تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-05-2019

… ڈوب کے جانا ہے !

پٹرولیم مصنوعات مہنگی کیے جانے سے مہنگائی کی نئی لہر کو کسی بھی طور روکا نہیں جاسکتا۔ حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہر دانش مند کو بھی اندازہ تو ہوگا کہ اس وقت مہنگائی کے گراف کی بلندی حکومت کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ قریباً9 ماہ گزرنے پر بھی وزیر اعظم عمران خان اور اُن کے رفقائے کار ع
ابھی آئے‘ ابھی بیٹھے‘ ابھی دامن سنبھالا ہے 
کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بہت کچھ ہے ‘جو اتنا الجھا ہوا ہے کہ سمجھ ہی میں نہیں آرہا۔ سمجھ میں اس لیے نہیں آرہا کہ ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا۔ دنیا بھر میں ایک بڑی جمہوری پریکٹس ہے‘ شیڈو کیبنٹ۔ حکومت کے متوازی اپوزیشن اپنی کابینہ تیار کرتی ہے اور تمام متعلقہ معاملات پر پوری نظر رکھتی ہے۔ یہ گویا اس بات کی تیاری ہوتی ہے کہ اگر اقتدار ہاتھ لگے تو کسی الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر شیڈو کابینہ اپنا کام ڈھنگ سے کرتی رہے تو اقتدار ملنے کی صورت میں اُسے زیادہ الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ مالیاتی امور سمیت تمام معاملات سمجھ میں آتے ہیں اور فیصلے کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ 
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور اُن کے کور گروپ کے لوگوں کو اقتدار کے حصول کی خواہش نے تو گھیر رکھا تھا‘ مگر وہ عملی طور پر اس کیلئے تیار نہ تھے۔ ہوم ورک نہ کیے جانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بہت سے بنیادی معاملات اب تک حکومت کی سمجھ ہی میں نہیں آسکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور اکھاڑ پچھاڑ نے معاملات کو مزید الجھادیا ہے۔ وزیر خزانہ کا منظر سے رخصت ہونا کیا کم تھا کہاسٹیٹ بینک کے گورنر اور ایف بی آر کے چیئرمین کی تبدیلی بھی رونما ہوئی ہے۔ تین اہم عہدوں پر یکے بعد دیگرے تبدیلی سے عالمی اداروں کا اعتماد بھی مجروح ہوا ہے اور متعدد حکومتیں بھی تذبذب کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ چین اور دیگر دوست ممالک بھی اِن تبدیلیوں کے حوالے سے ہچکچاہٹ میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فطری امر ہے۔ اتنی اونچی سطح پر اتنی تیزی سے تبدیلیاں معاملات کو بگاڑ دیا کرتی ہیں اور ابھی پندرہ بیس دن قبل ہی تو کابینہ کو ری شفل کیا گیا ہے۔ یہ ری شفل بجائے خود حکومت کا اپنے آپ سے بھونڈا مذاق ہی تھا۔ کسی سے ایک وزارت نہ چل سکی تو دوسری دے دی گئی۔ کسی بھی وزارت کو چلانے کے لیے تھوڑا بہت تجربہ لازم ہے۔ اس تجربے کی بنیاد ہی پر کارکردگی کا ممکنہ معیار طے ہو پاتا ہے۔ محض وزارت ِبدل دینے سے کسی کی کارکردگی کا گراف بلند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 
وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میںکام کرنیوالی حکومت کو ایک ایسے وقت میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے ‘جب عوام ایسے کسی بھی تازیانے کو برداشت کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں تھے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اپنی آمدن کا گراف بلند کرنے کیلئے حکومت ایک بار پھر برق گرائے گی ‘تو صرف عوام پر۔ عوام چاہتے ہیں کہ اب اُن سے وصولی کی جائے جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔ مالدار ترین طبقے کی جیب ڈھیلی کرانے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے عمران خان اور اُن کے رفقائے کار پُھوس کی شکل اختیار کرچکے ‘گنّے سے مزید رس نچوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معیشت کی خرابی تو ہے ہی۔ اُس پر شدید گرمی۔‘پھر رمضان المبارک اور اس موقع پر مہنگائی کی نئی لہر۔ تازیانے پر تازیانہ۔ یہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے والی بات ہوئی۔ پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے عوام کی جیب مزید خالی کرانے کی بجائے اس مرحلے پر عمران خان کو ٹیکس ری وژن سے کام لینا چاہیے تھا؛ اگر ٹیکس نیٹ میں فوری وسعت ممکن نہ ہو‘ تب بھی اتنا تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ انتہائی مالدار یا مالدار ترین طبقے سے کسی نہ کسی طور زیادہ وصولی کی جائے۔ اس سے معاملات کو سلجھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ صنعت کاروں اور تاجر برداری کو ایسی رعایتیں دی جانی چاہئیں ‘جن کی مدد سے وہ عوام کو تھوڑا بہت ریلیف بھی دے سکیں اور روزگار کے مزید مواقع بھی پیدا کرسکیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ایک بار پھر عوام ہی کو نشانے پر لینا کسی بھی اعتبار سے ایسا اقدام نہیں‘ جسے سراہا جاسکے۔ 
کئی افواہیں اور قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔ بہت سوں کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) نے کڑی شرائط رکھی ہیں جن پر عمل کیا جانا لازم ہے اور یہ کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی آئی ایم ایف کی فرمائش ہی پر بڑھائے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا نام سنتے ہی عوام پہلے چونکتے ہیں اور پھر سہم جاتے ہیں اور اس کے بعد عوام کے دلوں کی دھڑکن بے ترتیب سی ہونے لگتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے ہمارا تعلق کبھی ایسا نہیں رہا‘ جس کی بنیاد پر کسی بہتری کی امید وابستہ کی جاسکے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں صرف خرابیاں پیدا کرتا آیا ہے اور آج بھی اس کا یہی وتیرہ ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بڑی قوتوں کا آلۂ کار ہے۔ عمران خان اور اُن کی کور کمیٹی کو اب بھی یہ بات سمجھنے پر غیر معمولی توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ حکومت چلانا ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے‘ جس کے لیے غیر معمولی مہارت ہی نہیں بلکہ پوری تیاری بھی درکار ہوا کرتی ہے۔ بیورو کریسی کے حوالے سے تمام بنیادی امور کا سمجھنا بھی لازم ہے۔ کوئی محض اس بنیاد پر حکومت نہیں کرسکتا کہ اُسے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ عوام کی طرف سے مینڈیٹ کا دیا جانا پہلا مرحلہ ہے۔ اصل مرحلہ تو حلف برداری کے بعد ذمہ داریوں کو سنبھالنے سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بیورو کریسی مجموعی طور پر جس مزاج کی حامل رہی ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایسے میں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ریلیف کا بندوبست کرنا حکومت کیلئے اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ 
پانچ ماہ قبل جب معیشتی خرابیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی کوشش کی تھی ۔تب بھی آئی ایم ایف سے پروگرام لینے کی بات چلی تھی۔ موجودہ عالمی سیاسی و معاشی نظام کے تحت یہ ممکن نہیں کہ آئی ایم ایف سے مکمل طور پر پنڈ چھڑالیا جائے۔ ہاں‘ ہر کمزور ملک کی حکومت کے سامنے ع
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے! 
کون سا آگ کا دریا؟ یہ دریا ہے آئی ایم ایف۔ ہم جس عالمی نظام میں جی رہے ہیں اُس میں آئی ایم ایف ایک ستون کا درجہ رکھتا ہے۔ فی الحال اِس سے مکمل گلو خلاصی ممکن نہیں۔ عمران خان اگر اپنی حکومت کو مکمل ناکامی سے بچانے کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور عوام کے لیے ریلیف کا بندوبست کریں۔ سوال کم یا زیادہ کا نہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اُنہیں ریلیف ملے‘ جس طور درجۂ حرارت کچھ ہوتا ہے اور ''فیل‘‘ کچھ آرہی ہوتی ہے ۔بالکل اُسی طور حکومت کو بھی کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ حقیقی ریلیف چاہے زیادہ نہ ہو‘ اُس کی ''فیل‘‘ تو زیادہ ہو! عوام چاہتے ہیں کہ اُنہیں سکون کا سانس لینے کا موقع ملے۔ یہ موقع اُنہیں دیا جانا چاہیے۔ اپنی آمدن بڑھانے کے لیے حکومت کو متبادل ذرائع تلاش کرنے چاہئیں۔ عوام پر مزید بوجھ ڈالنا کسی بھی طور اُس کے مفاد میں نہیں۔ آگ کے اِس دریا سے عمران خان اور اُن کی ٹیم کو ڈوب کے جانا ہے۔ عزم بھی درکار ہے اور مہارت بھی۔ ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved