تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-05-2019

پٹرول‘ وینزویلا‘ ایران اور پاکستان

امریکا اپنے نئے ورلڈ آرڈر کے ذریعے اپنے مقابل آنے والی یا اسکے درجنوں احکامات کے سامنے سر جھکانے کے بعد کسی ایک حکم کے سامنے سر نہ جھکانے والی کمزور قوموں کو معاشی دہشت گردی کے ہتھیاروں سے تباہ کرنے پر بری طرح تلا ہوا ہے۔ معاشی طور پر تباہ کرنا دہشت گردی کی ایک ایسی شکل ہے کہ تخریبی اور بارود کی شکل میں کی جانے والی دہشت گردی کی‘ کسی ایک واردات سے تو چند درجن کے قریب انسانی جانیں نشانہ بنتے ہوئے موت کے گھاٹ اتر پاتے ہیں‘ لیکن معاشی دہشت گردی کے نتیجے میں ادویات کی عدم فراہمی‘ بھوک اور افلاس سے پوری قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف کسی کو بھی پروا نہیں‘ کسی کو بھی ان کروڑوں بھوک اور علاج سے بلکتے ہوئے لوگوں کے دکھ اور تکلیف کا احساس نہیں ‘ آنکھیں رکھتے ہوئے بھوک اور جان لیوا امراض سے مرتے ہوئوں کو دیکھنے والے‘ سماعت رکھتے ہوئے دودھ اور خوراک کیلئے بھوک سے چیختے چلاتے بچے اور بوڑھوں کی سسکیاں کسی کو سنائی نہیں دیتیں۔ طرفہ تما شا دیکھئے کہ کبھی جمہوریت کے نام پر دولت مشترکہ تو کبھی انسانی حقوق کے نام سے کمزور ممالک کو جھٹکے دینے والی یورپی یونین ‘ امریکا کے سامنے اس طرح سر جھکائے‘ اس کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ان عالمی پابندیوں میں اس کا ساتھ دیتی ہیں‘ جیسے اُن کا اپنا کوئی وجود ہی نہ ہو‘ جیسے یہ سب ممالک ایک ہی ہوں۔
کسی ملک کو امریکا کے ہاتھوں سیا سی طور پر فتح کرواتے ہوئے ‘ اقوام متحدہ نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف ہی گوارہ نہیں کی کہ اس کے اس فیصلے سے کتنے کروڑ بچے اور خواتین معاشی دہشت گردی کی بر بریت کا شکار ہو رہے ہیں اور بد قسمتی دیکھئے کہ اقوامِ عالم کے حقوق کی پاسبانی کے نام پر قائم اقوام متحدہ کے مورچے سے ہی داغے گئے میزائلوں سے سفاکیت پر مبنی یہ تباہی و بربادی پھیلائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں شام‘ عراق‘ لیبیا کے بعد ایران‘ وینزویلا اور افغانستان کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اب ایران کے بعد تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک وینزویلا بھی امریکی سازشوں اور پابندیوں میں جکڑ ا جا رہا ہے اور ان پابندیوں کی زد میں درجنوں کی تعداد میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی بری طرح پس رہا ہے۔
پینٹاگان کے پیپرز ایکسپرٹ Daniel Ellsberg نے وینزویلا پر عائد پابندیوں سے بھوک کی صورت میں مرتے ہوئے انسانوں کی حالت ِزار دیکھتے ہوئے بہت ہی خوبصورت جملہ کہا:
We are not only on the wrong side, we are the wrong side.
وینزویلا پر معاشی پابندیوں سے امریکا کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہاں کی مقبول قیا دت کی بجائے وہاں اپنی پسند کے لوگ بٹھا دیئے جائیںــ۔ اگر ہم سیا ست اور سیاسی ہمدردیوں سے ہٹ کر امریکا کا صرف وافر مقدار میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کو سیا سی اور فوجی شورش کے شکنجوںمیں لپیٹتے ہوئے دیکھیں اور امریکا کی باندی اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کرائی گئی پابندیوں کے بھنور میں جغرافیائی اہمیت رکھنے والے ممالک کے علا وہ قدرتی وسائل کے حامل غریب اور کمزور ممالک کو گھمانے کے عمل کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کی جھوٹی اور خود ساختہ خبریں دیتے ہوئے‘ جس طرح اقوام متحدہ کی قرار داد کے ذریعے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد عراقی عوام کی رہی سہی کسر نکالنے کیلئے القاعدہ کے بعد داعش نام کی ایک نئی جنگجو تنظیم کو اسلحے سے لیس کرتے ہوئے‘ کھلے عام چھٹی دئیے رکھی ہے اور پھر عراق کے تمام وسائل نچوڑنے کے بعد شام اور اب افغانستان کے بعد پاکستان میں اسی داعش کو نئے سرے سے داخل کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں‘وہ سب کے سامنے ہیں۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کے موجو دہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج کی دنیا کا ایسا ہٹلر ہے‘ جس کا جرمنی کے ہٹلر سے صرف اتنا سا فرق ہے کہ وہ اپنی فوجی پلٹونوں ‘توپوں ‘ ٹینکوں اور بم بار طیاروںکے ذریعے قوموں کو نیست و نابود کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ہائیڈ روجن بم کی شکل میںاپنے نشانے پر لئے جانے والے کسی بھی خود دار ملک کی عوام پر پابندیوں کی شکل میں گراتے ہوئے‘ اس کے اندر ہنگامے اور شورش پیدا کرتے ہوئے ‘وہاں اپنی مرضی کی چابی والی قیا دت کے ذریعے فتوحات حاصل کر تاہے ۔آج امریکا‘ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے ‘لیکن اس جِن کی طرح‘ جو کسی جگہ پر قبضہ چھوڑتے ہوئے اپنے ارد گرد ایک تباہی پھیلا دیتا ہے۔امریکا کو سی پیک منظور نہیں‘ امریکا کو فاٹا کا کے پی کے میں انضمام قبول نہیں‘ امریکا کو ترکی سے بڑھتی ہوئی دوستی قبول نہیں‘ امریکا کو روس کے صدر کا دورہ ٔپاکستان منظور نہیں‘ امریکا کو چین سے گوادر اور سی پیک کا تعلق قبول نہیں اور امریکا کا پاکستان کے آئی ایم ایف کے شکنجوں سے نکلنا قبول نہیںاور امریکا کو انٹر نیشنل پاور منصوبے کے اس کالے قانون سے نجات قبول نہیں‘ جس میں یہ لکھا رکھا ہے کہ یہ پلانٹ کام کریں یا نہ کریں‘ روزانہ لاکھوں ڈالر ادا کرنے ہوں گے‘ بالکل اسی طرح جیسے سمندر میں کھڑے کئے گئے بجلی پیدا کرنے والے جہاز کے معاہدے میں کیا گیا تھا۔ 
پاکستان کی موجو دہ معاشی صورتحال تیل کی نا قابل ِبرداشت قیمتیں اور کئی ارب ڈالر کے واجب الادا قرضوں کے ساتھ تجارتی خسارے کے علا وہ آئی پی پیز اور سوئی گیس کے اربوں روپے کے گردشی قرضے سامنے رکھیے اور پھر وینزویلا اور ایران کے تیل پر پابندیوں سے دنیا بھر میں ہر دو ہفتے بعد تیل کی چڑھتی ہوئی قیمتوں سے پاکستان میں تیل کی قیمتوں کے طوفان کے سائے میں کسی بھی سیا سی حکومت کیلئے قائم رہنا مشکل ترین ہو جاتا ہے۔
جب پاکستان اصولوں پر قائم رہتے ہوئے امریکا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گا‘ تو پھر اس صورتحال میں چین کے سامنے بھی وہ فیصلہ کن موڑ آ جائے گا ‘جس میں اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ اپنے سب سے بڑے اتحادی پاکستان کو امریکی بھینٹ چڑھتے دیکھنا ہے یااسے بچانے کیلئے ایسا امدادی پیکیج دینا ہے ‘جس سے پاکستان‘ امریکا ا ور اس کے ماتحت مالیاتی اداروں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو سکے۔ وہی ادائیگیاں‘ جو پاکستان نے آئی ایم ایف سمیت دوسرے اداروں کو کرنا ہیں۔ چین کی قرضے کے نام پر دی جانے والی اس مدد کی ادائیگیاں بھی ایک مدت تک کیلئے منظور کئے جانے والے قرضوں کی صورت میں واپس کر دی جائیں گی۔ امریکا کے سامنے موجودہ پاکستانی حکومت کو جھکانے کیلئے بھارت کے نئے انتخابات کے بعد اس کا قیامِ نو اور پہاڑوں پر برف کا پگھلنا سب کچھ سامنے رکھنا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved