تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     08-05-2019

ماں

ہر سال جب یہ دن آتے ہیں تو کرب اور دکھ کی کیفیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ٹھیک چار برس قبل آج ہی کے دن جب مائوں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا‘ میری والدہ کفن پہنے گہری نیند سوئی ہوئی تھیں اور ہم ان کے قدموں میں بیٹھے تھے۔
اس روز جمعہ کا دن تھا۔ صبح کے پانچ بجے تھے۔ میں معمول کے مطابق ہسپتال سے گھر پہنچا‘ ناشتہ لیا اور واپس ہسپتال آ گیا۔ گزشتہ چار روز سے ڈاکٹروں نے انہیں منہ سے خوراک دینے سے منع کر رکھا تھا‘ بس دودھ میں کچے انڈے کی تھوڑی سی سفیدی ڈال کر بذریعہ خوراک کی نالی دینے کی اجازت تھی۔ میں یہ دودھ لے کر آئی سی یو میں پہنچا اور نرس کے حوالے کر دیا۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ سوا چھ بج رہے تھے۔ میں روزانہ انہیں ناشتہ کروا کر دوبارہ ہسپتال سے گھر جاتا جہاں بچے سکول جانے کے لئے میرا انتظار کر رہے ہوتے۔ میں انہیں سکول چھوڑ کر ٹھیک سوا سات بجے تک واپس ہسپتال پہنچ جاتا۔ اس روز میں بچوں کو چھوڑنے سکول گیا تو میرے بیٹے نے بتایا کہ آج سکول کی بڑی اسمبلی میں اس نے نظم پیاری ماں پڑھنی ہے۔ مائوں کا دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے لیکن سکولوں میں چھٹی کی وجہ سے تقریبات دو روز قبل ہی ہو جاتی ہیں۔ میں اسے سکول چھوڑ کر واپس ہسپتال آ گیا۔ آئی سی یو میں تیمار داروں کا داخلہ منع ہوتا ہے یا پھر چند منٹ سے زیادہ کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہوتی؛ تاہم اس دن میرا دل بہت زیادہ اداس تھا۔ ایک مہینے سے والدہ کو علیل دیکھنے کی وجہ سے طبیعت میں شدید بے چینی تھی۔ میں نے سوچا‘ آج تو سب اپنی اپنی مائوں کو گل دستے‘ کارڈ اور تحفے دے رہے ہوں گے تو میں اپنی والدہ کو کیا دوں۔ انہیں پھول بہت پسند تھے مگر ہسپتال میں پھول لانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے مصنوعی مگر خوبصورت پھولوں کا گلدستہ خریدا اور لے کر آئی سی یو میں پہنچ گیا۔ نرس نے پہلے تو منع کیا لیکن جب دیکھا کہ پھول مصنوعی ہیں تو اندر لانے کی اجازت دے دی۔ میں پھول لے کر ان کے سرہانے آیا اور ان سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وہ مگر معمول کے مطابق نیم بے ہوش تھیں۔ کبھی ہلکی سی آنکھیں کھولتیں‘ ادھر اُدھر دیکھتیں اور پھر گہری نیند سو جاتیں۔ اتنے میں ایک نرس وہاں آ گئی اور بولی: ماں جی اٹھیں‘ آپ کا بیٹا پھول لایا ہے۔ چلیں اٹھیں آنکھیں کھولیں۔ میری والدہ نے بڑی مشکل سے تھوڑی سی آنکھیں کھولیں۔ میرے ہاتھوں میں رنگ برنگے پھولوں کو دیکھا مگر کچھ کہے بنا آنکھیں بند کر لیں اور دوسری جانب گردن ڈھلکا کر سو گئیں۔ میں نے پھول ان کی ایک طرف موجود الماری پر ایسی جگہ رکھ دئیے کہ ان کی آنکھ کھلے تو شاید نظر پڑ جائے۔ میں اوپر کمرے میں آ گیا اور کتنی ہی دیر سوچتا رہا کہ آخر آج ان کو پھول کیوں اچھے نہیں لگے حالانکہ وہ کہا کرتی تھیں کہ پھولوں میں ان کی جان ہے۔ ہر سال جب بھی کہیں پھولوں کی نمائش لگتی‘ میری کوشش ہوتی کہ انہیں وہاں ضرور لے کر جائوں۔ ان کے بائی پاس آپریشن سے قبل ریس کورس پارک میں موسم بہار کے حوالے سے پھولوں کی نمائش لگی تھی مگر وہ بیماری کی وجہ سے زیادہ چل پھر نہیں پاتی تھیں۔ ایک دن میں نے انہیں کہا: آج نمائش ختم ہو جائے گی کیوں نہ کوشش کر کے ہو آئیں۔ انہیں اب بھی بائیں بازو اور دل میں تکلیف تھی لیکن پھولوں کو دیکھنے کے لئے انہوں نے ہمت کر لی اور میں انہیں لے کر ریس کورس پارک پہنچ گیا۔ انہیں بچپن سے ہی ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ تیس مارچ کو انہوں نے جو آخری ڈائری لکھی وہ پھولوں کی نمائش سے متعلق تھی۔ اس کے بعد ان کی تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ وہ ڈائری بھی نہ لکھ سکیں۔ میرا دل یہ سوچ کر بہت اداس تھا کہ آخر انہوں نے ہسپتال میں پھولوں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیوں نہ کیا حالانکہ وہ تو ہر طرح کی تکلیف میں پھولوں کو دیکھ کر خوش ہو جایا کرتی تھیں۔ میں فوراً کمرے سے واپس ان کے پاس آئی سی یو میں چلا گیا۔ میں نے نرس سے درخواست کی آج میری والدہ بہت مختلف دکھائی دے رہی ہیں اور آج مائوں کا عالمی دن بھی ہے‘ اس لئے میں زیادہ سے زیادہ وقت ان کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ اجازت ملنے پر میں ان کے سرہانے بیٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگا۔ وہ یقینا میری ساری باتیں سن رہی تھیں۔ کچھ دیر کے وقفے سے جب وہ آنکھیں کھولتیں آنسو کا ایک قطرہ نکلتا اور آنکھ سے باہر آ کر اٹک جاتا۔ میں آگے بڑھتا‘ ٹشو سے آنسو پونچھتا اور اس ٹشو کو اپنی جیب میں رکھ لیتا۔ میں نے انہیں بتایا ان کا پوتا آج ماں کی محبت میں نظم پڑھ رہا ہے تو ان کے جسم میں حرکت پیدا ہو گئی۔ انہوں نے کئی مرتبہ اس کا نام لینے کی کوشش کی لیکن تکلیف کے باعث نہ لے سکیں۔ پھر یکدم انہوں نے بے چینی سے پائوں ہلانے شروع کر دئیے۔ میں نے پائوں دبانا شروع کئے تو ان کے لبوں میں حرکت پیدا ہوئی: مجھے یہاں سے لے چلو۔ مجھے یہاں سے جانا ہے۔ میرا وقت آ گیا ہے۔ میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور آئی سی یو سے باہر نکل آیا۔ بیٹے کو سکول سے لینے کا وقت ہو رہا تھا۔ میں سکول پہنچا تو اس نے بتایا سارے سکول کے سامنے جب اس نے نظم پیاری ماں پڑھی تو کچھ چھوٹے بچے جن کی مائیں دنیا میں نہیں تھیں‘ وہ زار و قطار رونے لگے۔ کچھ ٹیچرز انہیں چپ کرانے کی کوشش میں خود بھی رو پڑیں۔ مائوں کا یہ دن اس طرح اختتام پذیر ہوا کہ رات گئے میری والدہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں اور ہم ہر طرح کی کوشش اور خواہش کے باوجود انہیں نہ روک سکے۔
چند روز قبل ٹھیک چار سال بعد میں اسی ہسپتال میں ہر اس جگہ اور ہر اس کمرے میں گیا جہاں انہوں نے اٹھائیس دن گزارے تھے۔ مجھے لگا شاید کسی کمرے سے ان کی آواز آ جائے‘ شاید وہ کہیں دکھائی دے جائیں‘ شاید کوئی ڈاکٹر کہہ دے کہ وہ ٹھیک ہو گئی ہیں مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ میں وہاں سے سیدھا ان کی قبر پر آ گیا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ میں نے خود سے پوچھا: مائیں کیوں چلی جاتی ہیں‘ ان کے بعد زندگی اتنی اداس‘ خاموش اور بے معنی سی کیوں لگتی ہے‘ کیوں قدرت اس قدر محبت ماں اور بچوں کے مابین پیدا کرتی ہے اور پھر اسی ماں کو واپس بلا کر بچوں کو تڑپتا چھوڑ دیتی ہے۔ میں سوچنے لگا‘ جتنی دیر میں بچوں کو سمجھ آتی ہے ماں کی محبت ہوتی کیا ہے‘ مائیں انہیں چھوڑ جاتی ہیں اور وہ اپنا غم ہلکا کرنے اور جی بھر کر رونے کے لئے کوئی گود‘ کوئی کندھا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ بھی مائوں کے جانے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے زندگی میں بچوں کے آرام کی خاطر کتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں اور کتنے ہی غم ایسے تھے کہ جن کا کبھی تذکرہ تک نہ کیا تھا۔ بچے سمجھتے ہیں ماں باپ شاید کسی غیبی طاقت کے مالک ہوتے ہیں ‘نہ انہیں بھوک لگتی ہے نہ تکان ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی پیش آتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں‘ والدین کے پاس الٰہ دین کا کوئی چراغ ہے جس سے وہ ان کی ہر خواہش پوری کر سکتے ہیں۔ میں نے آج تک کسی ماں کو اپنے بچوں سے گلہ کرتے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ بچوں کے لئے خود کو کھپاتے ہی دیکھا ہے۔ کبھی ماں اپنے بچے کو یہ نہیں کہتی کہ دو روٹیوں کا آٹا پڑا ہے ایک تم کھا لینا ایک میں کھا لوں گی۔ وہ بچے کیلئے دونوں روٹیاں پکا کر اس کا پیٹ بھر دے گی اور خود پانی کے دو گھونٹ پی کر گزارہ کر لے گی مگر بچے کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دے گی کہ اس کی ماں رات کو بھوکی سوئی ہے۔
والدہ کی وفات کے بعد چند ہفتے‘ چند مہینے انتہائی مشکل تھے۔ یقین نہ آتا تھا وہ ہمیں چھوڑ کر بھی جا سکتی ہیں۔ پھر ایک روز خواب میں انہیں دیکھا‘ سفید لباس پہنے اللہ بزرگ و برتر کے چند نام دہراتے ہوئے... یا مُعِزُ۔ یا عزیز۔ یا مُبدِیُ۔ یا مُعِید۔ میری آنکھ کھل گئی۔ فوراً معانی دیکھے۔ ''وہی عزت دینے والا‘ وہی غالب رہنے والا‘ اسی نے ہمیں پہلی بار پیدا کیا‘ وہی دوبارہ زندہ کرے گا‘‘ اس خواب اور ان اسمائے حسنیٰ سے میری بہت زیادہ تشفی ہوئی‘ دل کو بہت سکون ملا۔ اب جب بھی اُن کی یاد آتی ہے‘ ان اسمائے حسنیٰ کا وِرد کر لیتا ہوں‘ میرے دل کو قرار آ جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved