تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-05-2019

لڑانا

لڑانا لڑنے کی نسبت زیادہ مفید مطلب نسخہ ہے کیونکہ اس پر زیادہ خرچ نہیں آتا یعنی خود آپ کے خرچ ہونے کا احتمال بھی نہیں رہتا اور آپ اپنا نیک مقصد بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ لڑانے کے ضمن میں خاصی ورائٹی موجود ہے جس کی مندرجہ ذیل قسمیں زیادہ مشہور ہیں:
مُرغے لڑانا
مرغوں کو خاص طور پر لڑانے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں پڑتی کہ وہ کُتوں، بلکہ انسانوں کی طرح لڑنے مرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں البتہ انہیں شرطیں باندھ کر بھی لڑایا جاتا ہے چنانچہ ہارنے والا مرغا یا تو چاروں شانے چت ہو جاتا ہے یا میدان سے بھاگ نکلتا ہے، بشرطیکہ جیتنے والا مرغا اسے بھاگنے دے۔ ایک صاحب ہوٹل میں آئے اور مرغِ مسلّم کا آرڈر دیا۔مرغا جب ان کے سامنے لا کر رکھا گیا تو اس کی ایک ٹانگ غائب تھی۔''اس کی دوسری ٹانگ کدھر ہے؟‘‘ اُن صاحب نے بیرے سے سوال کیا۔
''جناب! اصل بات یہ ہے کہ دو مُرغے آپس میں لڑ پڑے تھے جس کے نتیجے میں اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی‘‘
بیرے نے جواب دیا، جس پر وہ صاحب بولے۔
''میرے لیے وہ مُرغا لائو جو اس لڑائی میں فتح یاب ہوا تھا‘‘
بٹیر لڑانا
بھُوکا بٹیر چونکہ زیادہ لڑتا ہے اس لیے لڑنے والے بٹیروں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا جاتا اور وہ محض لڑائی پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی اور دیگر جنگجو قومیں بھی عام طور پر بھُوکی رہتی ہیں بلکہ ان کے حکمران انہیں ہمیشہ ہی بھوکا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں طوعاً و کرہاً خود استعمال اور ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ حکمران خود چونکہ فصلی بٹیرے ہوتے ہیں، اس لیے جونہی فصل پک کر تیار ہوتی ہے، سمیٹ کر اپنے گھر لے جاتے ہیں تا کہ دوسرے بٹیرے اور نہیں تو آپس میں تو لڑتے رہیں۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر قسم کے حضرات لڑتے بھی ہیں اور سبحان تیری قدرت کا ورد بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایک ہوٹل تیتر کا گوشت پکانے کے لیے مشہور تھا۔ ایک صاحب وہاں کھانا کھانے گئے تو کھانے کے دوران اُنہیں شک گزرا کہ تیتر کے گوشت میں ملاوٹ کی گئی ہے۔ انہوں نے بیرے کو بلا کر پوچھا
''سچ سچ بتائو، اس میں ملاوٹ کی گئی ہے؟‘‘
''سچی بات ہے جی، تیتر کا گوشت مہنگا اور نایاب ہی اتنا ہے کہ اس میں گائے کے گوشت کی ملاوٹ کرنا پڑی ہے‘‘ بیرے نے جواب دیا۔
''کتنی ملاوٹ کرتے ہو؟‘‘ ان صاحب نے پوچھا
''جناب ففٹی ففٹی‘‘ بیرا بولا
''کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے وضاحت چاہی۔
''جناب! ایک تیتر اور ایک گائے‘‘ بیرا مؤدبانہ بولا۔
پیچ لڑانا
پیچ لڑانے کا واحد مقصد کٹی ہوئی پتنگ کو لوٹنا ہوتا ہے، اور بس۔ حالانکہ اتنی تگ و دو کرنے اور ہاہا کار مچانے کی بجائے کٹی ہوئی پتنگ کی جگہ پانچ دس روپے میں ایسی ہی پتنگ بازار سے بھی خریدی جا سکتی ہے جبکہ لوٹی ہوئی پتنگ عام طور پر پھٹ پھٹا بھی جاتی ہے اور محنت بھی پلّے نہیں پڑتی۔ کنکوا بڑے کوّے کو کہتے ہیں جو ڈور کے بغیر اپنے پروں سے اڑتا ہے اور فُرصت کے اوقات میں ہنس کی چال چلنے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر اپنی بھی بھول جاتا ہے حالانکہ اسے ہنس کی طرح اڑنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ہنس چلتا تو ہے نہیں، کم از کم ہم نے اسے چلتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ بہر حال، پتنگ بازی میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ نہ ہی پتنگ بازی کے دوران چھتوں سے گر کر زخمی یا جاں بحق ہونے پر کوئی باز پُرس ہوتی ہے۔ چنانچہ پابندی کے باوجود سارا سال ہی بسنت کا سماں رہتا ہے ۔ آدھی قوم اسی نیک کام میں مصروف رہتی ہے اور باقی آدھی گلے پر ڈور پھرنے کے ڈر سے گھروں سے باہر نہیں نکلتی۔
آنکھیں لڑانا
آنکھیں لڑانے میں اگرچہ لڑائی کا عنصر شامل نہیں ہوتا تاہم فریق مخالف مرنے مارنے پر بھی تیار ہو سکتا ہے۔ اس لیے آنکھیں وہیں لڑانی چاہئیں جہاں دوسرا فریق بھی اس کے لیے تیار ہو۔ اس میں آنکھ مارنا بھی شامل ہوتا ہے البتہ آنکھ لڑانے کے محاورے میں خاصے مبالغے سے کام لیا گیا ہے ورنہ اس عمل میں صرف گھورنا ہی شامل ہوتا ہے اور وہ بھی ذرا مناسب طریقے سے ورنہ لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں اور آنکھوں کی لڑائی کے بعد مار کٹائی تک بھی نوبت پہنچ سکتی ہے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل
بے منظری ہے اور تماشا ہے ساتھ ساتھ
ہوتا نہیں ہے پاس جو رہتا ہے ساتھ ساتھ
باقی سفر بھی کرنا پڑے گا اسی طرح
اسباب ابھی ہمارا تمہارا ہے ساتھ ساتھ
خواب و خیال اُلجھ گئے ہیں، کچھ پتا نہیں
کیا کیا الگ الگ ہے تو کیا کیا ہے ساتھ ساتھ
صحرا کی پیاس ہے کہ ہے موجود اسی طرح
حالانکہ ہے رواں دواں دریا بھی ساتھ ساتھ
دنیا سے چھُپ چھپا کے جو کرتے ہیں روز و شب
اس کا نکل رہا ہے نتیجہ بھی ساتھ ساتھ
جو چاہیے ہمیں وہ میّسر تو ہے سکوں
دل کا، مگر، یہ شور شرابا ہے ساتھ ساتھ
میرا ہی دردِ سر نہیں بے جوڑ سا یہ عشق
یہ رنج آپ نے بھی اٹھایا ہے ساتھ ساتھ
خوفِ خدا میں یادِ بتاں ہے ملی جُلی
عقبیٰ کی ہے جو فکر تو دنیا ہے ساتھ ساتھ
وہ حلقۂ نیاز میں شامل تو ہے، ظفرؔ
ہے یہ بھی ایک بات کہ نخرہ ہے ساتھ ساتھ
آج کا مقطع:
اک دن بھلا کے چھوڑوں گا اُس شکل کو ظفرؔ
ہے صدقِ دل سے میں نے ارادہ کیا ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved