تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-05-2019

قیدی کی واپسی

قیدی لوٹ گیا مگر امید کے چراغ روشن کر گیا۔
اُدھر نواز شریف جیل کی طرف روانہ ہوئے، اِدھر نون لیگ شاہراہِ سیاست پر رواں ہو گئی۔ پہلا روزہ افطار ہوا تو ساتھ ہی نواز شریف کی خاموشی کا روزہ بھی ٹوٹ گیا۔ زبانِ قال سے نہ سہی، وہ زبانِ حال سے بول اٹھے۔ نون لیگ کے کارکنوںکو اسی کی ضرورت تھی۔ مقامی سطح کا یہ اجتماع متاثر کن تھا؛ تاہم لمحۂ موجود میں یہ بحث غیر اہم ہے کہ شرکا کی تعداد کتنی تھی۔ اس بار یہ علامتی اظہار بہت تھا کہ نون لیگ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ مقصد پورا ہو گیا۔
لوگ لیڈر میں جن اوصاف کو تلاش کرتے ہیں، بہادری ان میں سرِ فہرست ہے۔ انہیں یہ تو گوارا ہوتا ہے کہ لیڈر پھانسی چڑھ جائے لیکن یہ پسند نہیں ہوتا کہ اس کے دامن پر بزدلی کا کوئی داغ ہو؛ تاہم، بہادری خود کشی کا نام نہیں۔ نہ ہی اندھیرے میں چھلانگ بہادری ہے۔ حکمتِ عملی کے تحت خاموشی بھی روا رکھی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات مصالحت بھی وقت کا تقاضا ہوتی ہے۔ یہ اوصاف بہادری سے متصادم نہیں۔ یہ سب گوارا ہو سکتے ہیں مگر میدان چھوڑ دینا یا کسی آسائش کے لیے آدرش کو خیر باد کہہ دینا، ایک عام آدمی کو گوارا نہیں ہوتا۔ 
ڈیل کی باتیں اور اس پر نواز شریف صاحب اور مریم نواز کی خاموشی نے ایک عام کارکن کو مضطرب کر دیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بآوازِ بلند تردید ہو۔ وہ گلی بازار میں اپنے مخالفین کے درمیان سر اٹھا کر چل سکے کہ اس کے لیڈر نے صلح نہیں کی۔ وہ خود صاحبِ عزیمت نہ بھی ہو، اپنے لیڈر سے وہ عزیمت ہی کی تو قع رکھتا ہے۔ نواز شریف کی جیل واپسی نے اپنے کارکن کو سرخرو کر دیا۔ اب وہ سر اٹھا کر چل سکتا ہے۔
ڈیل اور ڈھیل کی باتیں بھی ابہام کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہیں۔ میں نے انہیں جس زاویے سے بھی دیکھا، غیر منطقی پایا۔ مثال کے طور پر حکومت کا زاویہ دیکھیے۔ عمران خان یہ کہتے ہیں کہ وہ این آر او نہیں دیں گے۔ میں نے جب یہ سمجھنا چاہا کہ وہ این آر او کیسے دے سکتے ہیں تو مجھے کبھی اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ اس باب میں خود حکومت کا مقدمہ تضادات سے بھرپور ہے۔ حکومت یہ کہتی ہے کہ نواز شریف صاحب کے خلاف جو کچھ ہوا، اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔
نواز شریف کے ساتھ جو ہونا تھا، وہ تحریکِ انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ تحریکِ انصاف کا اقتدار تو اس کا ایک نتیجہ ہے۔ نواز شریف اگر سیاست میں متحرک ہوتے تو عمران خان پر اقتدار کی دیوی مہربان نہیں ہو سکتی تھی۔ نواز شریف صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کچھ فیصلوں کے نتیجے میں ہوا ۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ دونوں خود مختاد ادارے ہیں۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر ''چھوڑوں گا نہیں‘‘ کے بیانیے کی کیا حیثیت ہے؟ اگر آپ کچھ کر ہی نہیں رہے تو چھوڑنے یا نہ چھوڑنے کی بات بے معنی ہے۔ این آر او نہ دینے کے متواتر بیانات بھی سیاسی نعرے بازی سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔
اب نواز شریف صاحب کے زاویے سے دیکھیے۔ وہ اپنے 'جرم‘ کی زیادہ سے زیادہ سزا بھگت چکے۔ ان کے ساتھ تو مخالفین وہ کچھ کر گزرے جو فیض صاحب کے الفاظ میں، اس راہ کے مسافروں کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے: 'تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِ بازار‘۔ اس سے زیادہ ان کے ساتھ کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب ایک زندگی باقی ہے اور وہ کسی انسان کے نہیں، اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ سب کچھ گنوانے کے بعد، اب نواز شریف کس بات کے لیے ڈیل کریں گے؟ اگر وہ مزاحمت کی قوت کھو دیں گے تو خاموش ہو جائیں گے۔ ڈیل تو پھر بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ڈیل یا ڈھیل کا مقدمہ، کم از کم نواز شریف اور مریم نواز کی حد تک بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
نواز شریف صاحب نے جیل واپسی کے لیے جو طریقہ اختیار کیا، وہ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ اور مریم مزاحمت سے دست بردار نہیں ہوئے۔ شہباز شریف صاحب کو بھی تاریخ کا جبر شاید وہاں لے آیا ہے کہ وہ بھی نواز شریف سے الگ کوئی راستہ اختیار نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس سر دست اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ بڑے بھائی کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
نواز شریف صاحب نے جیل جا کر نون لیگ کو نئی زندگی دے دی۔ اس کے دو فوری فائدے تو ظاہر و باہر ہیں۔ ایک یہ کہ نون لیگ کا کارکن مایوسی سے نکل آئے گا۔ اب وہ گلی بازار میں مخالفین کا سامنا زیادہ اعتماد کے ساتھ کر سکے گا۔ وہ سینہ تان کر کہہ سکتا ہے کہ اس کے لیڈر نے کوئی ڈیل نہیں کی۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس بیانیے کو بھی نئی زندگی ملے گی جو نون لیگ کی اصل قوت ہے۔ میں یہ بات تکرار سے کہتا آیا ہوں کہ اگر نون لیگ نے اس بیانیے کی اونرشپ نہ لی تو زیادہ دیر خلا نہیں رہے گا۔ کوئی نئی قیادت ابھرے گی جو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دے گی۔ اگر نون لیگ نے ایک مزاحمتی قوت کا تاثر دیا تو وہی اس بیانیے کی محافظ سمجھی جائے گی۔
میرا احساس ہے کہ نواز شریف کی جیل واپسی ملکی سیاست کو بھی ایک رخ دے گی۔ سیاست میں نواز شریف کی مرکزیت برقرار رہے گی۔ اُن کی خاموشی نے پیپلز پارٹی اور بالخصوص بلاول بھٹو کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ قومی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں۔ نواز شریف کی جیل کی طرف معنی خیز واپسی سے بلاول اب پس منظر میں چلے جائیں گے۔ مریم نواز اگر سیاسی منظر نامے پر موجود رہتی ہیں تو پھر انہیں مصنوعی طور سے اس سے الگ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
نواز شریف صاحب اور مریم نواز کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے پاس اب کھونے کو کچھ باقی نہیں ہے۔ مریم نواز کے لیے اگر مستقبل میں کوئی امکان پوشیدہ ہے تو اس کا راستہ بھی یہی مزاحمت کی سیاست اور اس بیانیے کے ساتھ وابستگی ہے۔ مزاحمت کی سیاست لازم نہیں کہ تصادم کی سیاست ہو۔ گاندھی نے مزاحمت کی سیاست کی اور قائد اعظم نے بھی مگر مخالفین سے متصادم نہیں ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو ان سیاسی تحریکوں اور شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہیے جنہوں نے کسی موجود نظام کے خلاف پرامن مزاحمت کی اور اس میں کامیاب ہوئے۔
پاکستان میں آج بہت سے مزاحمتی رجحانات موجود ہیں۔ یہ سیاسی سطح پر ہیں اور سماجی سطح پر بھی۔ ان کو زبان دینے کی ضرورت ہے۔ مریم یہ کام کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے صبر اور حکمت کے ساتھ حکمتِ عملی بنائی جائے تو پاکستان کے حقیقی مسائل حل ہونے کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ بطور متبادل عمران خان صاحب کی ناکامی، ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کرے گی۔ اگر نواز شریف صاحب نے اس سے بے وفائی کی تو یہ بیانیہ نئی قیادت تلاش کر لے گا۔
نواز شریف صاحب نے اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز میں کہا تھا کہ 'وہ اب نظریاتی ہو گئے ہیں‘۔ انہیں اب اپنے اس قول پر پہرہ دینا ہے۔ اقتدار کی سیاست کرنے والے اس ملک میں بہت ہیں۔ ایک خلا ہے کہ کوئی پاکستان کے اصل مسائل کو چھیڑنے کی جرأت نہیں کرتا۔ یہ مسائل اصلاً دو ہی ہیں: سول ملٹری تعلقات اور مذہب و ریاست کا باہمی تعلق۔ ملک کو اب ایسی سیاسی قیادت چاہیے جو انہیں سنجیدگی سے موضوع بنائے اور ان کے ممکنہ حل پر قوم کو جمع کرے۔
نواز شریف صاحب جب بھی جیل گئے، انہوں نے نون لیگ کو نئی زندگی دی۔ وہ 2018ء میں جیل گئے تو بد ترین حالات میں بھی نون لیگ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور نواز شریف اس کے غیر متنازعہ لیڈر بن کر سامنے آئے۔ اب وہ دوسری بار جیل گئے ہیں تو انہوں نے ایک بار پھر نون لیگ کو زندہ کر دیا ہے۔ قیدی کی واپسی کے بعد 'میںکسی کو این آر او نہیں دوںگا‘ جیسے بے معنی جملوں کی تکرار صرف حظ اٹھانے کے لیے ہی ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved