سوموار کی سہ پہر‘ مسلح افواج کے ترجمان‘ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس بلا شبہ غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔ مودی کے ہندوستان کو ان کا انتباہ‘ ''ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا ماٹو رکھنے والی پاک فوج کے ناقابلِ تسخیر عزم کا واشگاف اظہار تھا کہ ایٹمی اثاثے دیوالی کے لیے نہیں... پاکستان اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے (ایٹمی صلاحیت سمیت) ہر صلاحیت استعمال کرے گا... یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ خطے میں سلامتی اور امن کے لیے مذاکرات کی میز پر آتا ہے یا 27 فروری (2019ء) کو دہرانا چاہتا ہے ( جب پاکستان نے دن کی روشنی میں اس کے دو طیارے مار گرائے تھے)۔
سرحد کے اُس پار دشمن کو اس ''مناسب‘‘ انتباہ کے ساتھ پاک فوج کے ترجمان نے سرحد کے اندر بھی ان عناصر کو ''ضروری پیغام ‘‘ دیا جو (ترجمان کے بقول) انڈین ''را‘‘ اور افغان این ڈی ایس کی فنڈنگ کے ساتھ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں انڈین قونصل خانوں کی طرف سے ہُنڈی اور حوالہ کے ذریعے بھاری رقوم کی فراہمی کا ذکر بھی کیا... جنرل آصف غفور نے اشاروں کنایوں سے کام لینے کی بجائے پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) اور اس کے لیڈروں کا کھل کر نام لیا اور کہا کہ ان کے لیے چھوٹ کا وقت ختم ہو چکا‘ اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ ان کے اس بیان کو پی ٹی ایم کے خلاف ''اعلان ِجنگ‘‘ نہ سمجھا جائے‘ کوئی غیر قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔ ''آپ سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں‘ ہمیں ان کا خیال آتا ہے‘ جنہیں آپ ورغلا رہے ہیں‘‘۔
پشتون تحفظ موومنٹ اپنے سیاسی مطالبات کے باوجود الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کوئی سیاسی‘ انتخابی جماعت نہیں (اگرچہ قومی اسمبلی میں فاٹا سے اس کے دو ارکان‘ محسن داوڑ اور علی وزیر موجود ہیں)۔ جس طرح ایم کیو ایم کا آغاز کراچی یونیورسٹی میں 1984ء میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) سے ہوا‘ تعلیمی اداروں (اور سرکاری ملازمتوں) میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ اس کا بنیادی نعرہ تھا‘ پی ٹی ایم کی ابتدا بھی مئی 2014ء میں گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے آٹھ طلبہ نے ''محسود تحفظ موومنٹ‘‘ کے نام سے کی۔ قبائلی علاقوں کو لینڈ مائینز سے کلیئر کرانا اس کا بنیادی نعرہ تھا۔ جنوری 2018ء میں کراچی میں پولیس افسر رائو انوار کے ہاتھوں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود (اور اس کے ساتھیوں) کے قتل نے اسے مہمیز دی اور ''محسود تحفظ موومنٹ‘‘ سے یہ ''پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ بن گئی۔ لینڈ مائینز کو ہٹانے کے علاوہ رائو انوار کو کیفر کردار تک پہنچانا‘ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے لیے ٹروتھ اینڈ ریکنسیلی ایشن کمیشن کا قیام‘ مسنگ پرسنز کی بازیابی اور قبائلی علاقوں سے سکیورٹی فورسز کی پوسٹوں کو ہٹانا بھی اب اس کے مطالبات کا حصہ بن گیا تھا۔ پشاور پولیس کے ایس پی طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغوا اور افغانستان میں قتل کے واقعہ کی تحقیقات‘ اس کی فہرست مطالبات میں نیا اضافہ تھا۔
سول اور عسکری قیادت کو حساس قبائلی علاقوں میں ابھرنے والے اس نئے مسئلے کی سنگینی کا بخوبی احساس تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے برعکس یہ کوئی عسکریت پسند تنظیم نہیں تھی۔ یہ خود کو پشتونوں کے تحفظ کی پُر امن تحریک قرار دیتی تھی۔ اس کی قیادت کا دعویٰ تھا کہ وہ دستور پاکستان کے فریم ورک میں پشتونوں کے جائزہ حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ رائو انوار کے خلاف کارروائی میں تاخیر‘ ان کی تحریک کے لیے مہمیز کا کام دے رہی تھی۔ کوئٹہ‘ پشاور‘ کراچی‘ سوات‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ صوابی‘ بنوں‘ ٹانک‘ وانا اور میرانشاہ میں ان کے مظاہرے اور اسلام آباد میں دھرنا‘ ان کے ''کاز‘‘ کو آگے بڑھا رہا تھا۔ لاہور کے تاریخی موچی دروازے میں بھی انہوں نے اچھا خاصا ''شو‘‘ کر لیا تھا۔ یہاں ''لیفٹ‘‘ کی 17 تنظیموں پر مشتمل ''لاہور لیفٹ فرنٹ‘‘ ان کا میزبان تھا اور سات‘ آٹھ ہزار کا اجتماع بھی ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بہت تھا۔ پاک فوج کے ترجمان کے بقول ان پروگراموں کے لیے فنڈز انڈین ''را‘‘ اور افغان این ڈی ایس مہیا کر رہی تھی۔
سیاسی و عسکری قیادت کو ان کے مطالبات سے اتفاق تھا۔ جناب عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل بھی‘ ان مطالبات سے اظہار ہمدردی کر چکے تھے۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنے نوجوان ہیں‘ یہ دکھی ہیں‘ ان کے مسائل ہیں جن کے حل کی طرف توجہ دی جانی چاہئے۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے گزشتہ دنوں قبائلی علاقے میں ایک جلسے سے خطاب میں ان مطالبات کی تائید کی۔ انہیں اعتراض پی ٹی ایم کی قیادت کے لب و لہجے پر تھا کہ پاک فوج پر الزام تراشی حب الوطنی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بھی ان مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے‘ ان پر گفتگو کی پیشکش کر چکے تھے۔ جنرل آصف غفور کے بقول: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر خود انہوں نے پی ٹی ایم کی قیادت سے گفتگو کا آغاز کیا۔ چیف صاحب کی ہدایت تھی کہ ''بیٹا! ان کے ساتھ پیار سے ڈیل کرنا ہے‘‘۔
پاک فوج کے ترجمان نے را‘ این ڈی ایس اور بھارتی قونصل خانوں کی طرف سے پی ٹی ایم کو رقوم کی فراہمی کی جو تفصیلات بیان کی ہیں‘ وہ یقینا تشویشناک ہیں۔ پی ٹی ایم کے مطالبات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 45 فیصد علاقہ مائینز سے کلیئر ہو چکا ہے۔ اس کے لیے انجینئرز کی 48 ٹیمیں سرگرم ہیں۔ مسنگ پرسنز کے معاملے پر بھی سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ پی ٹی ایم کی مہیا کردہ سات‘ آٹھ ہزار کی فہرست اب اڑھائی ہزار پر آ گئی ہے۔
نقیب اللہ محسود سمیت بعض پشتون نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے ملزم رائو انوار کا معاملہ پی ٹی ایم کے لیے بہت جذباتی رہا ہے۔ جنرل آصف غفور کا کہنا تھاکہ پی ٹی ایم کی حمایت کرنے والی ایک پارٹی رائو انوار کو اپنا بچہ قرار دیتی رہی ہے‘ جنرل صاحب نے نام نہیں لیا لیکن اشارہ واضح تھا‘ جناب آصف زرداری نے کچھ عرصہ قبل رائو انوار کو ''بہادر بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔
پاک فوج کے ترجمان کا یہ اظہارِ خیال یقینا اتمامِ حجت کے بعد ہوا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے خیال میں چیف صاحب کی اس پالیسی کو مزید طول دینے میں کوئی حرج نہیں کہ ''ان کے ساتھ پیار سے ڈیل کرنا ہے‘‘۔
اس ''مسئلے‘‘ کو حل کرنے کے لیے حال ہی میں سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کی کاوش کو بھی خاصا حوصلہ افزا قرار دیا گیا تھا۔ یہ گزشتہ دنوں منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کی قیادت کی تین گھنٹے کی ملاقات تھی‘ جسے کمیٹی کے اعلامیہ میں تاریخی قرار دیا گیا تھا۔ مصالحت اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ہی بہتر آپشن ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ کہ یہ پریس کانفرنس اگر وزیر داخلہ/ وزیر خارجہ کرتے تو مناسب ہوتا۔
بیرسٹر محمد علی سیف کی زیر صدارت اس اجلاس میں سینیٹ کے جن ارکان نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر جہانزیب جمال دین‘ ستارہ ایاز‘ مشاہد حسین سید‘ ساجد حسین طوری‘ ہدایت اللہ‘ دلاور خان‘ فدا محمد‘ نصیب اللہ بازئی‘ سردار شفیق ترین‘ ثمینہ سعید‘ خانزادہ خان‘ میر کبیر احمد‘ محمد شاہی‘ پیر صابر شاہ اور مشاہد اللہ خاں شامل تھے... سینیٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ ہائوس آف دی فیڈریشن کے طور پر سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں ملک کے تمام فیڈریٹنگ یونٹس کے معاملات و مسائل زیر بحث آتے ہیں اور باہم مشاورت سے ان کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں پی ٹی ایم کے وفد کی آمدکا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اپنے مسائل‘ معاملات اور تنازعات کے حل کے لیے پشتونوں کی اپنی روایات ہیں‘ مکالمہ اور جرگہ جس کا اہم حصہ ہے۔ سینیٹ کی یہ خصوصی کمیٹی مکالمے اور مذاکرے کے ذریعے پی ٹی ایم کی شکایات کے ازالے کے ''پُل‘‘ کا کام دے گی۔ کمیٹی نے تجویز کیا کہ آج کی میٹنگ کے فالو اپ اور مستقبل میں بہتر اور مؤثر رابطے کے لیے پی ٹی ایم اپنا فوکل پرسن مقرر کرے۔ پی ٹی ایم کے سربراہ نے خصوصی کمیٹی پر بھرپور اعتماد کے ساتھ‘ اس یقین کا اظہار کیا کہ اس سے مسائل کے پر امن حل کی راہ نکلے گی۔