مدارس کا مسئلہ ایک نہیں تین ہیں۔ ان تین مسائل کو حل کیے بغیر مدارس میں اصلاح یا انہیں قومی دھارے میں لانے کے عزائم بے معنی الفاظ تو ہو سکتے ہیں ، کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں۔
پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ مدارس میں اصلاح کا بیڑہ وہ اٹھائے جو انہیں عالمی بدنامی کا باعث نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کا جزو تسلیم کرے۔ بیس برس ہونے کو آئے حکومت میں آنے والی ہر جماعت بیرونی دباؤ کے زیر اثر مدارس مدارس کا راگ الاپتی کانفرنسیں منعقد کرتی ہے، علماء کو بلا کر ان کی طولانی تقریریں کراتی ہے اور اصلاحات کے ایک لا یعنی مسودے کو متفقہ دستاویز قرار دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔ اس مسئلے کے الجھاؤ کا ایک سبب وہ چالیس پچاس علماء بھی ہیں جو حکومتوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں، پھر اخباروں میں مضامین لکھ کر ان مذاکرات کی روداد بیان کرتے ہیں اور وما علینا الاالبلاغ کہہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ رہتے ہیں۔ حکومتیں اپنا چلن نہیں بدلتیں، علماء اپنی روش نہیں چھوڑتے۔ ایک طرف سے طاقت بطور دلیل استعمال ہوتی ہے تو دوسری طرف سے بھی الگ طرح کی طاقت آخری دلیل کے طور استعمال ہوتی ہے۔ حکومتیں تیسرے درجے کی لکھی ہوئی سرکاری رپورٹوں کی بنیاد پر الزام تراشی کرتی ہیں تو مدارس کی طرف سے کہیں کہیں کمپیوٹر کے استعمال کی مثالوں کو جدّت پسندی کے ثبوت کے طور پر پیش کر کے ان الزامات کو جھٹلایا جاتا ہے۔ سرکاری رپورٹوں کا معیار یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں انہیں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے تیار کنندہ سے پوچھا کہ اس رپورٹ کی تیاری میں علماء اور مدارس کے طلبہ سے بھی ملے ہیں یا نہیں۔ جواب آیا، ''اس کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ یہ رپورٹ نہ صرف جنرل پرویز مشرف کو پیش کی گئی بلکہ مدارس کے حوالے سے پالیسی سازی کی بنیاد بن گئی۔ حکومتی اہلکاروں کی مبلغ معلومات مدارس کے بارے میں اتنی ہیں کہ انہیں اب تک یہ سمجھ بھی نہیں آ سکا کہ یہ معاملہ محض سکیورٹی یا تعلیم کا ہی نہیں بلکہ معاش کا بھی ہے۔ اس سے لاکھوں لوگوں کا رزق بھی وابستہ ہے اور تعلیم بھی۔ علماء کرام عام طور پر اس کے معاشی پہلو پر بات کرنے کی بجائے مذہبی اور تعلیمی پہلوؤں پر ہی بات کرتے ہیں۔ غالباً یہ باتیں ان کی ''شان‘‘ کے بھی مطابق ہیں۔ ان خطوط پر دو دہائیوں سے چلنے والی اس کارروائی کا کل نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کی تعداد بڑھ رہی ہے، معاشرے کے دیگر تمام شعبوں کی طرح ان کا معیار گر رہا ہے اور یہاں سے پڑھ کر آنے والے معاشرے کے مرکزی دھارے سے کٹتے چلے جا رہے ہیں۔
دوسرا مسئلہ ہے خود ہمارا ریاستی نظام۔ اس نظام میں نوکری حاصل کرنے کے لیے ‘ درخواست دہندہ خواہ کتنا ہی عالم فاضل کیوں نہ ہو‘ اسے کچھ امتحان پاس کرنا پڑتے ہیں۔ یہ امتحانات دراصل انگریزی بولنے اور لکھنے والے نالائقوں کو منتخب کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔ مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم میں انگریزی شامل نہیں، اس طرح درسِ نظامی جیسی تخصیص رکھنے والے لوگ بھی یہ امتحان پاس کرنے کے اہل نہیں رہتے۔ غلام چننے کے لیے ترتیب دیے گئے اس نظام میں ظاہر ہے آزاد منشوں کا داخلہ روکنے کے لیے ہی غالباً انگریزی کی شرط لگائی گئی ہے‘ اور جب بھی اسے ہٹانے کی بات آتی ہے تو قانون، ملکی ضرورت، قومی سلامتی اور نجانے کس کس بنیاد پر گھڑے گئے لغو دلائل کی بنیاد پر اسے رد کر دیا جاتا ہے۔ اگر اب ریاست کو مولویوں کو قومی دھارے میں لانے کا اتنا ہی خیال آ گیا ہے تو اس ایک شرط کو ہٹا دے۔ مجھے یقین ہے کہ دو تین سال کے اندر اندر مدارس اپنے نصاب میں از خود تبدیلیاں کریں گے اور یہاں کے پڑھے ہوئے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے آنے والوں کا مقابلہ کر کے دکھا دیں گے۔ چلیے انگریزی کو ختم نہیں کرنا نہ کریں مگر ''مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے عزائم‘‘ کے ثبوت کے طور پر اتنا کر دیں کہ انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کر کے اسے عربی ، فارسی، جرمن ، فرنچ کی طرح اختیاری زبانوں کی فہرست میں شامل کر دیں۔ چونکہ ان چٹائی نشینوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے ریاست اور مدارس دونوں کے مزاج میں جوہری تبدیلی آئے گی اس لیے کبھی بھی مذاکرات میں حکومت نے یہ پیشکش کی ہے نہ علماء نے اس پر اصرار کیا ہے۔ اس مسئلے پر میں نے ذاتی طور پر حکومت اور علماء دونوں سے بات کر کے دیکھا ہے، جواب میں دونوں فریق کان لپیٹ کر اِدھر اُدھر کی کہنے لگتے ہیں۔
تیسرا مسئلہ ہے پاکستان کا تعلیمی نظام۔ لارڈ میکالے نے پورے برصغیر کے لیے ایک تعلیمی نظام دیا تھا، ہم نے اس کے چوتھے حصے میں چالیس قسم کے نظام نافذ کر رکھے ہیں۔ من حیث القوم یہ ہماری نا لائقی ہے کہ اپنی ضروریات کا تعین کیے بغیر ہم نے دنیا بھر کے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنا نصاب لائے ، اپنے استاد لائے اور ہماری نسلوں کو ہمارے ہی سرمائے کے زور پر تباہ کر دے۔ شعوری یا لا شعوری سطح پر ریاستی ادارے ایسے اداروں کی سرپرستی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں‘ جہاں اعلیٰ طبقے کے لوگ عام لوگوں سے مختلف تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں، جماعت کے کمرے، اساتذہ اور طریقۂ امتحان غرض یہ کہ سب کچھ الگ ہوتا ہے۔ ان اداروں کے بچے پاکستان کے لیے تیار ہی نہیں کیے جاتے بلکہ ان کی زندگی کا مقصدِ عظیم امریکہ یا برطانیہ چلے جانا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جس نظام کے لیے تیار کیا جاتا ہے جب یہ وہاں چلے جاتے ہیں تو جعلی سا ماتم کیا جاتا ہے کہ لوگ پاکستان چھوڑ چھوڑ کر چلے جا رہے ہیں۔ ان اداروں کے پھسڈی طلبہ‘ جنہیں جدید معاشرے قبول نہیں کرتے وہ انگریزی بولتے ہمارے سروں پر سوار ہونے کے لیے حکومت میں آ جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے ہیں جن کے سکولوں کی چھتیں گرتی رہتی ہیں، ان کے اساتذہ کی سرکاری طور پر تذلیل کی جاتی ہے، ان کی بھرتی کا نظام بڑی حد تک جعل سازی پر مبنی ہے اور ان کے طریقۂ امتحان میں نقل کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس نظام سے نکلنے والے بچے بس خدمت گاری کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اچھی نوکریوں اور اچھے عہدوں تک پہنچے کے تمام راستے ان پر بند ہیں۔ ان دونوں نظاموں کے ساتھ ساتھ مدرسے کا نظام ہے اور پھر نجی سکولوں کا سمجھ میں نہ آنے والا سلسلہ ہے۔ اس ماحول میں جب حکومت کہتی ہے کہ مدارس جدید علوم بھی پڑھائیں تو ساتھ یہ بھی فرمائے ناں کہ کس طرح کے عصری علوم اور کون سے نظام کے تحت؟ حالت یہ ہے کہ موجودہ حکومت‘ جو یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے‘ اس بارے میں سوائے آئیں بائیں شائیں کے کچھ کر ہی نہیں رہی۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن سے پہلے تو وزیر اعظم عمران خان کے فرمودات میں سے نصف صرف انہی دعووں پر مبنی تھے کہ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم ہو گا۔ حکومت میں آئے ہوئے آٹھ ماہ ہو گئے مگر مجال ہے کہ اس سمت میں ایک بھی قدم اٹھا ہو!
مدارس کی اصلاح دراصل تعلیمی نظام کی اصلاح سے جڑا ہوا ایک معاملہ ہے۔ اس کے حل کے لیے بار بار علماء کو بلا لینے اور پیچ کس پلاس لے کر مدارس کو ٹھیک کرنے نکل پڑنے کا رویہ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔ اگر واقعی کوئی بنیادی تبدیلی لانی ہے تو پھر وہ تعلیمی نظام میں لائیں۔ ایک سا نصاب اور ایک سا امتحانی نظام نافذ کریں ۔ بھلے امیروں کے بچے ائیر کنڈیشنر چلا کر پڑھیں اور عام لوگوں کے بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر لیکن پڑھیں ایک ہی کتاب اور ایک زبان۔ جب یہ کر لیں گے تو مدارس بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ نہیں کرنا تو باتیں بناتے رہیں، یہ آپ سے پہلے والے بھی بنایا کرتے تھے اور ان سے پہلے والے بھی۔