ایک نیا زمانہ طلوع ہونے والا ہے‘ ایک اور عہد کی بشارت‘ ارض پاکستان کے درو بام پر اترنے والی ہے۔ عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں‘ جن کا نہیں کوئی نام برطانوی سفارت کار لوگوں سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ اگر الیکشن کے بعد عمران خان نے 1977ء ایسی تحریک برپا کرنے کا فیصلہ کیا؟ کیا دھاندلی کا کوئی منصوبہ ہے؟ کوئی باریک کام؟ ’’قائداعظم ثانی‘‘ میاں محمد نوازشریف بھاگ گئے۔ ٹیلی ویژن پر عمران خان کا سامنا کرنے پر وہ آمادہ نہیں۔ تین لیڈروں عمران خان‘ اعتزاز احسن اور نوازشریف سے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے وقائع نگار نے دو سوال پوچھے۔ قومی اسمبلی کی کتنی سیٹیں وہ حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ کرنا پڑا تو اتحاد کس سے کریں گے؟ عمران خان کا جواب بالکل واضح ہے: پنجاب اور سرحد میں وہ اکثریت حاصل کریں گے اور مرکز سمیت دونوں صوبوں میں حکومت بنائیں گے۔ پیپلز پارٹی یا نون لیگ سے اشتراک بہرحال نہ ہوگا۔ نوازشریف نے یہ کہا: 11 مئی کو دیکھا جائے گا اور اعتزاز احسن نے فرمایا: اکثریت ہم حاصل نہ کر سکے‘ تب بھی حکومت ہماری بنے گی۔ ارکانِ اسمبلی کی حمایت کے بغیر ہی حکومت؟ سیاسی تاریخ میں یہ معجزہ اس سے پہلے تو کبھی نہ ہوا۔ زرداری صاحب کے محل سے چھن چھن کر خبریں آتی ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے: ساٹھ سیٹیں مجھے لے دو‘ حکومت میں بنا دوں گا۔ ان کے ایک ہم نفس نے کہا: ہم نے یہ مشورہ دیا ہے کہ کرنسی سے بھرے کنٹینر تیار رکھیں۔ روپے کے نہیں ڈالروں کے۔ آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیتیں گے۔ نقد‘ ان کی خریداری کر لی جائے۔ مالی طور پر حلیفوں کو آسودہ کر دینے کا وہ شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔ پختون خوا کے ایک لیڈر سے‘ جو الیکشن 2008ء سے قبل پشتونوں کا مقدمہ پیش کرنے واشنگٹن پہنچے تھے‘ ملائیشیا اور دبئی میں‘ جنہوں نے اربوں کی جائیداد خریدی‘ مبینہ طور پر زرداری صاحب نے کہا تھا: ’’مال بنائو… مال‘‘۔ مولوی صاحب پر ان کی عنایات سے ساری دنیا واقف ہے۔ کراچی والوں سے رحمن ملک کے مذاکرات ہمیشہ نتیجہ خیز رہے۔ ایک واقعہ یہ ہے: شفقت محمود تحریکِ انصاف سے وابستہ نہ ہوئے تھے۔ ان دنوں اخبار نویسی یہ فرما رہے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے المناک قتل پر‘ لاڑکانہ میں‘ زرداری صاحب سے تعزیت کرنے گئے۔ الیکشن سر پہ کھڑے تھے۔ محترمہ کے قتل سے ہمدردی کی لہر اور ’’کھپّے پاکستان کھپّے‘‘ کا نعرہ لگا کر‘ زرداری صاحب فتح کی امید سے سرشار تھے۔ امریکی اور برطانوی دبائو پر پہلے سے لکھے سکرپٹ میں نوازشریف سائیڈ ہیرو کا کردار ادا کرنے پر تیار تھے۔ شفقت محمود سے زرداری صاحب نے پوچھا: حکومت اگر بن گئی تو کیا چیلنج ہمیں درپیش ہوگا؟ جواب ملا: جج اور جرنلسٹ! ’’خرید لیں گے‘‘ ان کے بقول زرداری صاحب نے کہا۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اسلام آباد کے کھرب پتی سے بارہا انہوں نے تبادلہ خیال کیا‘ نون لیگ‘ قاف لیگ اور ایم کیو ایم سے لین دین‘ وزارتوں کی تقسیم اور اخبار نویسوں کی خریدو فروخت میں جو مسلسل ان کا مددگار رہا۔ اس نے یقین دلایا اور زرداری صاحب کو خود بھی اعتماد تھا کہ حلیفوں کی مالی سرپرستی اور روپیہ لٹا کر مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔ جنابِ صدر کا یہ مبینہ جملہ سننے میں آتا رہا۔ Elections will not be fought, these will be bought.۔الیکشن لڑے نہیں‘ خریدے جائیں گے۔ اعتزاز احسن کا اشارہ کیا اسی طرف ہے؟ ایک زمانے میں‘ چیف جسٹس کے ڈرائیور کی حیثیت سے وہ مقبول تھے‘ وہ خود بھی وزارتِ عظمیٰ کے خریدار بن کر امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ ایک بڑے ٹی وی چینل کے مالک اور ایک بڑے اخبار کے پبلشر سے انہوں نے دوستی استوار کی اور سنہرے سپنے دیکھنے لگے۔ ایل پی جی گیس کے کوٹے کا سکینڈل انہیں لے بیٹھا۔ اس نامور پبلشر نے ایک شام مجھے فون کیا اور یہ کہا کہ میں انہیں اپنا کالم روکنے کی اجازت دوں۔ ’’اجازت کیا؟‘‘ تعجب سے میں نے کہا ’’آپ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں‘ خود آپ روک سکتے ہیں‘‘۔کہا: میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔ اعتزاز احسن میرے دوست ہیں‘ پھر توقف فرمایا اور یہ کہا: کسی بھی وجہ سے وہ میرے دوست ہیں۔ خوش دلی سے اجازت دیجیے۔ مؤدبانہ عرض کیا: ضرور‘ ضرور۔ جی میں آیا ضرورت پڑی تو ٹیلی ویژن موجود ہے نا! پھر اعتزاز احسن کی ہمت ٹوٹ گئی کہ طاقت ایک نفسیاتی چیز ہوتی ہے‘ باطن اُس کا سرچشمہ۔ لکھنؤ والے طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میر انیس کے ہم عصر ‘پہلوانِ سخن امام بخش ناسخ دنیا سے اُٹھے تو پیہم برستی بارش میں انہیں اطلاع نہ ہو سکی۔ ایک کے بعد دوسرا پوچھ گچھ کرنے آتا۔ معذرت اور وضاحت کرتے کرتے اکتا گئے۔ ایک بانکے نے کہا: وہ آپ کے استاد بھی تھے۔ بولے: جی ہاں! الہ آباد سے اوّل اوّل ہم آئے تو والد مرحوم نے میری کچھ غزلیں انہیں دکھائی تھیں۔ وہ بھی انہیں چڑانے میں کامیاب نہ ہوا تو ایک اور بولا: ان کی شاعری کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ کہا: شاعری تو خیر مگر دل میں خاک اڑتی تھی ۔ پھر زرداری صاحب نے اعتزاز احسن کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا‘ پھر وہ یوسف رضا گیلانی کے وکیل ہو گئے۔ بلندیوں سے گرے اور زرداری صاحب کے رحم و کرم پر آرہے۔ اللہ ان کی مدد کرے۔ اب جیسا کہ انہوں نے کہا: سب شرفا کی طرح جورو کا ایک غلام اپنی بیگم صاحب کی انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ ایسی رفعت‘ ایسا زوال! بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂِ خوں نہ نکلا برطانوی سلطنت کے غیر معمولی فروغ نے انگریزی ادب کا رعب داب دلوں میں بھر دیا وگرنہ روسی‘ فرانسیسی‘ فارسی اور اردو کے مقابلے میں ان کا اندوختہ کمتر ہے۔ ہاں مگر شیکسپیئر! فقط حسنِ بیاں سے نہیں‘ سلطنتوں‘ لیڈروں اور حکمرانوں کے عروج و زوال پر گہرے غورو فکر سے‘ ایک موتی اس نے ڈھونڈ لیا اور کمال خوبی سے آشکار کرتا رہا۔ پہل قدمی‘ جوڑ توڑ‘ غیر معمولی حرکت کے علاوہ جاہ و منصب اور مال و دولت کے آرزو مندوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایک شخص اقتدار تک جا پہنچتا ہے۔ آخر کارمگر اس کے تضادات آشکار ہوتے اور آخر کار وہ ڈھے پڑتا ہے۔ انطونی سیزر کی لاش پر کھڑا تھا اور یہ اس نے کہا \"All thy conquests glories, triumphs and spoils are shrunk to this little measure?\" (یہ ہے تمہاری تمام خیرہ کن عظمتوں‘ رفعتوں اور فیصلہ کن فتوحات کا انجام؟) Thesis اور Anti thesisکا فلسفہ پیش کرنے والے جرمن فلسفی ہیگل اور بے مثال شاعر اسد اللہ خاں غالبؔ کے زمانے کیا مختلف ہیں؟ ہیگل نے کہا تھا: ہنر کے اندر ہی بے ہنری کارفرما ہوتی ہے۔ کمال کے اندر ہی زوال کے امکانات۔ آباد کر دینے والے عناصر کے باطن سے ہی بربادی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ غالبؔ نے یہ کہا: میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا گنوار ہی نہیں‘ دانا بھی برباد ہوتے ہیں۔ نوکریوں کے متلاشی‘ بھاڑے کے ٹٹو تو کیا‘ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے جعلی سروے بھی کوئی مدد نہ کر سکے‘ عمران خان پیش قدمی کرتے چلے جا رہے ہیں اور نوازشریف پسپا۔ کپتان کی پزیرائی بڑھ رہی ہے اور نوازشریف کی کم سے کم تر۔ پیپلز پارٹی کو تو برباد ہی ہونا تھا‘ نوازشریف کے وزیراعظم بننے کا بھی اب کوئی اندیشہ نہیں۔ ہر کمالے را ز والے۔ وہ سب کچھ جو خالص اور خوبصورت ہے خام اور بھدا بن جاتا ہے۔ ٹوٹ کے گر پڑتا ہے‘ پیچھے رہ جاتا ہے اور بھُلا دیا جاتا ہے۔ آدمی کو ابدیت ہے‘ نہ کسی گروہ اور جماعت کو۔ ابدیت سچائی کو ہوتی ہے‘ ایثار اور خلوص کو۔ اوّل و آخر فنا‘ ظاہر و باطن فنا نقشِ کہن ہو کہ نو منزلِ آخر فنا خوف کی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں‘ جعلی سیاست مر رہی ہے۔ آج نہیں تو کل عمران خان کا عہد شروع ہونے والا ہے۔ اپنے تضادات سے وہ چھٹکارا پائے‘ خوشامدیوں سے۔ نئے دور کا لیڈر اس زعم کا شکار نہ ہو کہ وہ برتر و بالا ہے۔ کوئی بھی نہیں‘ آدمی کا ذاتی وصف ہوتا ہے اور نہ ہنر۔جو کچھ ہے‘ اللہ نے دیا ہے‘ جب چاہے وہ عطا کرے اور جب چاہے واپس لے لے۔ آدمی کی بساط ہی کیا۔ سب مر جاتے ہیں‘ داتا گنج بخش سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے مزار پر جا کر دیکھیے‘ صرف اہلِ صفا زندہ رہتے ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے کہا تھا: کتنے بادشاہ ہو گزرے ہیں‘ نام بھی کسی کو یاد نہیں‘ مگر جنیدؒ و بایزیدؒ ‘ یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ بندے اپنے رب کو بھول گئے‘ وگرنہ سرکارؐ کے قلب پر نازل ہونے والا‘ حرف حرف‘ قرآن کریم کا ایک لفظ نور اگاتا اور ان دیکھے آفاق روشن کرتا ہے۔ کل من علیہا فان و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔ ہر چیز جو اس زمین پر ہے‘ وہ فنا ہو جائے گی اور باقی رہے گا‘ ترے رب کا چہرہ‘ بے حساب عظمت اور بے کراں بزرگی والا! کچھ بھی نہیں بچے گا‘ نوازشریف نہ آصف علی زرداری‘ عمران خان نہ کوئی اور‘ کچھ بھی نہیں۔ ایک نیا زمانہ طلوع ہونے والا ہے‘ ایک اور عہد کی بشارت‘ ارض پاکستان کے درو بام پر اترنے والی ہے۔ عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں‘ جن کا نہیں کوئی نام
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved