اگر1955ء کا ہندو ستان شادی ایکٹ اور پھر1956ء کا وراثتی ایکٹ سامنے رکھیں ‘تو کمال مہارت اور چالاکی سے کانگریسی براہمن اور پنڈتوں نے سکھ‘ بدھ‘ جین اور لنگیازکو ہندو دھرم کے اندر سموتے ہوئے ان کیلئے وہی قانون طے کرا لیا‘ جو ہندو دھرم میں رائج چلا آ رہا ہے‘ لیکن چالا کی یہ کی کہ سکھوں‘ جین اور بدھسٹوں کی خوشنودی کیلئے انہیں ہندوئوں سے علیحدہ ایک قوم تسلیم کرتے ہوئے اقلیت کا قانونی درجہ دے دیا‘ لیکن لنگیاز کو اپنے اند رہی زبردستی سموئے رکھا ‘کیونکہ اس وقت تک ان کی کوئی مؤثر لیڈر شپ اور آواز نہیں تھی؛ اگر کچھ لوگ تھے بھی تو انہیں ماسٹر تارا سنگھ کی طرح خاموش کر الیا گیا ۔ پنڈت اور براہمن جانتا تھا کہ ایک دفعہ اگر لنگیازکے مذہب کو آئینی طور پر ہندو دھرم سے علیحدہ تسلیم کر لیا گیا تو پھر انہیں بھی اقلیتوں والے وہی حقوق حاصل ہو جائیں گے ‘جن سے وہ کروڑوں کی تعداد میں لنگیاز ‘جنہوں نے انگریز سے آزادی کے بعد اپنے آپ کو تعلیم‘ ملازمت اور دوسرے فوائد کیلئے بطورِ ہندو اندراج کرالیا تھا‘ پھر سے اپنے اصلی مذہب کا رخ کر لیں گے‘ جس سے ہندو بھارت بھر میں آبادی کے لحاظ سے اقلیت میں آ سکتے ہیں۔ 1955-56ء کے ان شادی اور وراثتی ایکٹس کو آج جب64‘63 برس ہونے کو ہیں‘ تو ایک انقلاب یا تبدیلی سمجھ لیجئے کہ کرنا ٹک کے موجو دہ وزیر اعلیٰ نے اپنی ریا ست کے اندر تمام سرکاری دفاتر میں لنگیاز مذہب کے بانی اور فلا سفر سنتBasavanna کی تصاویر آویزاں کرنے کا باقاعدہ حکم جاری کر دیا ہے۔
انگریز سے آزادی حاصل کرتے ہوئے ہندوستان کے مختلف حصوں کو مذہب کی بنیاد پر جب آزاد مملکت قائم کرنے کیلئے تقسیم کا فارمولہ طے پا رہا تھا تو آج کوئی مشکل سے ہی یقین کرے گا کہ اس وقت ہندوستان بھر میں ہندو اقلیت میں تھے۔جب تقسیم کا فارمولہ طے ہو رہا تھا تو ہندوستان میں مسلم‘ سکھ‘ عیسائی‘ بدھسٹ‘دلت ‘ ہندو اور لنگیاز قومیں اپنے اپنے مذاہب کی بنیاد پر وہاں رہ رہی تھیں‘ لیکن گاندھی اور نہرو سمیت کانگریس کے دوسرے سرکردہ لیڈروں نے انگریزی راج کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے یہ سازش کی کہ مسلم‘ عیسائی اور بدھسٹ کے علا وہ باقی تمام جین‘ سکھ‘ دلت اور لنگیاز جیسے مذاہب کو ہندو مذہب کا حصہ ظاہر کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کے علا وہ باقی تمام ہندوستان اپنے لئے وقف کر لیا۔آج جب انگریز سے آزادی ملے 71برس گزرنے کو ہیں‘ تو بھارت کے صوبے کرناٹک کی ریا ست نے باقاعدہ ایک قانون منظور کر تے ہوئے اپنے صوبے میں آباد لنگیاز کو ہندو دھرم سے علیحدہ ایک مذہب کے طو رپر قبول کر نے کی منظوری دے دی ہے اور اس وقت صرف کرناٹک میں یہ لنگیاز بھارت کی اس جنوبی ریا ست کی کل آبا دی کا17 فیصد ہیں کرناٹک حکومت نے لنگیاز کو ایک علیحدہ مذہب قرار دینے کا یہ قانون نئی دہلی کی مرکزی حکومت کو بھجوا دیا ہے اور اس فیصلے سے لنگیاز کا بہت ہی پرانا مذہب بھارت بھر میں ہندوئوں سے علیحدہ ایک سرکاری مذہب کا درجہ اختیار کرنے کیلئے نئی دہلی کی منظوری کا شدت سے منتظر ہے۔ بھارت کی مختلف ریا ستوں میں2010ء کی مردم شماری کے مطا بق؛ بھارت کی صرف چار ریاستوں مہاراشٹر میں لنگیاز کی آبادی ڈیڑھ کروڑ‘ کرناٹک میں ایک کروڑ‘ تلنگانہ میں80 لاکھ‘ تامل ناڈو میں پچاس لاکھ ہے۔ آزادی کے وقت لنگیاز کی آبادی اس سے کئی گنا زیا دہ تھی‘ کیونکہ گزشتہ70 برس میں کروڑوں کی تعداد میں لنگیاز کو ہندوئوں نے تعلیم‘ کاروبار‘ روزگار اور معاشرے کے مختلف اداروں میں داخل کرنے کا لالچ دیتے ہوئے اپنے اندر ضم کر لیا‘ جس کیلئے سکھوں کی مثال سامنے رکھ لیجئے ‘کیونکہ بہت سے سکھوں کو بھی ہندوئوں نے اپنے اندرسمو لیا ہے۔
مشہور جرنلسٹ گوری لنکیش اور ماہر تعلیم کلبورگی جو ایک دہائی سے لنگیاز مذہب کیلئے کام کر رہے تھے‘2015 ء میں ان کو نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے موقع پر ہی قتل کر دیا اور ان کے قاتلوں کا آج تک کوئی پتا نہیں چل سکا۔ گزشتہ سال20 جولائی کو لنگیاز کی نکالی جانے والی ریلیوں کے شرکاء کی تعداد نے ایک طرف جہاں کانگریس کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے تو دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی بھی ان کی طاقت اور اتحاد کو دیکھتے ہوئے چکرا کر رہ گئی اور اگراس قسم کی کوئی بھاری ریلی پاکستان کے کسی حصے میں کچھ لوگوں کی جانب سے اس قسم کے مطا لبات کیلئے نکالی جاتی تو یقین کیجئے انڈین خفیہ ایجنسیوں نے اسے مزید بڑھاوا دینے کیلئے ان کی مددکو کود پڑنا تھا‘ لیکن ہمارے لوگ اپنے دشمن کے اس قسم کے کمزور پہلوئوں کو استعمال کرنے کی بجائے نہ جانے کیوں سوئے رہتے ہیں؟کرناٹک کی ایک کروڑ افراد پر مشتمل اس آواز کو مودی سرکار کی صورت میں انتہا پسند ہندوئوں کا ٹولہ قبول کرتا ہے یا نہرو اور گاندھی کی طرح ایک مرتبہ پھر جبر اور طاقت سے اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے چپ سادھ لیتا ہے؟لیکن یہ حقیقت ہے کہ انگریز سے آزادی کے وقت بھی لنگیاز نے کمزور سی آواز اٹھائی ضرور تھی‘ لیکن دب کر رہ گئی جب مذہب کی بنیاد پر نئے ریاستی ڈھانچے ترتیب دیئے جا رہے تھے تو ان لنگیاز کی قیا دت بھی سکھ لیڈروں کی طرح کانگریس کے سامنے ڈھیر نہ ہوتی تو آج ایک طرف جہاں خالصتان یا کسی اور نام سے سکھوں کی علیحدہ ریا ست ہوتی تو ساتھ ہی لنگیاز کو بھی اپنے مذہب کی بنیاد پر اپنا علیحدہ ملک مل جاتا‘ لیکن چانکیہ نے دلت کی طرح کڑوا گھونٹ بھرتے ہوئے ظاہری طور پر اپنا حصہ بتاتے ہوئے ہندو آبادی کا تناسب بڑھایا‘ اسی طرح کروڑوں لنگیاز کو بھی اپنے ساتھ دبوچے رکھا۔
لنگیاز کی تاریخ کوئی دو یا چار سو برس کی نہیں‘ بلکہ ان کے علیحدہ مذہب کی بنیاد کا سلسلہ کوئی بارہویں صدی سے اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس وقت کے فلاسفر سینٹBasavanna نے ہندو مذہب کے ذات پات کی اونچ نیچ کے شکنجے کے خلاف جدو جہد شروع کی ۔کرناٹک یونیورسٹی کے پروفیسر اور نامور سکالر این جی مہادیواپا کا دعویٰ ہے کہ لنگیاز دھرم کا ہندو دھرم سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور یہ ایک علیحدہ مذہب ہے ‘کیونکہ ہندوئوں کے قطعی بر عکس لنگیاز''صرف اورصرف ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔وہ صرف ل لنگیا ‘یعنی شیوا کو ہی ایک خدا کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کو ہی اپنا دھرم اور ایمان سمجھتے ہیں ‘جبکہ ہندو اَن گنت بتوں کی پوجا کو اپنا دھرم بنائے ہوئے ہیں۔پروفیسر مہادیواپا نے اپنی کتاب '' آزاد مذاہب‘‘ میں تشریح کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ لنگیاز کا ہندو ئوں کا اپنے مندروں میں رکھے گئےLingaسے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔
کرناٹک کے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ایس ایم ذمدار کا کہنا ہے کہ لنگیا زبت پرستی اور ہندوئوں کے اشلوک اور مختلف اشعار اور ویدوں کے سخت مخالف ہیں۔ ہندو براہمن نے اب تک ہم پر جو اپنی مرضی مسلط کی تھی وہ زیا دہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ‘کیونکہ صرف کرناٹک میں لنگیاز کی اس وقت کم از کم تین ہزار سے زائد عبادت گاہیں ہیں ‘جہاںہندو دھرم سے بالکل الگ عبادت کی جاتی ہے اور ان عبادت گاہوںکی نگرانی میں سینکڑوں سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں ‘جہاں انہیں بتایا جاتا ہے کہ لنگیاز دھرم کا بت پرستی سے کوئی واسطہ نہیں۔