تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-05-2019

گرمی اور گرما گرمی

کراچی ایک بار پھر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق ؛موسم کی گرمی تو اب میدان میں آئی ہے۔ سیاسی گرما گرمی نے کراچی کے اکھاڑے میں بہت پہلے انٹری دے دی تھی۔ موسم کی گرمی اور سیاست کی گرما گرمی کے لیے کوئی بھی شہر یا قصبہ نو گو ایریا نہیں ہوتا۔ یہ دونوں گرمیاں جہاں بھی چاہتی ہیں‘ انٹری دیتی ہیں اور اپنی مرضی کا کھیل کھیلتی ہیں۔ 
شدید گرمی کی لہر آئی ہے اور اہلِ کراچی سے محض گلے نہیں ملی‘ بلکہ چمٹ گئی ہے۔ اتنی شدید گرمی ‘چونکہ کبھی کبھار پڑتی ہے ‘اس لیے شہر قائد کے باسی عادی نہیں۔ جیسے ہی شدید گرمی کا جھٹکا لگتا ہے‘ شہری بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر حواس باختہ سے ہو جاتے ہیں۔ باقی ملک میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بہت گرمی پڑے تب کس نوعیت کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔ انتہائی گرم مقامات کے لوگ گرمی کا سامنا کرنے کی اپنے طور پر‘ روایتی انداز سے تیاری کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ اہلِ کراچی کا معاملہ یہ ہے کہ لوہے کو لوہے سے کاٹنے سے کوشش کرتے ہیں ‘یعنی شدید گرمی پڑنے پر بھی گرمی ہی سے دامن گیر رہتے ہیں۔ جسم پر دانے اُگادینے والی گرمی پڑ رہی ہو ‘تب بھی لوگ چائے پینے سے باز نہیں آتے۔ خوراک کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ خون کَھولا دینے والی گرمی میں تیز مرچوں کا سالن کھایا جاتا ہے اور پھر جب یہ سالن غدودانِ معدہ میں حالتِ خانہ جنگی پیدا کرتا ہے‘ تب لوگ بھاگم بھاگ ڈاکٹر کے پاس پہنچتے ہیں اور موسم کی ستم ظریفی کا رونا رونے بیٹھ جاتے ہیں! 
موسم نے اشارہ دے دیا ہے کہ اس بار وہ اہلِ کراچی کو پھر ناکوں چنے چبوائے گا۔ موسم کی گرمی کا سامنا کرنے کے معاملے میں شہر قائد کے باسی‘ جس نوعیت کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ کچھ کچھ ویسی ہی ذہنیت کا مظاہرہ سیاسی گرما گرمی کے معاملے میں بھی کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ گرمی کے توڑ کے لیے گرمی ہی کو میدان میں لایا جائے‘ یعنی بڑھک کا جواب بڑھک اور الزام کا جواب الزام۔ ہاں‘ اپنے وعدوں اور دعووں کے حوالے سے کچھ سنبھل کر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے ‘کیونکہ اس معاملے میں کسی کی بات کا جواب نہیں دینا ہوتا‘ بلکہ اپنی ہی بات کا بھرم رکھنا پڑتا ہے۔ 
اب کے سب کچھ ایک ساتھ آرہا ہے۔ گرمی بڑھتی جارہی ہے۔ ماہِ صیام سر پر ہے‘ یعنی جسم میں خون تک کو نقطۂ کَھولاؤ تک لانے والی گرمی میں روزے بھی رکھنے ہیں اور دوسری طرف سیاسی معاملات کا درجۂ حرارت بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ کچھ لوگ چُپ کا روزہ رکھ لیں تو کچھ سکون ملے‘ مگر اس کے آثار نہیں‘ کیونکہ دماغوں میں پائی جانے والی برف مشکل سے پگھلتی ہے۔ گرمی کی تیسری سمت بھی ہے۔ یہ ہے بجٹ کی گرمی۔ جب موسم کی گرمی واقعی نقطۂ عروج پر ہوگی تب یہ تیسری قسم کی گرمی بھی میدان میں آئے گی اور اللہ ہی جانتا ہے کہ اِس کی آمد پر کس کس کے چراغ میں روشنی رہ پائے گی۔ عوام تو پہلے ہی اَدھ مُوئے ہیں۔ ایسے میں بجٹ ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا کردار ادا کرے گا۔ لوگ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہیں کہ اب باضابطہ بجٹ پیش کرنے کے تکلف کی کیا ضرورت؟ اچھی خاصی مہنگائی تو حکومت کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ہوگئی ہے۔ اب کوئی اور پہاڑ ٹوٹا تو عوام کی کمر ہی ٹوٹ جائے گی۔ 
کہتے ہیں عید الفطر اگر جمعہ کو ہو تو حکومت پر بہت بھاری گزرتی ہے۔ اِس بار عید الفطر تو کسی طور جمعہ کو نہیں ہوسکتی‘ ہاں شدید گرمی کے دوران بجٹ حکومت پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ موسم کی گرمی اور سیاست کی گرمی کیا کم ہے کہ بجٹ کی گرمی بھی انٹری دے گی۔ لوگوں کے لیے اتنی گرمی برداشت کرنا خاصا دشوار ہوگا اور یوں گرما گرمی بڑھ جائے گی۔ 
گرمی اور گرما گرمی کے ساتھ تیسرا معاملہ ہے بے شرمی کا۔ بے شرمی یوں کہ اب تک مفادِ عامہ میں کچھ سوچنے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی‘ جن کے ہاتھ سے اقتدار جاتا رہا ہے ‘وہ اور اقتدار جن کے ہاتھ لگا ہے‘ وہ کسی بھی سطح پر اتنے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے کہ اُن سے قومی مفادات کے بارے میں زیادہ امیدیں وابستہ کی جاسکیں۔ وہی بیانات ہیں اور وہی الزامات ہیں۔ ع
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے 
قوم کو اب احساس ہو رہا ہے کہ کچھ نیا کر دکھانے کے نام پر ووٹ لینے کے بعد اب تک جو کچھ کیا گیا ہے‘ وہ بڑھک مارنے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ تھوڑے بہت دِلاسے ہیں۔ ویسے اب دِلاسے کم اور ''ہاسے‘‘ زیادہ ہیں۔ قوم کے پاس لے دے کر اب صرف ہنسنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ اب کیا یہ بھی نہ ہو؟ جب کچھ بھی نہ رہے‘ کچھ بھی نہ بچے‘ یعنی سبھی کچھ نکل گیا ہو تو واحد آپشن کے طور پر ''ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔ 
قوم چاہتی ہے کہ مسائل حل ہوں۔ مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدگی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ پختہ سوچ اور بھرپور لگن کے ساتھ عمل کے میدان میں قدم رکھنے پر انسان بہت کچھ پاتا ہے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اب تک صرف الزام تراشی کے ذریعے میلے کی رونق بڑھائی جارہی ہے۔ میڈیا پر شور مچانے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ کوئی اپنے باپ کو سلطان بتانے پر تُلا ہے اور فریقِ ثانی اُسے غلام نسل کا قرار دینے پر بضد رہتا ہے۔ یہ رسّا کشی قوم کے کس کام کی؟ اُسے اس بات سے کیا غرض کہ کون کیا تھا یا کیا ہے۔ اُسے تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے جو کچھ درکار ہے‘ وہ اُسے ملے‘ ملتا رہے۔ ع
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے 
المیہ یہ ہے کہ سات عشرے گزر جانے پر بھی یہ ملک اِس قابل نہیں ہو پایا کہ عوام کو بنیادی سہولتیں معقول انداز و تناسب سے فراہم کرسکے۔ بہت سے ''فرنٹ لائن‘‘ سیاست دانوں نے میراثیوںکے فن سے استفادہ کرتے ہوئے قوم کا پیٹ جگتوں سے بھرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور اسے بھی ''کمال‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے! 
موسم کو تو کوئی الزام دیا نہیں جاسکتا‘ اُسے تو جو کرنا ہے‘ سو کرنا ہے۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ قوم کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہاں‘ سیاسی درجۂ حرارت کو ایک خاص حد تک رکھنا ممکن ہے۔ یہ کالم اہلِ سیاست کا ہے۔ وہ اگر کچھ چاہیں گے تو کچھ ہوگا۔ اُنہیں وعدوں‘ دعووں‘ بڑھکوں اور تنقید ِ بے جا سے گریز کرتے ہوئے ‘اپنے حصے کے کام پر توجہ دینی چاہیے۔ سیاسی معاملات کا پارہ ‘اسی طور نیچے لایا جاسکتا ہے۔ 
بے شرمی کا گراف بھی کچھ نیچے لایا جانا چاہیے۔ جنہیں قوم کی رہبری اور مسائل کے حل پر مامور کیا گیا ہے‘ اُنہیں ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ کبھی کبھی شرم بھی محسوس کرتے ہیں اور کچھ ایسا کر گزرتے ہیں جو قوم کا بھلا کرجائے۔ قوم موسم کی گرمی جھیل لے تو کمال سمجھیے۔ ایسے میں اگر اُسے سیاسی گرما گرمی سے بھی نبرد آزما ہونا پڑے تو بڑی خرابی پیدا ہوگی۔ بہر کیف‘ یہ موسمِ گرما بجائے خود صرف عوام کے لیے نہیں‘ بلکہ حکومت کے لیے امتحان کی صورت وارد ہوا ہے؛ اگر بجلی کا بحران رونما ہوا تو رہی سہی کسر پوری ہوجائے گی۔ ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved