رواں ہفتے، جاپانی بادشاہ'' اکی ہیتو ‘‘کے تخت چھوڑنے کے موقع پر، جنوبی کوریا کے صدرمون جائی نے جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان مثبت تعلقات کو فروغ دینے کے لیے جاپانی بادشاہ کے کردار کی تعریفوں کے پل باندھے۔اس لمحے یہ ایک خیر مقدمی پیغام‘دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات میں مثبت لمحہ سمجھاگیا۔جاپان کے بادشاہ اکی ہیتو نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے اپنی30 سالہ بادشاہت سے دستبرداری کا اعلان کیا۔ جاپان کی200سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بادشاہ نے از خود تخت نشینی چھوڑنے کا اعلان کیا۔اپنے آخری خطاب میں85سالہ اکی ہیتو کا کہنا تھا کہ اپنی عمر اور خراب صحت کے باعث اپنی ذمہ داریاں مزید نہیں نبھا سکتا۔بدھ کے روز ان کے بڑے بیٹے ولی عہد'' نرو ہیتو‘‘ بادشاہت کی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔جاپان میں بادشاہ کے پاس کوئی سیاسی اختیار نہیں ہوتا لیکن بادشاہ قومی شخصیت کے طور پر ملک کی خدمت کرتا ہے۔جاپان میں بادشاہت اس لیے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اسے دنیا میں جاری سب سے قدیم موروثیت مانا جاتا ہے، جس کی تاریخ 600سال قبل مسیح تک جاتی ہے۔
بدقسمتی سے، مون جائی کی مبارکباد سے قبل،دونوں ممالک کے درمیان حالات سازگار نہیں رہے۔اپریل میں،میونسپل حکام نے جاپان کے نئے سفارتخانے کی تعمیر کے لئے لازمی اجازت نامہ منسوخ کردیا،جس کی وجہ جاپان کی جانب سے تعمیراتی تاخیر بتائی گئی۔اجازت نامہ منسوخ کرنے کے ساتھ، ٹوکیو نے ایک نئے سفارت خانے کے منصوبے کوختم کردیا، جنوبی کوریا میں سفارتی امور سر انجام دینے کے لیے ایک چھوٹا سفارت خانہ قائم کیا گیا۔ اپریل میں اس کشیدگی سے نمٹنے کے بعد‘عالمی تجارتی تنظیم نے جنوبی کوریا کی فوکوشیما کے علاقے سے جاپانی سمندری غذا کی درآمد پر پابندی کی توثیق کر دی، جو 2011ء میں ایٹمی خدشات کے بعدلگائی گئی تھی۔ٹوکیو نے دوسرے ممالک کی طرح مضبوط ردعمل دیا اور جنوبی کوریا پر تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔
لیکن حالیہ واقعات تاریخی اور علاقائی تنازعے کی رو سے‘دونوں طرف کی حکومتوں کے درمیان مجموعی خراب تعلقات کے ہوتے ہوئے غیر معمولی سمجھے جا رہے ہیں۔ جاپان کے نوآبادیاتی حکمرانوں کے لیے مزدوروں کے معاوضہ کا معاملہ گزشتہ سال نومبر میں پیش آیا۔ جس میں جنوبی کوریا کی سپریم کورٹ نے اپنے قوانین کے مطابق، جاپان کی معروف ملٹی نیشنل کارپوریشن ''متسوبشی‘‘ (جسے سب سے بڑی جاپانی دفاعی کمپنی بھی کہا جاتا ہے) پر جرمانہ عائد کیا،مجبوراً مزدوری کے طور پر پانچ لاکھ ڈالر کا معاوضہ پانچ سابق کارکنوں کوادا کیا۔ اس سے قبل اکتوبر 2018ء میں اسی طرز کا فیصلہ دیکھنے کو ملا،جنوبی کوریا کی کورٹ کی جانب سے چار سابق کارکنوں کو معاوضہ دینے کے لئے ایک جاپانی کمپنی ''نپون سٹیل اور سمیٹومو میت کارپ‘‘ کوحکم دیاگیا تھا۔
جاپان میں،ان فیصلوں پر شدید غصہ پایا گیا۔جاپان کے وزیر اعظم ''شینزو ابی‘‘ اور ان کی انتظامیہ نے زور دیا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کی جانب سے دستخط کردہ بنیادی تعلقات پر 1965ء کے معاہدے موجود ہیں،تمام معاملات اس قانون کی رو سے حل کئے جائیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ فیصلہ ان قوانین کے منافی ہے۔ (درحقیقت، جنوبی کوریا کی عدالتوں میں موجودہ فیصلوں کی طرز پر، انتظار کرنے والے ایک درجن سے زیادہ مقدمات موجود ہیں)جاپانی صدر انتظامیہ نے یہ بھی دلیل دی کہ جنوبی کوریائی قوانین‘بین الاقوامی قانون کے خلاف ہیں۔اس بات کا عندیہ بھی دیا گیا کہ وہ ان کیسز کو عالمی عدالت میں لے کر جائیں گے۔ ٹوکیو نے خبردار کیا کہ جاپان میں کام کرنے والی جنوبی کوریائی کمپنیوں کے کچھ اثاثوں پر قبضہ کیا جاسکتاہے، اگر جنوبی کوریائی حکومت متسوبشی ہیوی انڈسٹری اور نپون سٹیل کے عدالتی فیصلوں پر نظرثانی نہیں کرتا۔
دریں اثنا، جنوبی کوریا میں مون جائی کی انتظامیہ نے اپنے ملک میں جذبات کو کم کرنے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے‘جوایک غیر رسمی سابق نوآبادیاتی طاقت ہے۔چونکہ جنوبی کوریا کی عدالت نے مقامی قوانین کے مطابق فیصلہ دیا، جاپانی کمپنیوں کے اثاثوں کی گرفت بھی مضبوط ہے۔اس معاملے کو سفارتی طور پر حل کرنے یا ٹوکیو کے لئے حقیقت پسندانہ متبادل اختیارات کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں پر زور دیا گیا۔جاپان اور جنوبی کوریا کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔عمودی کارکنوں کی معاوضہ کے علاوہ، کوریا کی خواتین کے مسائل میڈیا کی زینت بنے رہے ۔ 2015ء میں، دونوں اطراف سے معاہدوں پر دستخط کیے گئے جو الیکشن سے قبل اعلان کیا گیا تھا۔
تاریخی درسی کتب، جاپان اور جنوبی کوریا کے لینکوٹٹ راکس کے تنازعات سے بھری پڑی ہیں۔فروری 2018ء میںجاپان اورجنوبی کوریا کے درمیان دوریاںسمٹتے ہوئے دکھائی دیں، پائیونگ یانگ اولمپکس کے افتتاحی تقریبات میں جاپانی صدر نے شرکت کی،یوںجاپان اور جنوبی کوریا کے صدور اور وفود نے مئی 2018ء میں، چین کے ساتھ ایک تین طرفہ سربراہی اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔لیکن زیادہ مستحکم تعلقات قائم ہونے کی امید کے با وجود، ٹوکیو اورکوریا مخالف سمت چل رہے ہیں، کیونکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے دونوں ممالک کے درمیان اعتمادکا فقدان ہمیشہ سے رہا ہے۔
جاپان اورجنوبی کوریائی تعلقات میں استحکام اہمیت کا حامل ہے‘ نہ صرف ان دونوں ممالک کے لئے‘بلکہ امریکی اتحادیوں کے کلیدی کردار کے لیے بھی موزوں ہے، جو کوریا کے جزیرے پر اشتعال انگیزی کو روکنے کے لیے سرگرم ہے۔واشنگٹن طویل عرصے سے امید لگائے بیٹھا ہے کہ دونوں اتحادی‘ چین کی طرف سے پیدا ہونے والے سٹریٹجک چیلنج کو حل کرنے کے لئے زیادہ قریب سے کام کریں گے۔بدقسمتی سے، اس کے اہم اتحادیوں کے درمیان اس بڑھتی ہوئی شناخت کو حل کرنے کے لئے کوئی جامع پلان نہیں ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ نے جاپان اور جنوبی کوریا سے علیحدہ دو طرفہ راستے نکالنے کو ترجیح دی ہے۔اس طرح شمالی کوریا اور اس کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے نمٹنے کے لئے تین طرفہ تعاون کے بارے میں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔