اگر یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی ہے کہ یہ ملک مسلمانانِ برصغیر پاک وہند کی کوششوں سے وجود میں آیا، یا پھر انگریز نے اپنی مشہور پالیسی’’ لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کے تحت ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، تو ان دونوں گروہوں کو اپنی اس تجزیاتی سوچ اور متکبرانہ روش میں زیادہ دیر تک گم رہنے کی شاید مہلت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اس مملکت کے وجود میں آنے سے بہت ہی پہلے وہ لوگ جن کی آنکھیں نورِ الٰہی سے روشن تھیں اور جنہیں اللہ نے بصیرت کے جوہر سے سرفراز کیا تھا، انہیں یقین تھا کہ اللہ بشارتوں کی اس سرزمین پر اپنی نشانی کے طور پر ایک مملکت قائم کرنے والا ہے۔ حق کی پہچان اور اس کے ادراک کے لیے یہ نشانی اس دنیا میں اس لیے ضروری تھی کہ پوری دنیا کے مفکّرین نے قوموں کی تخلیق کے لیے اللہ کے قانون ِ قومیت کے مقابلے میںچار مضبوط نظریے پیش کیے جن کی بنیاد پر وہ قوموں کو تقسیم کر چکے تھے… رنگ ، نسل، زبان اور علاقے۔ یہ تھے وہ چار عناصر جن میں سے کسی ایک کی بنیاد پر ان کے نزدیک قوم تخلیق پاتی ہے۔ پوری مسلم دنیا اسی بنیاد پر 1925ء تک مکمل طور پر تقسیم ہو چکی تھی۔ اب انسانوں کے سامنے مملکت یا قوم کی حیثیت سے کوئی ایک نشانی بھی ایسی موجود نہ تھی جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے مطابق اس نظریے پر ایمان کی مظہر ہو کہ انسانوں کا رنگ ، نسل اور زبان کو ئی بھی ہو، وہ یہ اعلان کریں کہ ہم ایک قوم ہیں اس لیے کہ ہم کلمۂ طیبہ پڑھتے ہیں۔ یہ نشانی حق وباطل کے درمیان تمیز کرنے کے لیے بہت ضروری تھی۔ سو میرے اللہ نے یہ فیصلہ کر دیا اور اس سرزمین پاک کو منتخب کیا جس کے بارے میں اللہ کے پیارے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ’’ مجھے ادھر سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے‘‘۔ اللہ کے اس فیصلے کا ادراک اس وقت کے تمام اہلِ بصیرت کو تھا جنہیں اللہ نے اس کی خبر اپنے خاص کرم سے عطا کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عشقِ رسولﷺ کے دریا کے غوّاص اور سیّدالانبیاءﷺ سے اپنے لیے ’’عندلیبِ باغِ حجاز‘‘ کا لقب پانے والے اقبال نے جب پاکستان بننے سے 17 سال پہلے الہٰ آباد کے خطبے میں تصورِ پاکستان دیا تو انہوں نے نہ کسی سے اس ملک کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کوئی تحریک چلانے کا اعلان کیا بلکہ عشقِ رسولﷺ میں ڈوبے اس شاعرِ مشرق نے یہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو پاکستان کے بننے کی خبر دی بلکہ خوشخبری سنائی۔ الفاظ ملاحظہ کیجئے: \"The formation of a consolidated North West Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims\" (شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک مربوط ریاست میرے نزدیک مسلمانوں کا مقدر ہے) کاتب تقدیر کے یہ الفاظ اقبال کی زبان پر الہامی طور پر جاری ہوئے تھے اور اُس دور کے تمام اہلِ نظر اس کی تصدیق کر رہے تھے۔ پھر اللہ اپنی نشانیوں کو ظاہر کرنے کے لیے جس کو چاہے منتخب کرلے۔ قائدِاعظم محمد علی جناح کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ اُس وقت بھی ان کے عقیدے کی بحث چھیڑی گئی، لیکن وہ تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ علی گڑھ میں ایسے ہی تیکھے سوالوں کی ایک محفل کا ذکر منشی عبدالرحمن نے کیا ہے۔ ایک نوجوان نے قائدِاعظم سے حضرت عمر ؓ کے بارے میں سوال پوچھا۔ قائدِاعظم سوال کی تہہ تک پہنچے اور جواب دیا: \"Tell me my boy, if your take Umar out of the Islamic history, what then is left out of it\" (میرے بچے بتائو! اگر عمرؓ کو اسلامی تاریخ سے خارج کر دیا جائے تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے؟) یوں تو اس قائد نے زندگی کے آخری دس سال صرف اور صرف اسلام کے نام اور اُس کے تصورِ زندگی کی وکالت کرتے گزارے اور اپنی زندگی کی آخری تقریر یکم جولائی1948ء کو سٹیٹ بینک کے افتتاح پر کی ۔ شدید ترین بیماری کے عالم میں اس نحیف و نزار قائد نے سودی نظام کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ فرمایا: ’’مغربی نظامِ معیشت کے نظریات کو اختیار کرنا اور ان کو نافذ کرنا ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا کہ ہم ایک خوش حال اور قناعت پسند قوم کا مقصد حاصل کرسکیں۔ ہمیں اپنی تقدیر خود بنانی ہے اور دنیا کے سامنے ایک ایسا نظامِ معیشت پیش کرنا ہے جو حقیقی اسلامی تصورِ مساوات اور معاشرتی عدل پر مبنی ہو‘‘۔ یہاں قائدِاعظم نے سٹیٹ بینک کو ایک غیر سودی نظام تخلیق کرنے کی ذمہ داری سونپی اور فرمایا کہ میں ذاتی طور پر اس کام کی نگرانی کروں گا۔ پوری تقریر مغرب کے سودی نظام سے کراہت کی غماز ہے۔ سود کے خلاف جہاد کرنے والے اس قائدِاعظم پر سیکولر ہونے کا جو بہتانِ عظیم گیارہ اگست1947ء کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر کے ذریعے لگایا جاتا ہے ‘ میں اس کے متن کے بارے میں بحث نہیں کرنا چاہتا‘ ایک تاریخی بددیانتی کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا متن ڈان اخبار میں شائع ہوا تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ڈان اخبار کا پہلا شمارہ کراچی میں17اگست کو شائع ہوا۔ گیارہ، بارہ ،تیرہ، چودہ، پندرہ اور سولہ اگست کو کوئی ڈان اخبار موجود ہی نہ تھا جو فوری طور پر اس تقریر کا متن شائع کرتا۔ یہ وہی ڈان ہے جس کے ایڈیٹر الطاف حسین ایک شدت پسند سو شلسٹ تھے۔ ان کے بارے میں تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن ڈاکٹر بدر الدین کہتے ہیں کہ وہ مجھے اکثر سوشلزم پر لمبے چوڑے لیکچر دیتے تھے۔ میں نے اس کا اظہار 26 نومبر 1946ء کو قائدِاعظم کی رہائش گاہ اورنگ زیب عالمگیر روڈ نئی دہلی میں کیا۔ اُس وقت راجہ غضنفر علی اور مولوی تمیز الدین بھی ان کے ساتھ تھے۔ قائداعظم نے فرمایا: ’’مسٹر بدر !الطاف حسین نے آپ کو کافی وقت دیا اور مسئلہ سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن مطمئن نہ پاکر مجھے فون کیا اور میرے پاس بھیج دیا‘‘۔ یہاں قائدِاعظم نے ایک ڈائری پر قرآنی آیات کا انگریزی ترجمہ مجھے دکھایا اور کہا انہیں نوٹ کر لو، تنہائیوں میں بار بار اصل آیات اور ترجمہ دہرایا کرو اور اسی کی تشہیر کرو۔ آیات یہ تھیں: ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے، اور جو کوئی کسی اور دین کے مطابق زندگی گزارے گا تو وہ قبول نہیں ہوگا‘‘۔ا سی انٹرویو میں قائدِاعظم نے پاکستان کی حکومت کو مدینہ کی ریاست سے تشبیہ دی۔ میں اس موضوع پر کیا لکھوں کہ پچھترسال سے اس پر لکھا اور بولا جا رہا ہے، لیکن وہ جو اللہ کی اس نشانی پاکستان کو ایک مذاق سمجھتے ہیں‘ ان کے نزدیک تو خیالی طور پر تخلیق کردہ ڈان اخبار کے علاوہ جسٹس منیر کے جھوٹ معتبر ہیں جو اُس نے قائداعظم کے ساتھ منیر رپورٹ میں منسوب کیے تھے۔ ایسے لوگوں کو بار بار کہا گیا کہ اللہ سب کچھ برداشت کرتا ہے‘ اپنی نشانیوں کے ساتھ مذاق برداشت نہیں کرتا۔ ان کی حالت قومِ نوحؑ کی طرح ہے۔ آخر میں تھک ہار کر حضرتِ نوحؑ نے اپنے رب سے کہا: ’’اے میرے رب! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب وروز پکارا مگر میری پکار نے ان کے فرار میں اضافہ کیا اور جب بھی میں نے ان کو بلایا کہ تو اُنہیں معاف کردے، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوںسے منہ ڈھانک لیے اور اسی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبرّ کیا۔ (سوۃ نوح۔9)۔ تکبرّ میں اکڑی ہوئی گردنیں آپ کو اس مملکتِ خداداد پاکستان میں جگہ جگہ نظر آئیں گی۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ اگر میری بات نہ سنی گئی تو یہ ملک نہیں رہے گا۔ یہ وہ واحد بدنصیب قوم ہے جن کے رہنما، دانشور اور سیاست دان اللہ کی اس نشانی اور اپنی ہی اس پناہ گاہ کی بربادی کا خواب دیکھتے ہیں۔ سب نے پتہ نہیں کیوں یہ تصور کر لیا ہے کہ اللہ بے بس ہے، خاموش ہے، وہ اس ملک کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا۔ انہیں اندازہ تک نہیں کہ ان کے سارے کھیل تماشے ، اقتدار کے خواب اور لوٹ مار کے منصوبے میرے اللہ کے صرف ایک فیصلے سے بدلے جا سکتے ہیں۔ زمین کی جنبش فیصلوں کا اعلان کر رہی ہے۔ آسمان سے اٹھتی ہوائیں تقدیر کا نوشتہ سنا رہی ہیں اور پھر میرے ربّ کا وہ ازلی و ابدی فیصلہ کہ اگر ہم ظالموں کو ظالموں سے لڑا کر ختم نہ کریں تو زمین پر امن قائم نہ ہو۔ اقتدار کی کرسی اور تکبرّ میںتنی گردنوں کے درمیان اب میرے اللہ کے فیصلوں کی خلیج ہے۔اپنی اس نشانی ’’پاکستان‘‘ سے مذاق کرنے والوں، اس کی بربادی کا خواب دیکھنے والوں اور اللہ کے اس گھر میں رعونت، نفرت، تعصب، تکبر اور الحاد کے بت پوجنے والوں کے لیے نقارے بج چکے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved