تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-05-2019

آئی ایم ایف کا تحصیلدار ریکوری اور 92کاورلڈ کپ

اتفاقات تو بس اتفاقات ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی عقلی یا منطقی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ ایک خاتون ایسے ہی اتفاقات بارے بتا رہی تھی اور ان اتفاقات میں وہ اتفاقی مصیبتوں بارے بتا رہی تھی اور جیسا کہ ولیم شیکسپیئر کا مشہور قول ہے کہ When sorrows come,they come not single spies, but in battalions۔یعنی مصیبتیں کبھی تنہا نہیں ‘بلکہ وہ جتھوں کی صورت میں آتی ہیں۔ وہ خاتون بھی ایسی ہی صورتحال کے بارے میں بتا رہی تھی۔ کہنے لگی: سچ کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ ا ب دیکھو! پرسوں میرا خاوند فوت ہوا اور کل میری کڑھائی والی سوئی گم ہو گئی۔
تاہم جن اتفاقات کا میںذکر کر رہا ہوں‘ وہ سب کے سب مصیبتوں کے بارے میں نہیں ہیں۔ مثلاً چار دن پہلے چیئرمین نیب ملتان آئے اور پرسوں مجھے چوہدری بھکن مل گیا۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ کس قسم کے اتفاقات ہیں؟ لیکن آپ کچھ بھی کہیں۔ اتفاقات بہرحال ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پانچ سات دن پہلے زرداری صاحب نے کہا کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ زرداری صاحب کی اس سے ڈھکے چھپے الفاظ میں مراد تھی کہ یہ ادارہ اور کرپشن ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں ‘جیسا کہ پہلے چلتے رہے ہیں ‘لیکن موجودہ صورتحال میں نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس کے دو تین دن بعد چیئرمین ملتان آئے تو انہوں نے فرمایا کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں‘ لیکن نیب اور کرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
اگلے روز اتفاقاً چوہدری بھکن مل گیا۔ کہنے لگا کہ میں بڑا کنفیوز ہوں۔
میں نے کہا :چوہدری اللہ خیر کرے کہ تیرے جیسا بندہ بھی جو صرف اور صرف لوگوں کوکنفیوزکرنے کے لیے روئے ارض پر آیا ہے‘ خود کنفیوز ہے‘ یہ تو قرب قیامت کی نشانیاں ہیں۔
چوہدری کہنے لگا: میں مذاق نہیں کر رہا‘ بلکہ سیریس ہوں۔ میں نے کہا: خیر یہ اور حیران کن بات ہے‘ لیکن فی الحال تم ذرا اپنے کنفیوژن کی بات بتاؤ کہ کس چیز نے تمہیں کنفیوز کر رکھا ہے۔ وہ بتانے لگا کہ میں نے آصف علی زرداری اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے بیانات پڑھے اور ان کو پڑھنے کے بعد میں نے یہ عقدہ حل کرنے کی غرض سے ایک حسابی فارمولے کے تحت Equation یعنی مساوات بنائی تھی اور اسی مساوات نے مجھے کنفیوز کر دیا ہے۔ اس مساوات میں تین عوامل ہیں۔ نیب‘ کرپشن اور معیشت۔ اب ہم نیب کو A کرپشن کو Bاور معیشت کو Cتصور کرلیں تو زرداری کے حساب سے اس مساوات کا نتیجہ یوں نکلتا ہے۔
A‡C
A=B
تو اس حساب سے جواب آتا ہے کہ C‡Bکرپشن برابر نہیں ہے۔معیشت کے ‘یعنی کرپشن اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
دوسری طرف چیئرمین نیب کے بیان سے مساوات بناؤں تو یہ بنتی ہے:
A‡B
A=C
ادھر بھی یہی جواب آتا ہے کہ B‡C‘یعنی کرپشن اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ حسابی قاعدے سے دونوں کا جواب ایک نکلتا ہے‘ لیکن موقف دونوں کا ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اور ڈیمانڈ بھی ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہے۔ اب میں کنفیوز ہوں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے‘ کیونکہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ حساب کبھی غلط نہیں کہتا۔ میں نے کہا :چوہدری مجھے تو پتا ہے کہ میرا حساب بالکل خراب ہے اور میں اس مضمون میں سدا سے کورا ہوں اور خیر سے تمہارے حساب کے بارے میں مجھے اتنا پتا ہے کہ تم نے کسی سے پیسے لینے ہوں تو تمہارا حساب سو فیصد سے بھی زیادہ ٹھیک ہوتا ہے اور اگر معاملہ الٹ ہو تو تمہارا حساب میرے سے بھی بدتر ہوتا ہے۔
اب مجھے کیا پتا کہ تم نے اس مساوات کو کس طرح حل کیا ہے؟ چوہدری کہنے لگا: ابھی میرا حساب ختم نہیں ہوا چل رہا ہے۔ ایک بات مشہور ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ بقول زرداری صاحب نیب معیشت کا دشمن ہے اور بقول چیئرمین نیب کے نیب کرپشن کا دشمن ہے‘ یعنی نیب دونوں مساوات کی رو سے کرپشن اور معیشت کا دشمنی ہے اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس حساب سے کرپشن اور معیشت آپس میں دوست ہوئے۔ 
ویسے یہ مساوات ہے ٹھیک۔ اب تم خود دیکھو گزشتہ دونوں حکومتیں ‘یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اسی فارمولے کے تحت چل رہی تھیں اور معاملات بظاہر لوگوں کو ٹھیک نظر آ رہے تھے۔ زرداری صاحب کے پیسے فالودے والے کے ذریعے دبئی اور شہباز شریف کے پیسے بقول ان کے نامعلوم لوگوںکے ذریعے ان کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو رہے تھے۔ اسحاق ڈار کے دبئی میں ٹاور بن رہے تھے اور وہ لکھ پتی سے ارب پتی بن رہا تھا۔ زرداری کراچی کے ایک تھکے ہوئے سینما کی ملکیت سے بڑھ کر سندھ کی آدھی شوگر ملوں کے مالک بن رہے تھے اور آئی ایم ایف اس طرح ذلیل بھی نہیںکر رہا تھا اورنج ٹرین اور میٹرو منصوبے بھی بڑے مزے سے بن رہے تھے۔ موٹرویز کی تعمیر بھی زور و شور سے جاری تھی اور تحصیلدار ریکوری بھی نہیں آیا تھا۔
میں نے حیرانی سے کہا: یہ تحصیلدار ریکوری کون ہے؟ چوہدری زور سے ہنسا اور کہنے لگا یہ اپنے ڈاکٹر رضا باقر صاحب کون ہیں؟ میں نے کہا: نئے گورنر سٹیٹ بینک ہیں اور کون ہیں۔ چوہدری کہنے لگا :دراصل ان کا اصل کام تو ریکوری ہے اور وہ اسی مشن پر ادھر آئے ہیں‘ تاہم ان کی عزت افزائی کے لیے ان کو گورنر سٹیٹ بینک کا نام دے دیا گیا ہے۔ ادھر آئی ایم ایف نے ابھی ہمیں نیا قرضہ دیا بھی نہیں اور ادھر ان کا باقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہمارے ہاں خزانہ دار بنا دیا گیا ہے ‘تاکہ وہ تازہ تازہ وصولیاں اپنی نگرانی میں براہ راست اپنے آقائے ولی نعمت آئی ایم ایف کو بحفاظت بھجوا سکے اور ہمارے حکمران اس وصول شدہ پیسے کو کہیں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہ کر دیں۔ گزشتہ والے قرضوں کی وصولی کے لئے انہوں نے اب ہمارے حکمرانوں پر اعتبار کرنے کے بجائے اپنا بندہ براہ راست وصولیوں اور ان وصولیوں کو ادائیگیاں کرنے پر مامور کر دیا ہے۔ جیسے ایک خاتون نے اپنے شوہر کے دفتر کوخط لکھا کہ یہ میرا بینک اکاؤنٹ ہے۔ اگلے ماہ سے میرے شوہر کی تنخواہ براہ راست میرے اکاؤنٹ میں بھجوا دیا کریں۔ اب یہ درمیانی واسطہ ختم ہو جانا چاہیے۔
اگر یہ گورنر نواز شریف نے لگایا ہوتا تو عمران خان اب تک کنٹینر پر چڑھ چکے ہوتے اور ریاستی بینک کو براہ راست آئی ایم ایف کے حوالے کرنے پر حکمرانوں پر کم سے کم بھی غداری کا الزام تو لگا ہی چکے ہوتے۔ یہ پاکستان کی پہلی منتخب حکومت ہے جس نے غیر منتخب وزیروں‘ مشیروں اور خصوصی معاونین کا ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔
چوہدری کہنے لگا: وہ فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو لوگ پٹرول کے لیے 200روپے ادا کریں گے۔ اب پٹرول صرف 108روپے فی لٹر ہوا ہے‘ یعنی ابھی بھی عوام کو حکومت نے اپنے حساب سے 92روپے کا ریلیف دیا ہے۔ تمہیں پتا ہے یہ 92کا ہندسہ کیا ہے؟
میں نے لاعلمی میں سر ہلایا۔
چوہدری کہنے لگا: یہ 92کے ورلڈ کپ کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved