تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     07-05-2019

ماہِ رمضان میں بندۂ مومن کے معمولات

 

تلاوت قرآن مجید
ماہِ رمضان میں سب سے اچھا عمل روزے کی حالت میں بھی اور افطار کے بعد بھی تلاوت قرآن مجید ہے۔ماہِ رمضان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جبریل ؑکے ساتھ قرآن مجیدکا دور کیاکرتے تھے ۔قرآن کو حفظ کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔جتنے حصے یاد ہو جائیں سینے کے نور،دل کی بہار اور قرار،غموں سے نجات اور پریشانیوں سے خلاصی کا ذریعہ بنیں گے۔ قرآن مجید کو مستند تفاسیر سے سمجھ کر پڑھنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔اعتکاف کے دوران تو بالخصوص مطالعۂ قرآن وحدیث کا اہتمام بہت ضروری ہے۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ بھی اس موسمِ بہار میں بہترین زادِ سفر ہیں۔
عبادات و معاملات
'اسلام‘ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم میں سلامتی بھی شامل ہے اور سرتسلیم خم کردینا یعنی خود سپردگی بھی اس کا ایک معنٰی ہے۔اسلام کی ایک اور تعریف جو اپنی معنویت کے لحاظ سے بہت جامع ہے،یوں کی جاتی ہے''اسلام عبادات اور معاملات کا مجموعہ ہے‘‘۔یعنی اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دو اہم ترین شعبے ہیں۔ان دونوں کے درمیان توازن بھی اسلام کے حسن کو نمایاں کرتا ہے۔روزے میں ان دونوں پہلووں کی نمایندگی ہے۔اللہ سے تعلق روزے کا منشا ہے اور محروم طبقات کی بھوک،احتیاج اور مشاکل کا احساس اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی روزے کا لازمی تقاضا ہے۔اسلام میں افراط و تفریط کو غیر پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔رمضان کے روزے تو فرض ہیں،نفلی روزوں میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے۔
اعتکاف
رمضان کے دوران ایک اہم ترین عبادت اعتکاف ہے۔اعتکاف میں تو بندہ اپنے مالک کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔اسلام میں جتنی عبادات ہیں،وہ انسان کی زندگی کا تزکیہ کرنے،اس کی سوچ کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنے اور اس کے قدموں کو طے شدہ منہج پر چلانے کا ذریعہ ہیں۔اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جس میں ایک محدود مدت کے لیے بندہ دنیوی مصروفیات سے وقت نکال کر مکمل طور پر خود کواللہ کی عبادت ،اپنی اصلاح اور فکر آخرت میں مشغول کرلیتا ہے۔ اعتکاف کے دوران لیلۃ القدر کی تلاش اور اس کے ذریعے اللہ کی رضا بندہ ٔ مومن کا مطمحِ نظر ہوتاہے۔اعتکاف کا لفظی معنٰی خود کو روکے رکھنا،کسی چیز کو مضبوطی سے قائم رکھنا اور کسی مقصد سے مکمل وابستگی اختیار کرناہے۔
اعتکاف پر عمل پیر اہونے کا بہت زیادہ اجر ہے۔اعتکاف کے دوران ایک مومن مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اور اللہ سے لو لگائے اس بات کا ہر لمحے بزبانِ حال اعلان کرتا ہے کہ اس نے خواہشات نفس کی اکساہٹوں کو روک دیا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرلیا ہے۔روزے کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مومن خود کو کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روکے رکھتا ہے۔روزہ افطار ہونے کے وقت سے لے کر اگلی صبح صادق تک وہ کھانے پینے اور اپنے شریکِ حیات سے تعلقاتِ زن و شو قائم کرنے میں آزاد ہوتاہے مگر اعتکاف کے دوران دن اور رات کے کسی بھی حصے میں جنسی تعلقات قائم کرنا حرام قرار پاتا ہے۔قرآن و حدیث میں اسے 'تبتل‘ کے جامع لفظ سے واضح کیا گیا ہے۔اگرچہ اس لفظ 'تبتل‘ کا مکمل مفہوم تو کسی دوسری زبان میں ایک لفظ میںبیان نہیں کیا جا سکتامگر تفہیم کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے کٹ کرایک(اللہ )کا ہو رہنا۔اس لحاظ سے اعتکاف تبتل کا بہترین مظہر ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اس پر عمل کیا ہے۔سید مودودی ؒتحریر فرماتے ہیں۔
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں قیام فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول عمر بھر رہا۔ظاہر ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا کیونکہ رمضان کے روزوں کاحکم مدینہ طیبہ میں آیا تھا۔دوسرے یہ کہ مکہ میں اس وقت تک سرے سے کوئی مسجد ہی نہ تھی اور مسجد حرام(خانہ کعبہ)میں اعتکاف کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔اس لیے اس سے مراد یہی ہے کہ قیامِ مدینہ طیبہ میں آخر وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول رہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔(کتاب الصوم، ص267-268)
یہ اس حدیث کی تشریح ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے اور جو متفق علیہ احادیث میں سے ہے۔رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورۃ القدر کے مطابق رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اور ہر سال جب یہ رات آتی ہے تو جبریلِ امین اللہ کی رحمتیں لے کر فرشتوں کے جھرمٹ میں آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔اس رات کو عبادت میں مصروف اہل ایمان کورحمتِ خداوندی میں سے وافر حصہ عطا ہوتا ہے اور وہ دوزخ سے خلاصی پاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔
لیلۃالقدر
لیلۃ القدر کے بارے میں سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں بالخصوص طاق راتوں(یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29)میں تلاش کرو‘‘(بحوالہ بخاری)۔
لیلۃالقدر کے بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے اس رات کے بارے میں بتا دیا گیاتھا مگر پھر وہ علم واپس لے لیا گیا۔غالباً اس کی حکمت یہ ہوگی کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرنے کے بجائے پورے رمضان اور بالخصوص آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ ذوق وشوق کے ساتھ خود کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیں۔جس حدیث کا اوپر ہم نے ذکر کیا ہے،وہ بھی صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کی زبانی نقل کی گئی ہے ۔ اس حدیث کے الفاظ کا ترجمہ ذیل میں درج ہے:
''حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی سے(یا اپنے خانۂ مبارک سے)نکلے تاکہ ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دیں۔اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑنے لگے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ میں تو تمہیں لیلۃ القدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑ پڑے اور اس دوران وہ اٹھا لی گئی(اس کا علم مجھ سے رفع کر لیا گیا)۔شاید تمھاری بھلائی اسی میں تھی۔لہٰذا اب تم اسے اکیسیوں یا تئیسویں یاپچیسویں رات کو تلاش کرو۔‘‘
سید مودودیؒ لیلۃالقدر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: 
''اب تک جتنی احادیث گزری ہیں ان سب پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ کوئی خاص حکمت اور مصلحت ہے کہ لیلۃ القدر حتمی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بتائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر مامور نہیں کیا کہ آپ لوگوں کو یہ بتائیں کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوزیادہ سے زیادہ جو بات بتانے کی اجازت دی گئی وہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے اور تم طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔اس حدیث میں طاق راتوں میں سے بھی تین کا ذکرکیا گیا ہے،یعنی۲۱،۲۳اور۲۵۔ بعض روایات میں اکیس سے انتیس تک کی طاق راتیں ہیں اور بعض روایات میں آخری سات دنوں کی راتیں ہیں۔احادیث کی روایت کرتے وقت چونکہ یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سی حدیث کس تاریخ کی ہے اس لے یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی حدیث ابتدائی دور کی ہے اور کون سی بعد کے دور کی۔علمائے امت میں جو بات معروف ہے وہ یہی ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے‘‘۔( کتاب الصوم،ص264-265)
بعض احادیث میں تئیسویں اور ستائیسویں رات میں لیلۃ القدر کا احتمال بھی بیان کیا گیا ہے۔ اسی لیے لوگ ان راتوں بالخصوص ستائیس کو بطور لیلۃ القدر مناتے ہیں۔دراصل جشن منانے اور روایتی انداز کے جوش و خروش سے وہ حقیقی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لیے لیلۃ القدر کا تحفہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عطا فرمایا۔ اس کا درست اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ اہل ایمان خود کو تلاوت و عبادت،ذکر و فکر اور نوافل،غوروفکر، خوداحتسابی اور قیام اللیل کے ذریعے اللہ کے تقرب کا مستحق بنائیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک یہی تھا۔

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved