تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-05-2019

اُڑ گئے بامِ تمنّا سے کبوتر کتنے!

جب سے عوام کا خراب مُوڈ دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کی گوشمالی کی ہے‘ تب سے عوام کے لیے مصیبت بڑھ گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان ایسے بیانات جاری کر رہے ہیں‘ جن میں انتباہ اور وعید کا تناسب ہلاکت خیز حد تک ہے۔ فیصل واوڈا نے عوام کے دل دہلانے کی اپنی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم نے وزیر اعظم کو مینڈیٹ اس لیے دیا کہ ''ڈاکوؤں‘‘ سے لُوٹ کا مال وصول کیا جائے۔ اور یہ کہ قوم 200 روپے فی لیٹر پٹرول تو برداشت کرلے گی‘ مگر یہ بات کبھی برداشت نہیں کرے گی کہ احتساب کا عمل رک جائے۔ مہمند ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آبی وسائل کے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 10 رمضان سے قبل کے ایم سی میں 400 تک ملازمتیں دی جائیں گی اور اس میں حکومت کا کچھ خرچ نہیں ہوگا۔ 
سیاسی یا معاشی محاذ پر کسی بڑے معرکے کی بات ہو تو عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے پہلے سے تیاری کی جانی چاہیے۔ اُنہیں سَر پر کفن باندھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش لازم ہے۔ یک طرفہ طور پر یہ اعلان نہیں کیا جاسکتا کہ عوام نے سَر پر کفن باندھ لیا ہے۔ قومی معیشت کی بحالی کے لیے خدا جانے کیا کیا سوچا جارہا ہے‘ نہ جانے کیسی کیسی تکڑم لڑائی جارہی ہے‘ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے عوام سے اُن کی مرضی معلوم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ قوم کی طرف سے بہت سے اعلانات کردیئے جاتے ہیں اور یہ تک نہیں سوچا جاتا کہ اُس کے دل پر کیا گزرے گی۔ فیصل واوڈا نے مزے سے کہہ دیا کہ یہ قوم 200 روپے فی لیٹر پٹرول برداشت کرلے گی ‘مگر احتسابی عمل کا روکا جانا برداشت نہیں کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ احتسابی عمل کا پٹرولیم مصنوعات کے نرخوںسے کیا تعلق ہے۔ احتساب ریاستی مشینری کو کرنا ہے‘ جو لوگ قوم کی دولت کو شیرِ مادر سمجھ کر پی گئے ہیں‘ اُن سے وصولی کرکے قومی خزانے کو مضبوط بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ بات گھوم پھر کر عوام کی طرف کیوں آجاتی ہے؟ جب بھی قربانی دینے کا سوال اٹھتا ہے‘ بڑوں میں سے ہر ایک کی نظر عوام کی طرف کیوں اٹھتی ہے؟ برق گِرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ہی کیوں؟ اسی کو تو کہتے ہیں؛ مرے کو مارے شاہ مدار! 
قوم کے نام پر بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانیوں سے زیادہ باصلاحیت اور جوش و خروش سے بھرپور قوم دنیا میں نہیں۔ کبھی قوم کی مرضی جانے بغیر ہی یہ دعویٰ کردیا جاتا ہے کہ وہ (یعنی قوم) چاہے تو چاند‘ تارے توڑ لائے۔ قوم کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ دو وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے انتظام و اہتمام بھی اُس کے لیے جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے دنیا کو بدل دینے کے دعوے استحقاق سے کچھ زیادہ اور زمینی حقیقتوں سے بہت دور کا معاملہ ہیں۔ 
پٹرول کے نرخ میں 8 روپے کے اضافے کی منظوری دیئے جانے کی خبر آئی تو عوام کے دل دَہل کر رہ گئے۔ کسی کے وہم و گمان اور خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ماہِ صیام کی آمد پر حکومت کی طرف سے اِس قسم کا ''تحفہ‘‘ دینے کا بھی سوچا جائے گا! 
قوم کے حواس پر چھائی ہوئی حیرت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایسا بہت کچھ ہے کہ دیکھ دیکھ کر‘ سُن سُن کر حیرانی نہیں جاتی۔ جائے بھی کیسے؟ یاروں نے اہتمام ہی ایسا کیا ہے۔ اِدھر سے نہلا آتا ہے‘ تو اُدھر سے دہلا۔ حکومتی (ریاستی نہیں) مشینری کا ہر پُرزہ کچھ اِس انداز کا ہے کہ: ع
ایں خانہ ہمہ آفتاب است 
والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کے قریب ترین رفقائے کار بیان بازی‘ جوابی الزامات اور وعدہ و دعویٰ کی میزان پر پورے اترنے کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو مقابلہ ہمیشہ پسند رہا ہے۔ وہ سپورٹس مین ہیں اور وہ سپورٹس مین ہی کیا ‘جو مسابقت کے جذبے سے سرشار نہ رہتا ہو‘ مگر اپنی ہی صفوں میں مسابقت؟ یہ تو ''سیلف گول‘‘ کی منزل کی طرف بڑھنے والا معاملہ ہوا...! 
کوئی ‘اگر بے حواس ٹھہرے‘ یعنی سمجھ میں کچھ بھی نہ آرہا ہو‘ تو دوسروں کی سمجھ میں بہت کچھ آنے لگتا ہے۔ اس وقت یہی کیفیت وفاقی کابینہ کے ارکان کی ہے۔ حکومتی پالیسی اور پارٹی لائن خواہ کچھ ہو‘ سب اپنی مرضی کی زبان بول رہے ہیں۔ ''کبھی بھی‘ کہیں‘ کچھ بھی‘‘ کے اُصول کی بنیاد پر پوری کوشش کی جارہی ہے کہ اپنے بیانات سے قوم کی حیرانی و پریشانی کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ جب مقصد قوم کو حیران و پریشان رکھنا ہو تو حکومتی پالیسی یا پارٹی لائن کون دیکھتا ہے۔ 
عوام شدید معاشی مسائل کی دلدل میں گلے تک پھنسے اور دھنسے ہوئے ہیں۔ اُنہیں بچنے کی راہ چاہیے۔ یہ راہ حکومت کو نکالنی ہے اور وفاقی کابینہ کے ارکان کا یہ حال ہے کہ عوام کو دِلاسا دینے کی بجائے اُن سے مزید قربانی کا مطالبہ کر رہے ہیں! یہ تو ایسی ہی بات ہوئی کہ کوئی تیز لہروں کی نذر ہو رہا ہو اور اُسے بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے کہا جائے کہ کسی طرح وہ کپڑے اُتار کر کنارے کی طرف پھینک دے ‘یعنی کپڑوں سمیت نہ ڈوبے‘ تاکہ کپڑے کسی کے کام آجائیں! عوام سے بھی کچھ ایسا ہی کہا جارہا ہے۔ وہ ریلیف چاہتے ہیں ‘مگر ریلیف دینا تو رہا ایک طرف‘ اُنہیں مزید grill کرنے کی تیاری کی جارہی ہے! 
یہ کہاوت تو آپ نے بھی سُنی ہوگی کہ بندہ گُڑ دے نہ دے‘ گُڑ جیسی میٹھی بات تو کرے۔ اس وقت قوم کو گُڑ چاہیے۔ ایسے میں گُڑ ملے نہ ملے‘ گُڑ جیسی بات ضرور کہی جانی چاہیے: بقول شاعر ؎ 
وفا کریں نہ کریں‘ وعدہ وفا تو کریں 
کہ زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ تو آس رہے 
قوم کی آرزوؤں اور اُمیدوں کا سٹاک بھی گھٹتا جارہا ہے۔ جہاں ساری جدوجہد سمٹ کر دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے تک محدود ہوجائے ‘وہاں کیسی آرزو اور کیسی اُمنگ۔ محترم شاعر العصر ظفرؔ اقبال کا پھڑکتا ہوا مطلع ہے ؎ 
دیکھتے دیکھتے ویراں ہوئے منظر کتنے 
اُڑ گئے بامِ تمنّا سے کبوتر کتنے 
قوم کا بامِ تمنّا بھی کبوتروں سے خالی ہوتا جارہا ہے۔ جو تھوڑے بہت اور جیسے تیسے ''تمنّائی کبوتر‘‘ رہ گئے ہیں‘ اُنہی کو حکومت کماحقہ باجرہ ڈالتی رہے تو کمال گردانیے‘ مگر ایسا بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بظاہر کسی کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ قوم کے بامِ تمنّا پر جو تھوڑ بہت کبوتر رہ گئے ہیں ‘وہ نہ اُڑیں‘ یہ بام ویران نہ ہو۔ 
وزیر اعظم اور کچھ کریں نہ کریں‘ اتنا اہتمام ضرور کریں کہ اُن کی کابینہ کے ارکان مزید قربانیوں کی بات کرکے عوام کے دِل نہ دہلائیں۔ عوام کا یہ حال ہے کہ ؎ 
یہی کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں 
اب چل دیئے ہیں‘ وہ اب آ رہے ہیں 
اور ادھر وفاقی وزراء اور مشیران و معاونین شاید سوچ کر عوام کے مسائل حل کرنے سے گریزاں رہتے ہیں کہ ع
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی 
الغرض 200 روپے فی لیٹر کے نرخ کا پٹرول بھی برداشت کرنے کی بات کرکے عوام کی حالتِ سکتہ کو مزید طُول نہ دیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved