تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     02-05-2019

بھارتی لیڈروں کی بے لگام زبانیں

بھارت کے چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے پچیس‘ تیس سال بعد ٹی این سیشن کی یاد تازہ کر دی۔ سیشن نے اُس وقت کے امیدواروں کو زبردست لگام ڈالنے کا کام کیا تھا۔ وہ امیدواروں کے اعتراض والی تقاریر کو ریکارڈ کر کے پیش کرتے تھے اور یہ دھمکی بھی دیتے رہتے تھے کہ وہ انہیں چنائو لڑنے سے روک دیں گے‘ لیکن اروڑا نے وہ کیا ہے جو آج تک ان سے پہلے کے 22 بھارتی چیف الیکشن کمشنروں نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے چار لیڈروں یوگی آدتیہ ناتھ‘ اعظم خان‘ مایا وتی اور مانیکا گاندھی کے چنائو پرچار پر تین اور دو دن کی پابندی لگا دی۔ یہ چاروں امیدوار اب اوپر دیے وقت میں نہ پرچار کر سکیں گے‘ نہ جلوس نکال سکیں گے‘ نہ ٹی وی چینلوں یا اخبارات کو انٹرویوز دے سکیں گے اور نہ ہی سوشل میڈیا کا استعمال کر سکیں گے۔ بھارت میں چنائو مشن کے دوران ہر امیدوار چاہتا ہے کہ اس کے ہر منٹ کا استعمال پرچار کے لیے ہو۔ ان پر دو‘ تین دن کی پابندی تو اپنے آپ میں سزا اور ان کے مخالفین کو اچانک ملا انعام ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گندی باتیں کہنے سے ان کی شان بھی خراب ہوتی ہے۔ یہ بھی سزا ہے۔ یہاں کس امیدوار نے کیا کہہ کر قانون کی خلاف ورزی کی ہے‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی کافی خبریں آ چکی ہیں اور اب تو سبھی اس بارے میں اچھی طرح جانتے بھی ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے راہول گاندھی سے بھی صفائی مانگی ہے کہ انہوں نے یہ جھوٹ کیوں بولا کہ عدالت نے بھی چوکیدار مودی کو چور قرار دیا ہے‘ حالانکہ ایسا نہیں کہا گیا۔ حقیقت میں چنائو کمیشن کو چاہیے تھا کہ راہول پر مہینہ بھر پہلے ہی پابندی لگا دیتے۔ بھارتی سپریم کورٹ اور ایوان کو چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن کو یہ حق بھی دیں کہ وہ کسی بھی امیدوار کو‘ جو اچار سنگھتا کی حکم عدولی کر ے تو وہ اسے چنائو دنگل سے باہر کر دے اور مستقبل میں بھی اس پر بین لگا سکے کہ وہ اتنی عرصے کے لئے الیکشن نہیں لڑ سکتا‘ یا پھر عمر بھر کے لئے بھی نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے بین 1987ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے رمیش پربھو اور بال ٹھاکرے پر لگائے تھے‘ لیکن اس میں آٹھ برس لگ گئے تھے۔ تب تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا تھا۔ میرے خیال میں ایسے معاملات کا فیصلہ فی الفور ہونا چاہیے تاکہ بڑے سے بڑا لیڈر بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لے سکے اور الیکشن کا عمل بہتر طریقے سے مکمل ہو سکے۔
بیریندر سنگھ کی تاریخی پہل 
وفاقی وزیر بیریندر سنگھ نے دنیا کے سبھی سیاست دانوں کے لیے ایک عجیب مثال پیش کی ہے۔ یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ بھارت ہی نہیں دنیا بھر کے کئی بڑے جمہوری ممالک کی سیاست میں نسل پرستی کا بول بالا ہے۔ وہاں کی سیاسی پارٹیوں اور سرکاروں کو بھی کئی لیڈر لوگ اپنی ملکیت سمجھ کر چلاتے رہتے ہیں‘ لیکن بیریندر سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا وزیر کا عہدہ اور راجیہ سبھا کا ممبر ہونے کا درجہ چھوڑنے کو تیار ہیں کیونکہ ان کے بیٹے برجیندر سنگھ کو ہریانہ کے بھوانی علاقہ سے بھاجپا نے اپنا امیدوار بنایا ہے اور وہ وہاں سے الیکشن لڑ رہا ہے۔ بیریندر سنگھ کی طرح آج تک کسی بھی لیڈر نے ایسی خواہش کبھی ظاہر نہیں کی۔ بلکہ وہ الٹا ہی کرتے ہیں اور ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے‘ بیٹی‘ بھائی‘ بھتیجے‘ بھانجے اور داماد‘ بہو کو ٹکٹ دلوانے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ اگر ان کے ہاتھ میں ٹکٹ دینے کی طاقت ہو تو وہ اپنے رشتے داروں کو آنکھ بند کر کے ریوڑیاں بانٹ دیتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے ملک میں زیادہ تر سیاسی پارٹیاں لگ بھگ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ کوئی بھائی بھائی پارٹی ہے‘ کوئی ماں بیٹا پارٹی ہے‘ کوئی ماں باپ پارٹی ہے‘ کوئی پھوپھی بھتیجا پارٹی ہے‘ کوئی میاں بیوی پارٹی ہے‘ کوئی عاشق معشوق پارٹی رہی ہے۔ ان پارٹیوں کا دعویٰ رہتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سنبھالنے والی پارٹیاں ہیں‘ لیکن خود ان پارٹیوں کے اندر جمہوریت غائب ہوتی ہے۔ انہوں نے کبھی اپنے اندر چنائو نہیں کرائے ہوں گے۔ یہی بات کم و بیش کبھی کبھی ہمیں امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘ شمالی کوریا‘ نیپال‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ ماریشیئس جیسے چھوٹے اور بڑے ملکوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ میرے خیال میں بھاجپا کو 2019ء کا چنائو صحیح راستے پر لے آئے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کانگریس کب سدھرے گی؟ لگتا ہے‘ نسل پرستی ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ اس کے وزرائے اعظم‘ وزرا‘ وزرائے اعلیٰ اور ایم پی ایز کی حالت گھریلو نوکروں سے بھی بدتر ہے۔ فیملی کی وجہ سے ہی وہ بچی ہوئی ہے۔ ورنہ پانچ برس پہلے ہی اس کا بھٹہ بیٹھ جاتا۔ بیریندر سنگھ مشہور جاٹ لیڈر سر چھوٹو رام کے پوتے ہیں اور بنیادی کانگریسی رہے ہیں‘ لیکن بھاجپا کے وزیر ہونے کے ناتے انہوں نے پارٹی صدر امیت شاہ کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا ہے۔ دیکھیں‘ امیت شاہ کیا کرتے ہیں‘ اگر یہ استعفے قبول ہو جائیں گے تو بھارتی سیاست میں یہ نئی تاریخ رقم کریں گے۔ بیریندر سنگھ معمولی وزیر کے طور پر نہیں‘ تاریخی ہستی کے طور پر جانے جائیں گے۔
پُر تشدد اقتدار کی ناکامی 
مہا ویر کے جنم دن کے موقع پر ہارورڈ کینیڈی سکول کی رپورٹ دنیا بھر کی تحریکوں پر شائع ہوئی ہے۔ یہ مکمل رپورٹ اس مدعا پر چھپی ہے کہ کتنی پُر تشدد تحریکیں کامیاب ہوئیں اور کتنی امن پسند؟ اس کے مطابق 36 فیصد پُر تشدد تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں جبکہ 54 فیصد پُر امن تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس تحقیقی کام میں دانش مندوں نے دنیا کی 323 تحریکوں کا جائزہ لیا تھا۔ گزشتہ بیس برسوں میں 69 فیصد پُر امن تحریکوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ بیسویں صدی میں دو سب سے بڑی تحریکیں شروع ہوئی تھیں‘ ایک روس میں اور دوسری چین میں۔ یہ دونوں تحریکیں مارکس پرست تھیں اور دونوں پُر تشدد تھیں۔ دونوں میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ روس کی سوویت تحریک کے لیڈر ولادے میر لینن اور چین کے مائو زے تنگ تھے۔ ایک نے زار شاہی کو اکھاڑ پھینکا اور دوسری نے چیانگ کائی شیک کو۔ دونوں تحریکیں کامیاب ہوئیں۔ لیکن ان کا انجام کیا ہوا؟ دونوں سر کے بل کھڑی ہو گئیں اور دونوں ناکام ہو گئیں۔ بغیر کسی طبقے کے سماج قائم کرنے کی بجائے دونوں کمیونسٹ ملک لگاتار تانا شاہی میں بدل گئیں۔ آج کوئی بھی ان کا نام لینے والا اور پانی دینے والا نہیں بچا ہے۔ اسی طرح کی پُر تشدد تختہ پلٹ تحریکیں مشرقی یورپ‘ کیوبا‘ عراق‘ افغانستان‘ مصر‘ ایران وغیرہ میں بھی اٹھیں لیکن وہ کتنے دن چل پائیں؟ انہوں نے کون سی بلندیاں چھوئیں؟ یا تو فوراً ہی ان کا خاتمہ ہو گیا یا ان سے پیدا ہوئی مشکلات ابھی تک اپنے اثرات دکھا رہی ہیں۔ بھارت کی آزادی کا بنیادی مقصد تو عدم تشدد ہی تھا مگر اس تحریک میں بے پناہ تشدد ہوا ان بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور آبادی کو مجبوراً بے گھر کرنے کے واقعات اس خطے میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے۔ اس کے باوجود بھارت میں آج بھی جمہوریت جگ مگا رہی ہے اور ایک بہتر سماج خوش ہے‘ اگرچہ اس دوران چھوٹے نسلی اور مذہبی گروہوں کے خلاف جس طرح کے مظالم برپا کئے گئے ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ بھارت میں آج بھی کئی مقامات پر پُر تشدد تحریکیں چل رہی ہیں؛ تاہم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں گی اور بانجھ ثابت ہوں گی۔ نکسل پرست ہزار سال تک بھی خون بہاتے رہیں تو بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ بات دہشتگردوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے۔ وہ نیپال کے مائو پرستوں سے کچھ سبق کیوں نہیں لیتے؟ وہ اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے کہ تشدد سے حاصل ہونے والے اقتدار کو بنائے رکھنے کے لیے اس سے دوگنا تشدد لگاتار کرتے رہنا پڑتا ہے۔ نپولین‘ ہٹلر اور مسولینی اپنے اپنے وقت میں کامیاب ضرور ہوئے لیکن ان کا حشر کیا ہوا‘ کیا ہمیں پتا نہیں ہے؟ کیا ہم جانتے نہیں ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved