تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     27-04-2013

انتخابات اور انتخابی نعرے

الیکشن کمیشن نے 11مئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 1070عام نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والے 16692امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور پہلے ہی عوام کے سامنے پیش کرچکی ہیں۔ جہاں جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی تھی یا انتخابی اتحاد ممکن تھا، سیاسی جماعتوں نے یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد حکمتِ عملی کو آخری شکل دے کر اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ لیکن سیاسی پارٹیوں کو انتخابی معرکے کو ہائی پچ پر پہنچانے کے لیے دلکش نعرے ہاتھ نہیں آرہے۔ اس صورت حال کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ابھی تک کسی ایسے ایشوپر فوکس کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی جو فوری طورپر عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرسکے۔ نتیجتاً سیاسی جماعتیں آپس میں ہی دست وگریباں ہیں اور ہر پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی حریف جماعت کو جائز وناجائز تنقید کا نشانہ بناکر اپنا گراف اونچا کرسکتی ہے۔ تحریکِ انصاف کی تمام توپوں کا رخ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جانب ہے ۔ عمران خان کو شریف برادران پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ پانچ دفعہ اقتدار کی پینگ جُھول چکے ہیں اور چھٹی باری لینا چاہتے ہیں حالانکہ سیاست باریوں کا کھیل نہیں۔ اس کا تعلق انسانوں کی خدمت سے ہے جو خالقِ کائنات کے نزدیک سب سے مستحسن کام ہے۔ اس کام کو بار بار سرانجام دینے کی خواہش ایک مذموم کوشش نہیں بلکہ ایک قابلِ ستائش سوچ ہے۔ البتہ یہ حق عوام کو حاصل ہے کہ وہ کسے پذیرائی بخشتے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ کے رہنما خصوصاً میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے اپنے تیز و تند جملوں کے ذریعے پیپلزپارٹی‘ خصوصاً صدر زرداری کو تنقید کا نشانہ بنارکھا ہے۔ جواب میں پیپلزپارٹی بھی عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دینے کی بجائے نواز لیگ کے خلاف اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں سندھ کے سیاسی نقشے میں زبردست تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ پیر صاحب پگارا کی قیادت میں سندھ کی مذہبی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے 10رکنی اتحاد نے پیپلزپارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور پارٹی قیادت اس کی ذمہ دار ن لیگ کو سمجھتی ہے کیونکہ گزشتہ ایک برس میں نواز شریف دس بارہ دفعہ سندھ کا دورہ کرچکے ہیں ، شہباز شریف بھی گزشتہ دنوں کراچی میں تھے جہاں انہوں نے ن لیگ اور فنکشنل مسلم لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ معاہدے پر دستخط کیے۔ دودن پیش تر نواز شریف نے ٹنڈوالہٰ یار میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری کو ایک دفعہ پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ سیاسی پارٹیاں آپس میں گتھم گتھا ہونے کا یہ کھیل اس لیے جان بوجھ کر کھیل رہی ہیں کہ اُن کے پاس اصل مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جاسکے۔ البتہ ڈیرہ غازی خاں میں تقریر کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انتخابی ماحول کو گرما دینے والا ایک بیان داغا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آکر ان کا سب سے پہلا اقدام یہ ہوگا کہ وہ پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔ غالباً اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ اگر انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ سے علیحدہ کردیا جائے گا کیونکہ عمران خان کا مؤقف یہ ہے کہ یہ جنگ پاکستان کی جنگ نہیں بلکہ اس جنگ کو امریکہ نے پاکستان پر زبردستی ٹھونسا ہے۔ اس مؤقف سے بہت سے لوگ متفق نہیں۔ لیکن اس پر الگ بحث کی جاسکتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری کہ عمران خان کی طرف سے ان انتخابات میں امریکہ مخالف نعرہ لگانے کا اصل مقصد کیا ہے ؟ کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان امریکہ کو ٹارگٹ بناکر لوگوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں عوامی رائے عامہ امریکہ کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلسِ عمل کی کامیابی کی مثال دی جاتی ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل کو امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے ووٹ پڑے تھے۔ لیکن حقائق کے ساتھ ساتھ شواہد بھی اس خیال کی تائید نہیں کرتے۔ یہ بات متعدد ذرائع سے ثابت ہوچکی ہے کہ 2002ء میں متحدہ مجلسِ عمل کی کامیابی کے دواسباب تھے ۔ ایک خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دوسرے‘ دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا ملک کے اندر نہ ہونا۔ جہاں تک امریکہ کے خلاف نعرہ لگاکر عوامی حمایت حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو بہتر ہوگا کہ عمران خان نہ صرف الیکشن 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کے اصل اسباب کو پیش نظر رکھیں بلکہ حالیہ مہینوں میں جماعتِ اسلامی اور دفاعِ پاکستان کونسل کی جانب سے مختلف مواقع پر عوام کو امریکہ کے خلاف سڑکوں پر لانے میں ناکامی پر بھی غور کرنا چاہیے۔ الیکشن 2008ء میں دائیں بازو کی جماعتوں نے امریکہ کو ایک انتخابی ایشو بنانے کی کوشش کی لیکن عوام نے اس کوشش کو رد کردیا اور انتخابات میں پیپلزپارٹی اور اے این پی نے کامیابی حاصل کی جوامریکہ سے بہتر تعلقات کی حامی جماعتیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح امریکہ کو انتخابی مسئلہ بتانے میں دائیں بازو کی پارٹیوں کو ناکامی ہوئی ہے اسی طرح بھارت مخالف نعروں کو بھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی‘ حالانکہ دوڈھائی ماہ قبل لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدہ تھے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ فوری طورپر جن مسائل سے پاکستانی عوام براہ راست دوچار ہیں وہ زیادہ تر داخلی ہیں اور ان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے پیدا ہونے والا عدم تحفظ کا احساس ہے جس کی لپیٹ میں عام شہری کے ساتھ سیاسی کارکن بھی آچکے ہیں۔ انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی جس طرح اے این پی‘ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کے جلسوں اور جلوسوں پر حملے ہوئے‘ اس سے نہ صرف ان پارٹیوں کو اپنی انتخابی سرگرمیاں محدود کرنی پڑی ہیں بلکہ عام لوگوں میں بھی سراسیمگی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کے باوجود دہشت گرد الیکشن کو روکنے یا مؤخر کرانے میں ناکام رہیں۔ تاہم اس سے ووٹرز ٹرن آئوٹ ضرور متاثر ہوگا۔ اس سے الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوں گے جوجمہوریت کے لیے ایک بُرا شگون ہوگا۔ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ سیاسی پارٹیاں آپس میں الجھنے کی بجائے متحدہوکر پہلے ان خطرات کا مقابلہ کریں جو ان سب کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved