تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     08-05-2019

خطرے کا نشان

ایک گاؤں میں سیلاب کا شدید خطرہ تھا... سرکار کی طرف سے منادی کروائی گئی کہ بڑے صاحب (اعلیٰ افسر) آ رہے ہیں۔ گاؤں کے تمام لوگ اپنی ہر قسم کی مصروفیت ترک کر کے پنڈال میں اکٹھے ہو جائیں تاکہ متوقع سیلاب سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی مناسب لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ خیر سارا گاؤں پنڈال میں اکٹھا ہو گیا۔ وقت مقررہ پر بڑے صاحب تشریف لائے اور گاؤں والوں سے مخاطب ہوئے کہ میں آپ لوگوں کو ''وارننگ‘‘ دینے آیا ہوں کہ ایک بے رحم سیلابی ریلا آپ کے گاؤں کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ دریا کی لہریں خطرے کے نشان کو چھونے کے لیے کس طرح بے تاب ہیں۔ اگر بر وقت آپ لوگوں نے گاؤں نہ چھوڑا تو بہت بڑی تباہی ہو سکتی ہے۔ کل صبح سورج نکلنے سے پہلے آپ سب کو گاؤں چھوڑنا ہو گا۔ آپ کی نقل مکانی کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات کر دئیے گئے ہیں۔ 
گاؤں والے بڑے صاحب کی بات سنتے ہی بھڑک اُٹھے کہ آپ اچانک ہمیں بتانے آ گئے ہیں کہ ہمیں گاؤں چھوڑنا ہو گا۔ ہم اپنا مال اسباب چھوڑ چھاڑ کر کیسے نقل مکانی کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ ہم گاؤں چھوڑنے سے پہلے اپنا مال اسباب اکٹھا کر لیں۔ گاؤں والوں کا جواب سن کر بڑے صاحب سوچ میں پڑ گئے اور کافی گہرا سانس لینے کے بعد بولے کہ آپ کم سے کم وقت میں اپنا قیمتی سامان اکٹھا کر لیں۔ میں آپ کے لیے زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہوں کہ دریا میں سیلابی خطرے کی نشاندہی کے لیے لگائے گئے نشان کے اُوپر ایک نیا نشان لگوا دیتا ہوں آپ پرانے نشان کو نظر انداز کر کے نئے نشان پر نظر رکھیں اور نئے نشان تک پانی پہنچنے سے پہلے پہلے گاؤں چھوڑ دیں۔ یعنی گاؤں کے لوگوں کی جان و مال کو محفوظ کرنے کے لیے نہ تو پانی کا رُخ موڑا... نہ ہی کوئی حفاظتی بند باندھا... بس خطرے کا نشان تبدیل کیا اور بڑے صاحب گاؤں والوں کو بہت بڑا ریلیف دے کر چلتے بنے۔ 
بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کر لینا یا سیلابی ریلے کی نشاندہی کرنے والے نشان کا اُوپر کر دینا‘ بات ایک ہی ہے۔ بڑے صاحب خطرے کا نیا نشان لگا کر ''تام جھام‘‘ کے ساتھ واپس چلے گئے اور نیا نشان لگنے کے بعد گاؤں کے مکین بھی اُن کے شکر گزار اور ''واری واری‘‘ تھے کہ ان کی وجہ سے خطرہ ٹل گیا۔ گاؤں کے بے چارے لوگوں کو کیا معلوم کہ سیلابی ریلے کسی نشان یا بڑے صاحب کو کب مانتے ہیں؟؎
دریا کو اپنی طغیانیوں سے کام 
کشتی کسی پار ہو یا درمیاں رہے 
پھر وہی ہوا جو ہو کر رہنا تھا۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ گاؤں کے عوام نیا نشان لگنے کے بعد مطمئن ہو کر سو گئے اور رات کے کسی پہر بے رحم سیلابی ریلا آیا اور خوابِ خرگوش میں مست سارے گاؤں کو بہا لے گیا۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کو بھی بڑے صاحب کے طرز پر ہی چلایا جا رہا ہے۔ اپنا اپنا مقامِ طمانیت ہے اور خود فریبی پر آمادہ اور بضد کب کسی کے کہنے میں ہوتے ہیں؟ وہ تو زمینی حقائق اور عقل و دانش کی ضد ہوتے ہیں۔ سی پیک کے نشے میں ہم نے ''چینی بھائیوں‘‘ کی سہولت کاری کی پہلی چیمپئن شپ جیت لی ہے‘ جس کے نتیجے میں چار پاکستانیوں سمیت آٹھ چینی گرفتار ہو چکے ہیں۔ پاکستانی خواتین کو شادی کا جھانسہ دے کر چین لے جا کر جسم فروشی اور اعضا کی چوری تک ہر واردات میں ہمارے ہم وطن ''چینی بھائیوں‘‘ کے معاون اور شانہ بشانہ ہیں۔ 
یہ تو وہ واردات ہے جو رپورٹ ہو گئی۔ ''چینی بھائی‘‘ تو نا جانے ملک کے کون کون سے کونے میں اور کس کس طریقے سے پاک چین دوستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے یہ ''چینی‘‘ کیا کیا ''چن چڑھاتے‘‘ ہیں‘ حرام، حلال سے بے نیاز سب کچھ کھا جانے والے ''چینی بھائی‘‘ ہماری سماجی اور اخلاقی قدروں کو کیسے پامال کرتے ہیں۔ آفرین ہے وطنِ عزیز کے اُن سپوتوں پر جو ان معاملات میں سہولت کاری کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ خیر یہ کوئی انہونی اور نئی بات نہیں... عوام سے لے کر حکام تک یہ جنس ہمارے ہاں عام پائی جاتی ہے۔ بیرونی اشاروں اور دباؤ پر عوام دشمن پالیسیاں ہوں یا سہولت کاری سب چلتا ہے‘ عوام سے لے کر حکمران تک سب ہی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں‘ اپنا اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ جس کا جہاں جتنا ہاتھ پڑتا ہے وہ ہاتھ ضرور صاف کرتا ہے۔ کوئی ایوان میں بیٹھ کر یہ کام کر رہا ہے تو کوئی چلتے پھرتے سہولت کاری کے نتیجے میں اپنا معیارِ زندگی بلند کر کے اترائے پھرتا ہے۔ 
ملک بھر میں چلتی پھرتی اس شوگر (چینی/ چائنیز) کے بارے میں کوئی باوقار اور سنجیدہ حکمتِ عملی اختیار نہ کی گئی تو یہ شوگر پوری قوم کو لگ سکتی ہے اور شوگر جیسا مرض انسانی جسم میں کیا توڑ پھوڑ کرتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں اور یہاں معاملہ کسی جسم کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔ پوری قوم کو اس شوگر سے بچانے کے لیے حدود و قیود کا تعین کرنا ہو گا۔ ان کے دائرۂ کار سمیت دیگر ''دائروں‘‘ کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔ سی پیک ایک کاروباری معاہدہ ہے۔ پاکستان اگر بینی فشری ہے تو چائنہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کر رہا... اپنے اپنے حصے کا فائدہ سبھی کو ملنا ہے... حصہ بقدرِ جثہ۔ 
تاہم اس سی پیک کو لے کر ''چینی بھائیوں‘‘ کو سر پر بٹھانا اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنا قطعی غیر دانشمندانہ طرزِ عمل ہے۔ قومی وقار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سماجی اور اخلاقی اقدار کو بچانا بھی اہم قومی تقاضا ہے۔ ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں... اب مزید تاخیر مزید بگاڑ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ریئل اسٹیٹ میں ''چینی بھائیوں‘‘ کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی فصل بوئی جا چکی ہے۔ فصل جب پک کر تیار ہو گی‘ خدا جانے پاکستانی قوم کو اس کی کیا قیمت چکانا پڑے گی... اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو شاید ہوش میں آنے کی بھی مہلت نہ ملے۔ 
اَب چلتے ہیں خطرے کے اگلے نشان کی طرف جو وطن عزیز کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کا باعث بنتا چلا جا رہا ہے۔ 2016ء تک پولیو فری کہلانے والے شہر لاہور میں گزشتہ چار ماہ میں پولیو کے تین کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ نو ماہ کے دووران قومی ادارہ صحت کو بھجوائے گئے ماحولیاتی نمونوں کی تجزیاتی رپورٹیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ لاہور میں پولیو کا وائرس دندناتا پھر رہا ہے لیکن آفرین ہے وزیر اعلیٰ بزدار سے لے کر وزیر صحت تک کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پاکستان میں پولیو کی ''الارمنگ سیچوایشن‘‘ کو لے کر عالمی ادارہ صحت اور یونیسف سمیت تمام ڈونر ایجنسیز میں شدید تشویش اور تحفظات پائے جاتے ہیں‘ جبکہ ہماری حکومت نے محکمہ صحت کے ضلعی افسر کو فارغ کر کے پولیو کے خلاف اپنی سنجیدگی اور بہترین کارکردگی کا اشارہ دے دیا ہے۔ برسرِ اقتدار آنے سے قبل ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے دھرنوں میں بھاگ بھاگ کر شرکت اور یکجہتی کرنے والی صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد تا حال سرکاری ہسپتالوں سے وائی ڈی اے کی ہڑتال ختم کروانے میں ناکام ہیں اور اس ہڑتال سے بیماروں پہ کیا گزر رہی ہے یہ داستانِ اَلم پھر سہی... 
آخر میں چند سطریں ان بچوں کے نام جو تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور خون کے سرطان سمیت دیگر بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی آج 8 مئی ہے اور یہ تھیلیسیمیا کے مریضوں سے یکجہتی کا دِن ہے۔ اس موقع پر اُن تمام اداروں کے لیے خراجِ تحسین تو بنتا ہی ہے جو ''سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ سہولیات کے ساتھ ان مریض بچوں کو معاشرے کا فعال فرد بنانے کے لیے شب و روز کوشاں ہیں۔ اس موقع پر ہم سب کے پیارے ''منو بھائی‘‘ کی خدمات کو کس طرح بھلایا جا سکتا ہے‘ جو انہوں نے تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو بے مثال محبت اور آخری زندگی کا ہر لمحہ وقف کر کے ادا کیں۔ اپنی انہیں خدمات کے صلے میں منو بھائی آج بھی زندہ ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved