تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     03-05-2019

محنت کی عظمت

دنیا میں محنت اور سرمائے کی کشمکش چلی آرہی ہے۔‘ایک طبقے کے نزدیک محنت اصل ہے اور اس کے مقابلے میں سرمایا بے توقیر ہے‘دوسرے طبقے کے نزدیک سرمایا اصل ہے اور محنت ثانوی چیز ہے ‘اُن کے نزدیک سرمایہ ہے تو آپ جسمانی محنت اور ذہنی قابلیت سمیت ہرچیز خرید سکتے ہیں ‘وہ سرمائے ہی کوقوت وطاقت کا مرکز سمجھتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اس وقت سرمایادارانہ نظام کو دنیا میں غلبہ حاصل ہے اور اس کے مقابلے میں تمام اصول اور اقدار بے توقیر ہیں ۔اسلام توسّط واعتدال کا دین ہے ‘اسلام کے نزدیک سرمایا سب کچھ نہیں ہے ‘لیکن اپنی جگہ اس کی اہمیت ہے اور اسی لیے اسلام میں مالی عبادات ‘جن میں فرائض وواجبات اور نفلی صدقات سمیت انفاق فی سبیل اللہ کے تمام شعبے اور تقسیمِ وراثت کا نظام شامل ہے‘ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ اور دین کی حکمت کے منافی ہے۔ آج ماضی کی غلامی اپنی اصل شکل میں تو موجود نہیں ہے‘لیکن سرمایہ داری کے غلبے نے قوموں اور ملکوں کو غلامی کے شکنجے میں جکڑاہوا ہے ۔
اسلام محنت کو عظمت دیتا ہے اور محنت کش کو تکریم عطا کرتاہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:(1) ''کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایااوربے شک اللہ کے نبی دائود علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘ ‘ (بخاری:2072)۔ (2):آپ ﷺ نے فرمایا:''تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر لائے ‘یہ اُس سے بہتر ہے کہ وہ کسی شخص سے سوال کرے اوروہ اُسے دے یا نہ دے ‘‘ (بخاری:2074)۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے مختلف پیشے اختیار کر کے حِرفت کو تکریم عطا کی ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور ہم نے دائود کو تمہارے لیے زِرہ سازی کا فن سکھایا ‘ تاکہ تمہیں جنگ کی اذیت سے بچائے ‘‘ (الانبیائ:80)۔ 
امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں: ''قتادہ نے کہا: سب سے پہلے‘ جس نے زِرہ کی صنعت ایجاد کی ‘ وہ حضرت دائود علیہ السلام ہیں ‘ (جدیداصطلاح میں اس کا نام بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ ہے)اس سے پہلے فولاد کے پتروں کو لوگ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ‘حضرت دائود علیہ السلام نے لوہے کے حلقے (چھلّے) بنائے اور اُن کو جوڑ کر قمیص تیار کرلی۔ حسن نے ذکر کیا: لقمان حکیم حضرت دائود علیہ السلام سے ملنے گئے ‘وہ اس وقت زِرہ بنارہے تھے ‘ انہوں نے پوچھنا چاہا ‘لیکن خاموش رہے؛ حتیٰ کہ حضرت دائود علیہ السلام قمیص بناکر فارغ ہوگئے ‘ تب انہوں نے کہا: خاموش رہنا حکمت ہے اور کم لوگ اسے اختیار کرتے ہیں ۔ مفسرین نے کہا :اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کیلئے لوہے کو نرم فرمادیا تھا اور وہ اس کو آگ سے پگھلائے بغیر دھاگے کی طرح اُس سے زِرہ بُن لیتے تھے ‘‘ (تفسیر کبیر‘جز:22ص:163)۔علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ''یہ آیت حصولِ معاش کیلئے صنعت ‘ کاریگری اور حِرفت کی اصل ہے ۔ بعض جاہل غبی اور متکبر لوگ بعض پیشوں کو حقیر‘ خسیس اور گھٹیا سمجھتے ہیں ؛حالانکہ اسباب ‘صنعتوں اور پیشوں کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا طریقہ ہے ‘ سو جو شخص کسی پیشے سے وابستہ ہے‘ وہ درحقیقت کتاب وسنت پر عامل ہے ‘‘۔مزید لکھتے ہیں: ''حضرت آدم علیہ السلام کاشت کاری کرتے تھے ‘حضرت نوح علیہ السلام نجّاری کا کام کرتے اور لکڑی سے چیزیں بناتے تھے ‘ حضرت لقمان درزی تھے اور کپڑے سیتے تھے ‘حضرت طالوت رنگریز تھے اور کپڑے رنگتے تھے ‘‘ (تفسیر القرطبی ‘ ج:11ص:320)۔ 
علامہ ا بن جوزی لکھتے ہیں: ''حضرت عبداللہ بن عباس نے بیان کیا: حضرت ادریس علیہ السلام درزی تھے‘ حضرت صالح علیہ السلام تاجر تھے‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے ‘حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہما السلام بکریاں چراتے تھے‘ حضرت دائود علیہ السلام زِرہ بناتے تھے‘ حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ تھے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کل کے لیے کچھ ذخیرہ نہیں کرتے تھے‘ ہمارے نبی ﷺ اپنے اہل وعیال کے لیے مقامِ اَجیاد میں بکریاں چراتے تھے‘حضرت حواء اون کاتتی تھیں اوراپنے ہاتھ سے کپڑا بُن کراپنا اور اپنے بچوں کا لباس بناتی تھیں‘‘(المنتظم ‘ ج:2ص:146)۔سیدنا محمد ﷺ نے تجارت بھی کی اور بکریاں بھی چرائیں ‘حدیث پاک میں ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا‘ انہوں نے بکریاں چرائیں ‘صحابۂ کرام نے پوچھا: یارسول اللہ! آپ نے بھی‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! میں چند قیراط کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چراتا تھا‘‘ (بخاری:2262)۔
نوٹ: بکریاں چرانے والے کو ''رَاعِی‘‘ کہتے ہیں اور حاکم کو بھی راعی کہتے ہیں۔انبیائے کرام علیہم السلام کا بکریاں چرانا امت کی نگہبانی کی تربیت کے لیے تھا اور نبی کریم ﷺ کا اس کا اظہار فرمانا اللہ تعالیٰ کے حضور تواضع کے طور پرتھا؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ سے بڑھ کر کوئی اور مکرّم نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ''حضرت شعیب نے( حضرت موسیٰ سے )کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دوبیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس مہر پر آپ کے ساتھ کردوں کہ آپ آٹھ سال میری ملازمت کریں گے‘‘ (القصص:27)۔سو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں ۔ 
علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے: ''آج کل جو شخص پھیری لگاکر کندھے پر گٹھڑی رکھ کر کپڑا بیچتا ہو‘لوگ اسے کمتر سمجھتے ہیں‘ مگر حضرت ابوبکر صدیق بھی یہی کام کرتے تھے ۔ ہمارے جلیل القدر ائمہ میں سے بعض مختلف پیشوں سے وابستہ رہے ۔حضرت امام احمد بن عمر الخصّاف بہت بڑے فقیہ اور عابد وزاہد تھے ‘اُن کی فقہ میں تصانیف ہیں‘ عربی میں ''خَصَّاف‘‘ موچی کو کہتے ہیں‘ یہ جوتوں کی مرمت کرتے تھے ۔ علامہ احمد بن محمد القدوری بہت بڑے فقیہ تھے ‘ اُن کی کتاب ''مُختصَر القُدُورِی‘‘بہت عظیم کتاب ہے اوردینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے ''قدوری‘‘ مٹی کی ہنڈیا بیچنے والے کو کہتے ہیں ۔ایک اور فقیہ علامہ محمود بن احمد اَلْحَصِیْری گزرے ہیں‘ ''حصیری‘‘ چٹائی بننے والے کو کہتے ہیں۔ امام ابوبکر بن علی الحدّادی بہت بڑے عالم تھے ‘انہوں نے ''مختصر قدوری‘‘ کی شرح لکھی ہے ‘ عربی میں ''حدّاد‘‘ لوہار کو کہتے ہیں‘‘(تبیان القرآن‘ ج: 7ص:639--640)۔بعض علاقوں میں مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کو کمّی کمین کہتے ہیںاور انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے تضادات کا عالَم یہ ہے کہ اگر جفت سازی بہت بڑی صنعت کی حیثیت اختیار کرلے ‘تو یہ سرمائے کی نسبت سے اعزاز قرار پاتا ہے اور مزدور بے توقیر رہتا ہے‘ آج کی سپِننگ اورٹیکسٹائل ملیں وہی کام کرتی ہیں ‘جو ماضی میں عام مزدور گھروں میں دھاگا کاتنے اور کپڑا بننے کے کام کرتے تھے ‘ مزدور بے توقیر ‘سپِننگ اور ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان اعزاز واکرام کے حق دار قرار پاتے ہیں ۔ 
مزدور کی مزدوری بروقت ادا کرنے کی بابت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:(1) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں قیامت کے دن تین شخصوں کے خلاف مدعی ہوں گا‘ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے ‘جس نے کسی کو اپنے ہاں مزدوری پر رکھا‘ اس سے پورا کام لیا اور مزدوری نہیں دی‘‘ (بخاری:2227)۔ (2)آپ ﷺ نے فرمایا:'' مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا کرو‘‘ (ابن ماجہ:2443)۔ (3)آپ ﷺ نے فرمایا: ''اے ابوذر! جس کے ماتحت اس کا کوئی مسلمان بھائی کام کرتا ہے‘اسے چاہیے کہ جو خود کھائے‘ ویسا ہی اسے کھلائے‘جوخود پہنے ویساہی اسے پہنائے‘ اس سے ایسا کام نہ لے‘ جو اُس کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ایسا کوئی کام اس کے ذمے لگادیا ہو تو خود بھی اس کی مدد کرے‘‘ (بخاری:30)۔(4)''ملازم کو ایسے کام پر مجبور نہ کیا جائے‘ جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا‘ ‘( مسلم:1662)۔
خطبۂ حجۃ الوداع میں بھی آپ نے یہی بات ارشاد فرمائی ۔
(5)''ابومسعود بیان کرتے ہیں: میں اپنے غلام کو کوڑے سے مارے جارہا تھا‘ میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی‘لیکن میں غصے کے سبب آواز کو سمجھ نہ سکا‘ جب آواز میرے قریب آئی (اور میں نے پلٹ کر دیکھا)تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے ‘میں نے کوڑا زمین پر رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ابومسعود! جتنا اختیار تمہیں اس غلام پر ہے‘ اس سے زیادہ اختیار اللہ تعالیٰ کو تم پر ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا: آج کے بعد میں کبھی غلام کو نہیں ماروں گا‘‘ ( مسلم: 1659)۔
حضرت کعب بیان کرتے ہیں: ''ایک شخص تیزی کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرا‘ صحابۂ کرام نے اسے دیکھا تو انہیں تعجب ہوا‘ عرض کیا: یارسول اللہ! اگر یہ ایسی ہمت وتیزی اللہ کی راہ میں دکھاتا تو کتنا اچھا ہوتا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ اپنے عیال یا بوڑھے والدین کے لیے روزی کمانے نکلا ہے تو اللہ کی راہ میں ہے‘ اگر یہ کوشش اس لیے ہے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے تب بھی اللہ کی راہ میں ہے‘ اگر ریاکاری اور دوسروں پر فخر کیلئے کمانے نکلا ہے تو شیطان کے راستے میں ہے‘‘ (المعجم الکبیر : 282)۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی اولاد اور والدین کے لیے محنت کرنے والے کے فعل کو فی سبیل اللہ‘ یعنی جہاد کے برابر قرار دیا ہے ۔
روایت میں ہے :جب رسول اللہ ﷺ غزوۂ تبوک سے واپس آئے ‘سعد نے اُن کا استقبال کیا ‘ آپﷺ نے اُن سے مصافحہ کیا اور فرمایا: ''تمہارے ہاتھوں میں یہ نشانات کیسے ہیں‘وہ بولے: یارسول اللہ !میں اپنے عیال کیلئے پھائوڑا چلاتا ہوں‘ رسول اللہ ﷺ نے اُن کے ہاتھ کو بوسا دیا اور فرمایا: ''ایسے ہاتھ کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی‘‘ (اسد الغابہ‘ ج:2ص:420)۔
بظاہر یہ روایت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے محنت کی عظمت کو تسلیم کرنے کا ایک دلکش اظہار ہے ‘ اس میں معنوی اعتبار سے کوئی خرابی بھی نہیں ہے‘ لیکن یہ آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے ‘مُحدِّثین کرام نے اسے موضوع کہا ہے‘ اس لیے اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ خطباء اور کالم نگاراسے بیان کرتے رہتے ہیں۔ماضی میں بھی واعظین لوگوں کونیکی کی طرف راغب کرنے اور برائی سے دور رکھنے کے لیے اس طرح کی روایات گھڑتے تھے ‘ یہ مذموم بات ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ''جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا‘ وہ اپناٹھکاناجہنم میں بنالے‘ ‘(بخاری: 1291)۔ یہ بہت بڑی وعید ہے ‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ کی طرف کوئی بات منسوب کرکے بیان کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرنی چاہیے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ''آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرتا پھرے‘‘ ( مسلم:4)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved