اسلام آباد کے کچنار پارک پر شام دھیرے دھیرے اتر رہی ہے‘ درخت شام کی سرخ ‘نارنجی روشنیوں میں نہا رہے ہیں۔ عام طور پر میں سورج نکلنے سے پہلے یہاں آتا ہوں۔اس پارک کی ایک الگ دنیا ہے‘ نوجوان‘ مرد ‘ عورتیں‘ بچے سب اپنی دھن میں ٹریک پررواں دواں ہوتے ہیں۔ کچھ تیز قدم اور کچھ آہستہ خرام ۔آج کل بہار کا موسم ہے اور درخت اپنے ہی پتوں کے جھرمٹ میںچھپ گئے ہیں ۔ شہتوت کے درختو ں کی ٹہنیاںسیاہ رسیلے شہتوتوں سے لد گئی ہیں ۔صبح کی ہوا کا اپنا سحر ہے ‘جس کی پکار پر لوگ کھنچے آتے ہیں۔
لیکن آج سب کچھ معمول سے مختلف ہوا ۔آج چھٹی کا دن تھااور میں سوتا رہ گیا۔شام ہونے لگی تو کچنار پارک کا جادو مجھے اپنی طرف بلانے لگا اور میں اس کی طرف کھنچتا گیا۔ پارک میں وہی گہما گہمی تھی لیکن چہرے مختلف تھے ۔میں ٹریک پر چلتا چلتا ایک کونے میںپڑے لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا ۔بینچ کے اوپر بلندوبالا باڑ نے گھنے پتوں کی چھت بنا رکھی تھی۔ یہیں بیٹھے بیٹھے میں نے پارک پر نگاہ ڈالی جہاں شام دھیرے دھیرے اتر رہی تھی۔ سورج کی واپسی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا ۔ مجھے شکیب جلالی یاد آگئے انہی کا شعر ہے :
مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
اسلا م آباد کے کچنار پارک میں لکڑی کے بینچ پربیٹھے بیٹھے مجھے مانچسٹر کی وہ شام یادآگئی جب میں اورراج ایک پارک میں لکڑی کے بینچ پربیٹھے تھے۔ میں ان دنوں یونیورسٹی آف مانچسٹرمیں پڑھ رہاتھا۔راج اسی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتاتھا۔ اس کاتعلق سائو تھ انڈیا سے تھا۔ سانولاچہرہ اور اس پربڑی بڑی خوبصورت آنکھیں جن میں اداسی کا بے نام سا رنگ تھا۔ راج سے میرا تعارف ایک سیمینارمیں ہواتھا جس میں راج نے سوشل تھیوری پر لیکچردیاتھا۔ سوشل تھیوری میر ا پسندیدہ مضمون تھا اور راج کا اندازِ بیان مسحور کن تھا۔ اس کے بعد ہماری دوستی ہوگئی۔وہ مجھ سے سے تقریباً دس سال بڑا تھا۔ ہم جب ملتے اپنی زبان میں گفتگوکرتے جسے وہ ہندی او رمیں اردو کہتا تھا۔اکثرشام کوکبھی کبھی ہم رش ہو م سٹریٹ چلے جاتے‘ جہاں پاکستانیوں کی دکانیں تھیں‘ کبھی کبھار یہاں کے آرنڈیل شاپنگ سنٹرکا چکرلگاتے ۔ چلتے پھرتے ہم ہر موضوع پر گفتگوکرتے۔ مجھے اعتراف ہے کہ سوشل تھیوری کے حوالے سے میں نے راج سے جتنا سیکھا شاید بہت سی کتابیں پڑھنے کے بعد بھی پتہ نہ چلتا۔کبھی کبھی اس کے گھرمیں محفل لگتی ‘اس کے ہاں ہمیشہ دال چاول کاڈنرہوتا۔ اس کے گھرمیں ہرطرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ میںجب پہلی بار اس کے گھرگیاتو اس کی سائیڈ ٹیبل پر لکڑی کے فریم میں ایک تصویر تھی ۔ ایک مسکراتی ہوئی لڑکی کی تصویر جس کی بڑی بڑی آنکھوںمیں ایک عجیب سی کشش تھی۔ اس کی پیشانی پرسیاہ رنگ کی بندیا تھی اور اس کے سلیقے سے ترشے ہوئے بال اس کے کندھوں تک آرہے تھے۔میں نے راج سے پوچھا: یہ کس کی تصویر ہے ؟ راج نے میری طرف دیکھے بغیر کہا: تم پاکستان کب جارہے ہو؟میںنے کہا: بتایاتو تھا کہ ستمبرمیں واپسی ہے۔ راج چونک کربولا: اوہ صرف ایک ہفتے بعد؟ میںنے کہا: میں تو دن گن رہاہوں کب واپس اپنے وطن جائوں گا۔ اس روز میں ہاسٹل آیاتواچانک وہ تصویر میرے سامنے آگئی‘ مسکراتی ہوئی لڑکی کی تصویر جس کی پیشانی پرسیاہ رنگ کی بندیا تھی۔پتہ نہیں کیوں راج میرے سوال کوٹال گیاتھا ۔ اور پھر وہ اتوار کی شام تھی جب میں اور راج آخری بار ملے ۔اس روز بھی ہم ہمیشہ کی طرح وٹ ورتھ پارک کا چکرلگاکر ایک لکڑی کے بینچ پربیٹھ گئے تھے۔ راج بولا: کل تم واپس جارہے ہو؟میں نے کہا: ہاں۔ راج نے مجھے اورپھر ڈوبتے سورج کودیکھا اور بولا: سنو اس روز تم نے میرے کمرے میں سائیڈ ٹیبل پررکھی تصویر کے بارے میں پوچھاتھا‘ میںنے کہا:ہاں اورتم ٹال گئے تھے۔ راج کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی‘ کہا:کل تم جارہے ہو‘ آج میں تمہیں بتائوں گا وہ لڑکی کون ہے۔اس کانام پاروتی تھا ‘وہ کالج میں مجھ سے جونیئرتھی ‘اس میںکوئی خاص بات تھی جواسے سب سے ممتاز کرتی تھی۔ اس کی آنکھیں ہنستیں تو لگتا تھا اس کے ماتھے کی بندیا بھی ہنس رہی ہے۔ ایک روز میں کالج کیفے ٹیریامیں بیٹھا چائے پی رہاتھا کہ اچانک وہ میرے سامنے والی کرسی پر آکربیٹھ گئی۔وہی مسکراتی ہوئی آنکھیں اور پیشانی پر کھلکھلاتی بندیا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ بولی: سناہے سوشل تھیوری آپ کا پسندیدہ مضمون ہے؟میرا تھیسس تعلیم‘ عدم مساوات اورلائف سائنسز کے حوالے سے ہے‘ کیاآپ میری مددکرسکتے ہیں؟ اس کے بعد تقریباً چھ ہفتے تک مجھے یوں لگا اس کاتھیس میں کررہاہوں۔ کارل مارکس ‘ میکس ویبر اور بورڈیوسب اس کے تھیسس کاحصہ بن گئے۔پاروتی اکثر کہتی :اگر آپ میرا ساتھ نہ دیتے تو میںیہ تھیس کبھی نہ کر سکتی ۔ جب میرا تھیس ڈیفنس ہوگا‘ کامیابی کی خبر سب سے پہلے آپ کودوں گی‘ آپ کے گھر آ کر۔جس دن پاروتی کا ڈیفنس تھامیں صبح ہی سے اس کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ اپنی کامیابی کی خبر لائے گی۔دن ڈھل گیا‘شام آگئی لیکن پاروتی کا کچھ پتہ نہ تھا۔پھر اگلادن بھی گزر گیا لیکن پاروتی نہ آئی‘ اتنا پتا چلا کہ اسے ڈیفنس میں کامیابی مل گئی تھی۔ رات کو اس نے اپنے کچھ دوستوں کو ڈنر پر بلایا تھا اور اگلے روز وہ ایک ماہ کیلئے شملہ چلی گئی ۔ مجھے یوں لگا کہ میں اور پاروتی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے سمندر کے سفر پر نکلے تھے۔ یہ امیدوں‘ مایوسیوں‘ حیرتوں اور کامیابیوں کا سفر تھا حتیٰ کہ وہ کنارہ آ گیا جس کی دوسری طرف روشنیاں تھیں ۔وہ میرا ہاتھ چھڑا کر کنارے پر اتر گئی تھی‘ اب واپسی کا طویل سفر مجھے تنہا کرنا تھا۔اسی دوران مجھے مانچسٹر یونیورسٹی میں سکالرشپ مل گیا‘ جہاں میں نے پی ایچ ڈی کی۔ کلاس میں پہلی پوزیشن آنے پر مجھے یہیں ٹیچنگ اسائنمنٹ مل گئی۔ تب سے اب تک میں یہیں ہوں۔میں اب بھی سوچتا ہوں پاورتی نے ایسا کیوں کیا؟وعدہ کر کے کیوں نہ آئی ؟
میں راج کی کہانی سننے میں اتنا محو تھا کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔اب ہر طرف اندھیرا پھیل رہا تھا‘ ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے میں نے راج سے آخری بار ہاتھ ملاتے ہوئے کہا: راج کیا تم اب بھی ناراض ہوکہ پاروتی نے اپنا وعدہ کیوں پورا نہیں کیا؟ راج نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا: بعض اوقات وعدہ پورا کرنے میں دیر ہو جاتی ہے۔اس روز رات کی تاریکی میں اپنے ہاسٹل کی طرف جاتے ہوئے مجھے احمد فراز کی نظم ــ ''واپسی‘‘ یاد آنے لگی۔اس نے کہا/سُن/عہد نبھانے کی خاطر مت آنا /عہد نبھانے والے اکثر/مجبوری یا مہجوری کی تھکن سے لوٹا کرتے ہیں/تم جائو/اور دریا دریا پیاس بجھائو/جن آنکھوں میں ڈُوبو/جس دِل میں بھی اُترو/میری طلب آواز نہ دے گی/لیکن جب میری چاہت/اور میری خواہش کی لَو/اتنی تیز اور اتنی اُونچی ہو جائے/جب دل رودے/تب لوٹ آنا۔
آج کتنے برس بعد اسلام آباد کے کچنار پارک میں لکڑی کے بینچ پر بیٹھے نجانے کیوں مجھے مانچسٹر کی وہ شام یاد آگئی جب سورج واپسی کا سفر طے کر رہا تھا اور وٹ ورتھ پارک میں لکڑی کے ایک بینچ پر میں اور راج بیٹھے تھے۔ راج جس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں بے نام اداسی کا رنگ تھا اور تصویر میں مسکراتی ہوئی وہ لڑکی جس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش تھی‘ جس کی پیشانی پر سیاہ رنگ کی بندیا تھی ‘ جس کے بھورے رنگ کے ترشے ہوئے بال اس کے کندھوں تک آ رہے تھے اور جو ایک وعدہ کر کے بھول گئی تھی۔