مرزا کی بات کا ذرا بُرا نہ مانا! جواباً عرض کیا کہ یہ کتابیں باتیں نہیں۔ دُنیا بھر میں جمہوری عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ حکمرانوں کو اُن کے بُرے اعمال کی سزا بیلٹ پیپر کے ذریعے دیتے ہیں۔ پولنگ بُوتھ عدالت بن جاتا ہے۔ انتخابی عمل کو مسترد کرنا ایسا ہی ہے جیسے چور، ڈاکو، قاتل دندناتے پھر رہے ہوں تو تعذیرات کے نظام ہی کو کچرا کنڈی کی نذر کردیا جائے! مرزا بولے۔ ’’تم بھی کہاں کی بحث لے بیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ووٹ ڈالنے کو گناہِ کبیرہ کیا قرار دے دیا تم تو لَٹھ لیکر اُن کے پیچھے پڑگئے۔ اب اُنہیں معاف بھی کردو۔‘‘ ہمارا استدلال تھا کہ لوگوں کو ووٹ نہ ڈالنے پر اُکسانا اچھی بات نہیں۔ چند لوگوں کی خرابی پر جمہوری ہی کو ترک کرنے کی تعلیم نہ دی جائے۔ مرزا ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مِصداق اپنے ممدوح کی حمایت کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں۔ ’’مگر دھرنا دینا تو اُن کا حق ہے۔ اِس پر کِسی کو اعتراض کیوں ہو؟‘‘ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر کِسی کو شادی نہیں کرنی تو نہ کرے مگر دوسروں کی شادی میں کافور کی بُو نہ پھیلائے، لوبان کی دُھونی نہ دے! یہ تو ضِد والی بات ہوئی۔ مرزا لہک اور چہک کر بولے۔ ’’یہاں ضِد ہی تو چل رہی ہے۔ جو منتخب ہوتے ہیں وہ کرپشن پر بضِد رہتے ہیں۔ لوگ اُنہیں بار بار منتخب کرنے پر بضِد ہیں۔ اور میڈیا والے بھی کم ہٹھ دھرم نہیں۔ وہ ایک ہی لکیر پیٹتے رہنے پر بضِد رہتے ہیں۔‘‘ ہماری گزارش تھی کہ کچھ بھی ہو، سسٹم کے اندر رہتے ہوئے خرابی دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ مرزا بولے۔ ’’تم نہیں مانوگے، سسٹم کے چمچے! تم جیسوں کے اعتراض کرنے سے ڈاکٹر صاحب کے دھرنوں کا گلشن اُجڑ نہیں جائے گا! تمہارا پرنالہ اپنی جگہ گرتا رہے گا اور اُن کا دریا اپنے مقام پر بہے گا!‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved