تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     07-05-2019

کاپی پیسٹ سسٹم

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی طرف سے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 ء پر دستخط ہونے کے بعد صوبے میں بلدیاتی اداروں کا نیا قانون نافذ العمل ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ہی صوبہ بھر میں تمام بلدیاتی ادارے تحلیل ہو گئے ہیں اور ان کے اثاثوں کی دیکھ بھال اور انتظام و انصرام کیلئے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ گورنر پنجاب نے دعویٰ کیا ہے کہ نیا بلدیاتی قانون صوبے میں پہلی مرتبہ عوام کو درپیش بنیادی مسائل کے حل میں مدد دے اور جمہوریت کو تقویت دے گا۔ اس مقصد کیلئے 40ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی۔ لیکن سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مختلف سٹیک ہولڈرز کی طرف سے اس نئے قانون کی جس طرح مخالفت کی گئی ہے؛حتیٰ کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی ایک اہم حلیف جماعت‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بھی اس کی کھل کر مخالفت کی ہے‘ اس کے پیش نظر اس قانون کی حیثیت متنازعہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
ایک یہ کہ نئے قانون کو لانے سے قبل صوبہ پنجاب میں بلدیاتی ادارے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت کام کر رہے تھے اور اگر ہم یکم جنوری 2017ء سے ان اداروں کی مدت کا تعین کریں‘ کیوں کہ عملی طور پر انہوں نے اپنا کام اُس تاریخ سے شروع کیا تھا‘ تو ابھی ان کی مدت میں قریباً ڈھائی سال کا عرصہ باقی تھا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بعد‘ بلدیاتی ادارے واحد ادارے ہیں جن کے انتخابات براہ راست رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں‘ اسی لئے ان اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے‘ لیکن اگر ان اداروں کو اُن کی مدت سے قبل ہی تحلیل کر دیا جائے اور ان کے جمہوری طریقے سے منتخب ہزاروں نمائندوں کو مدت ختم ہونے سے پہلے ہی گھر بھیج دیا جائے تو ہم گورنر پنجاب کے اس دعوے کو کیسے قبول کر لیں کہ نئے قانون سے صوبے میں جمہوریت مستحکم ہوگی‘ جس طرح ماضی میں آٹھویں آئینی ترمیم یا براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے اسمبلیوں کو برخاست کیا جاتا رہا ہے۔ ویسے ہی ایک نئے قانون کا سہارا لے کر پہلے سے فنکشنل اداروں کی چھٹی کروا دی گئی ہے اور 60ہزار کے قریب وہ کونسلرز جنہوں نے محنت سے اور سرمایہ لگا کر انتخابات جیت کر یہ نشستیں حاصل کی تھیں‘ گھر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
گورنر پنجاب سے پوچھا جائے کہ کیا آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1988‘ 1990‘ 1993 اور پھر 1996میں اسمبلیوں کو بعض حالتوں میں آدھی سے بھی کم ہوئیں پوری کرنے سے قبل تحلیل کیا جاتا رہا ہے تو کیا ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوئی تھیں یا کھوکھلی‘ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی تلوار سے صوبے میں پہلے سے موجود اور جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے اداروں کو اُس وقت تہ تیغ کرنے سے جبکہ انہوں نے اپنی آدھی قانونی مدت بھی پوری نہیں کی تھی‘ جمہوریت کو کیسے تقویت ملے گی؟ اسی طرح اُن کا یہ دعویٰ بھی کھوکھلا ہے کہ نئے ایکٹ کے تحت قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں کے قیام سے عوام کے کمزور اور عدم توجہی کے شکار طبقات یعنی عورتوں اور نوجوانوں کو بااختیار ہونے کا موقعہ ملے گا کیونکہ نئے ایکٹ میں عورتوں کی نمائندگی کم کر دی گئی ہے اور نوجوانوں (youth)کا تو کوئی ذکر نہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کے آدھے حصے پر مشتمل ہے اور موخر الذکر کی تعداد ہماری آبادی کے دو تہائی حصے سے بھی زیادہ ہے۔
سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے ''نیا پاکستان‘‘ کے تصور میں ان دونوں طبقات یعنی عورتوں اور نوجوانوں کو زندگی کی دوڑ میں آگے لانے پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن سیاسی عمل کے پہلے مرحلے یعنی بلدیاتی اداروں میں ان طبقات کی نمائندگی کو محدود کر کے جمہوریت کی کون سی خدمت کی جا سکتی ہے؟ اسی طرح انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے کیلئے کم از کم کمر (18سے 25برس) کی حد میں اضافہ کرنے سے 18سے 25برس کے لاکھوں نوجوان مرد اور عورتوں کو بلدیاتی اداروں کے ذریعے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ تو نوجوانوں کو بااختیار ہونے کا موقعہ ملا ہے اور نہ ہی جمہوریت کو تقویت حاصل ہوئی ہے حالانکہ تمام دنیا میں بلدیاتی اداروں کی سطح پر نوجوانوں کی شرکت کو سہل بنا کر سیاسی عمل میں نئے خون اور صحت مند رحجانات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ نئے قانون سے نہ صرف مقامی سطح پر جمہوری عمل کمزور ہوگا بلکہ قومی سطح پر بھی نمائندہ جمہوریت کے اداروں کو نقصان پہنچے گا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے دیگر کئی اقدامات سے بھی نمائندہ جمہوریت کے اداروں کی بنیادیں کمزور ہو رہی ہیں۔ ان میں غیر منتخب ٹیکنو کریٹ حضرات کو نہ صرف وفاقی کابینہ کا حصہ بنانا بلکہ انہیں منتخب وزرا کے مقابلے میں غیر معمولی اختیارات کا مالک بنانا بھی شامل ہے۔ بلدیاتی اداروں کے نئے قانون کے تحت نوکر شاہی کو منتخب نمائندگان کے مقابلے میں زیادہ اختیارات دینا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے مثلاً ویلج اور نیبر ہُڈ (Village and neighbour hood) کونسلوں کی مانیٹرنگ کیلئے ایسے لوکل بورڈ تشکیل دیئے گئے ہیں ‘جن میں غیر منتخب اور نامزد افراد ہوں گے اور ان کے پاس ان کونسلوں کی تحیل کے اختیارات ہوں گے۔ 
ایکٹ کے ناقدین کی رائے کے مطابق؛ نئے ایکٹ کو نافذ کرنے کا مقصد لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو فعال بنانے سے زیادہ پرانے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا زیادہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ تحلیل ہونے والے اداروں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حامی ارکان کی تعداد زیادہ تھی۔ بل کو جس طرح عجلت میں اسمبلی سے منظور کروایا گیا‘ حتیٰ کہ اپوزیشن کو ترامیم پیش کرنے کا بھی وقت نہیں دیا گیا‘ اس سے اپنی رائے کی تصدیق ہوتی ہے۔ پرانے نظام کے تحت قائم شدہ ادارے تو کافی عرصہ سے مفلوچ چلے آ رہے تھے کیونکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اُن کے فنڈز روک دیئے تھے۔ اب اداروں کی جگہ ایڈمنسٹریٹر تمام اختیارات جن میں فنڈز کا استعمال بھی شامل ہے‘ استعمال کریں گے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ یہ فنڈز صوبائی حکومت کی مرضی کے مطابق خرچ ہوں گے۔ اسی سے مقامی حکومت کے ادارے تو مستفید ہونے سے رہے البتہ ان کے فنڈز سے برسر اقتدار پارٹی کے سیاسی مفادات مزید پروان چڑھیں گے۔ اسی لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایکٹ خالصتاً سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے لاگو کیا گیا ہے اور چونکہ برسراقتدار پارٹی کو اس میں بہت جلدی تھی اس لئے نئے ایکٹ کی تشکیل میں وہ محنت‘ توجہ اور وقت صرف نہیں کیا گیا جو کہ ایک بہتر نظام کو متعارف کروانے کیلئے ضروری ہے بلکہ کچھ حصے بھارت کے پنچایتی نظام سے‘ کچھ حصے پرانے نظام سے اور کچھ حصے خیبر پختون خواہ میں رائج نظام سے شامل کر کے ایکٹ 2019ء کو چوں چوں کا مربعہ بنا دیا گیا ہے ؛حالانکہ اس میں موجود تضادات اور ابہام کو اسمبلی میں بحث کا موقعہ دے کر دور کیا جا سکتا تھا لیکن سپیکر صوبائی اسمبلی کو اس بل کے منظور کروانے میں اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے حزب مخالف کے احتجاج کے باوجود اسے ایک معمولی اکثریت سے پاس کروا لیا اور گورنر نے بھی بغیر کسی تاخیر کے اس پر دستخط کر کے اسے ایک قانون کی شکل دے دی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس ایکٹ کو نافذ کر کے لوکل گورنمنٹ کے شعبے میں کوئی نئی روایت قائم نہیں کی‘ بلکہ پرانی روایات کو ہی جاری رکھا ہے جن کے تحت انگریزوں سے لے کر جنرل مشرف تک ہر حکومت نے اس کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے جب انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں یہ نظام قائم کیا تو ان کا مقصد قومی سطح پر ایک سیاسی قیادت کو اُبھرنے سے روکنا تھا۔ ایوب خاں نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام قائم کر کے اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی‘ جنرل ضیا اس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کا پتہ کاٹتا چاہتے تھے‘ مشرف کا مقصد صوبوں کی خود مختاری پر ضرب لگانا تھا‘ اور پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اس کے ذریعے نمائندہ جمہوریت کی جڑیں کمزور کرنا چاہتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved