تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     27-04-2013

پرویز مشرف کی ایک اور حماقت

میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ دن آئے گا جب میرے دل میں پرویز مشرف کے لیے ہمدردی بھرے جذبات پیدا ہوں گے لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ وکلا سابق صدر کے بے حد خلاف ہو رہے ہیں تو میں ان سے اتفاق نہیںکرتا۔ کسی بھی صاحب حیثیت شخص کے لیے اپنے مقام سے گرنا طویل عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن مشرف کی دبئی سے کراچی تک کی پرواز نے ان عوامل کا دورانیہ مختصر کر دیا۔ فیس بک یا ٹوئٹرز پیغامات چاہے جو بھی کہہ رہے ہوں، جس گھڑی وہ کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو اُن کے حامیوں کا ایک مختصر سا گروہ تمام کہانی بیان کر رہا تھا۔ بیرون ملک سے آنے والے کسی فرد کا استقبال کرنے والوںکی تعداد ان کے حامیوں، جو اُس دن ایئرپورٹ پر دیکھے گئے، سے زیادہ ہوتی ہے۔ اُس دن سے لے کر آج تک سابق آمر زوال کی گھاٹیاں اُتر رہے ہیں۔ تیزوتند اداریوں سے لے کر ہنگامہ خیز ٹی وی ٹاک شوز تک، تنقید کا ہر نشتر اُن کی طرف لپک رہا ہے اور انہیں عدالت کو بھی جواب دہ ہونا ہے۔ پرویز مشرف کو توقع تھی کہ وہ چاہنے والوں کے بڑے بڑے جلسوںسے خطاب کریںگے لیکن وہ ٹی وی چینلوں، جیسا کہ سی این این، پر کچھ اعترافات کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ اعتراف کہ اُنھوںنے خود امریکیوںکو ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی تھی، اُن کی دگرگوں پوزیشن کو مزید خراب کر دے گا، خاص طور پر اب جبکہ ملک میں انتخابات کا ماحول ہے اور اُن کو توقع تھی کہ وہ کوئی معرکہ مارتے ہوئے عزت بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب سوال پیداہوتا ہے کہ اُن کو اس سے مختلف ردعمل کی توقع کیوں تھی؟ انہوں نے بڑے فخر سے دعویٰ کیا کہ فیس بک پر اُن کے چاہنے والوں کی تعداد عمران خان کے چاہنے والوں سے کہیں زیادہ ہے تو وہ یہ حقیقت بھول گئے کہ اُن کے زیادہ تر حامی دیارِ غیر میں مقیم ہیں۔ اُن لوگوں نے مشرف کو ایک مخصوص سج دھج میں اس طرح دیکھا کہ وہ ان کو پُروقار شخص اور قوم کا مسیحا نظر آتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اُن کو نئے دور کا ایوب خان سمجھا۔ اگر انصاف کی عینک سے غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو 9/11 کے بعد جس طرح کا ماحول تھا، کسی بھی رہنما کے لیے امریکہ کی مخالفت کرنے کا یارا نہ ہوتا۔ ایک بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ اس سے پہلے ایٹمی دھماکوں اور پھر جنرل مشرف کی طرف سے ایک منتخب شدہ حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں پاکستان معاشی پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا اور اس کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ اُس وقت، خاص طور پر افغانستان پر امریکی حملے کے ابتدائی ایام میں، صدر مشرف نے بڑی ہوشیاری سے ڈیل کرتے ہوئے نہ صرف کچھ قرضے معاف کرا لیے بلکہ ملک کے لیے معاشی فوائد بھی حاصل کیے۔ ان اقدامات نے ہماری بے جان معیشت کی رگوں میں تازہ خون دوڑا دیا۔ اس کے بعد کئی سال تک ملک کی معیشت بہتری کی طرف گامزن رہی۔ اس نے درمیانے طبقے کو وسعت اور خوشحالی عطا کی۔ اس کے علاوہ یہ کریڈٹ بھی مشرف کو ہی جاتا ہے کہ اُنھوںنے نہ صرف اسمبلی میں خواتین کی نشستوں میں اضافہ کیا بلکہ اقلیتوںکے جداگانہ انتخابات کے لیے جنرل ضیاء کے بنائے گئے قوانین پر بھی نظر ِ ثانی کی۔ اب جبکہ مشرف پر الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے تو یہ کامیابیاں بھلا دی گئی ہیں۔ ایک اور حقیقت، چاہے ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ ہے کہ وہ بہرحال صدر ِ پاکستان رہے ہیں چنانچہ احترام کے حق دار ہیں۔ اگرچہ وہ کسی طور بھی قانون سے بالا تر نہیں لیکن جس طرح وکلا اُن کے ساتھ رویہ روا رکھے ہوئے ہیں اسے بھی مناسب نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ میں کچھ ریٹائرڈ جنرلوں کی طرف سے دبے لفظوں میں وارننگز بھی سن رہا ہوں اس کے باوجود مجھے اپنی عدلیہ پر یقین ہے کہ وہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرے گی۔ مشرف نے اپنے اقتدار میں اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ غلط رویہ اپنایا، جو آخرکار ان کے زوال کا باعث بنا، امید ہے کہ اس واقعہ کو دہرایا نہیں جائے گا۔ یہ بھی امید کی جانی چاہیے کہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے کرتے ہم اس کو کھیل تماشا نہیں بنا ڈالیں گے کیونکہ پہلے ہی دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ اس کے علاوہ جو الزامات اُن پر لگائے گئے ہیں، ان کی وجہ سے اُن کو انتخابی عمل سے دور رکھنا روا نہ ہو گا کیونکہ وہ ابھی الزامات ہیں، اُن پر ابھی عدالت کو فیصلہ کرنا ہے۔ اگر ان کو انتخابی عمل میں حصہ نہیں لینے دیا جاتا تو اُن کی غلط فہمی کیسے دور ہو گی کہ وہ ایک نہایت مقبول رہنما ہیں اور یہ کہ اگر وہ کسی انتخابی حلقے سے جیت گئے تو پھر اُن کو اُن ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ نشستوں پر بیٹھنا پڑے گا جن میں سے بہت سوں سے وہ نفرت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کو انتخابات لڑنے کا موقع دینا دراصل ہماری جمہوری روایات، جو برداشت سکھاتی ہیں، کو بھی تقویت دے گا۔ ایک اور بات سوچنے کی ہے کہ اگر چک شہزاد فارم ہائوس کو سب جیل قرار نہ دیا جاتا تو مشرف کہاں جاتے؟ چونکہ اُن کی زندگی کو بہت سے خطرات لاحق ہیں، لہٰذا انہیں جلد علم ہو جاتا کہ اُن کے وفادار دوست بھی ان کی خاطر طالبان کے غضب کا نشانہ بننے کو تیار نہیں۔ حالیہ دنوں میں اُن کے گھر کے باہر سے دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ایک گاڑی ملی۔ اس کا مطلب ہے کہ اُن کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اردگرد موجود اتنے حفاظتی حصاروں سے گزر کر وہ گاڑی اُن کے گھر کے پاس کیسے پہنچ گئی؟ کیا یہ محض اتفاقی غلطی تھی یا پھر اُن کی گرد حفاظت کا معیار ویسا ہی ہے جیسا ہم اکثر ایئرپورٹس اور دیگر حساس جگہوں پر دیکھتے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ٹھیک ہے کیونکہ محافظوںکے ہاتھ میں جو بارودی مواد چیک کرنے والے آلے دیکھنے میں آتے ہیں، وہ کام نہیں کریں گے کیونکہ ان کا فروخت کنندہ جم میک کورمک ہے، جس کی گرفتاری حال ہی میں برطانیہ میں عمل میں آئی ہے۔ اُس پر الزام ہے کہ اُس نے ناقص اور ناکارہ آلات فروخت کرتے ہوئے پچاس ملین پائونڈز کمائے۔ ان نقلی آلات، جن پر پندرہ پائونڈ سے زیادہ لاگت نہیں آئی تھی، کو 10,000 پائونڈ فی کس کی شرح سے فروخت کیا گیا۔ اس صورت حال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مشرف، جو کہ ایک سپاہی تھے، کو فخر رہا ہے کہ وہ تمام کام کسی نہ کسی حکمتِ عملی کے تحت کرتے ہیں اور حالات اُن کی گرفت میں رہتے ہیں۔ اب ملٹری سکولوں میں جو سب سے اہم سبق پڑھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کبھی بھی ایسی جنگ میں خود کو نہ الجھائو جہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہ ہو۔ اس وقت مشرف کے پاس فرار کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ان حالات سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ بین الاقوامی قوتیں مداخلت کریں۔ ہو سکتا ہے کہ دفاعی ادارے اپنے سابق چیف کی مدد کرنا چاہیں لیکن اُن کے پاس اس آگ میں ہاتھ ڈالنے کے لیے درکار سیاسی حمایت موجود نہیں۔ امریکہ بھڑوںکے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہے گا۔ تو پھر کون؟ اس بات سے قطعِ نظر کہ اب یہ معاملہ کس انجام کو پہنچے گا، مشرف نے واپس آ کر سنگین غلطی کی ہے‘ تاہم میرا نہیں خیال کہ اُنھوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved