تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-05-2019

حواس برقرار رہنے چاہئیں !

قومی معیشت یوں تو ڈھائی تین سال کے دوران شدید مشکلات سے دوچار رہی ہے‘ مگر گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران پریشانی خاص طور پر بڑھی ہے۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے ناگزیر سمجھی جانے والی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں جو تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرلی گئی تھی‘ وہ بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ ن لیگ کے جانے کے بعد جب پی ٹی آئی نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تب سے شدید الجھنوں کا آغاز ہوا۔ معاملات خرابی ہی کی طرف جارہے ہیں۔ حکومت اب تک معاملات کو پوری طرح سمجھنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہی۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر پائی جانے والی الجھنیں برقرار ہیں۔ یہ سب کیوں ہے‘ یہ سمجھنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ اب تک کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی حوالے سے خاطر خواہ تیاری دکھائی نہیں دی ہے۔ تیاری نہ کیے جانے پر معاملات کو الجھ ہی جانا ہوتا ہے۔ 
معیشت میں رونما ہونے والی خرابیوں کے نتیجے میں معاشرہ جس شدید الجھن سے دوچار ہے ‘وہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں۔ عوام پریشان ہیںاور پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ مسائل گہراتے جارہے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور دوسری طرف روزگار کے مواقع میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ بڑے ادارے لے آف‘ یعنی چھانٹی کی راہ پر گامزن ہیں۔ چند ایک شعبوں کو چھوڑ کر باقی پوری معیشت (یعنی کاروباری ادارے) افرادی قوت میں کمی کرتی جارہی ہے ‘تاکہ اخراجات کا گراف نیچے لایا جاسکے۔ جب معیشت کی خرابیوں کا نشانہ بننے والوں کی بات آتی ہے تو علامہ اقبالؔ یاد آجاتے ہیں جنہوں نے کہا تھا ع
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر 
معیشت میں پیدا ہونے والی خرابیوں اور پیچیدگیوں کی برق ویسے تو عوام پر گرتی ہے‘ مگر عوام میں بھی سب اس کی زد میں نہیں آتے۔ عام آدمی معیشتی خرابیوں کا نشانہ بنتا ہے تو سیلف ایمپلائمنٹ کی صورت میں کوئی نہ کوئی حل تلاش کر ہی لیتا ہے۔ معیشتی خرابیوں کا حتمی ہدف تنخواہ دار طبقہ ہوتا ہے۔ جو لوگ مہینہ بھر محنت کرنے کے بعد کرنے کے بعد تنخواہ پاتے ہیں مہنگائی کا عذاب در حقیقت اُنہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یومیہ بنیاد پر اُجرت پانے والے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی مناسبت سے اپنی اُجرت بڑھادیتے ہیں۔ جب بھی مہنگائی کی لہر آتی ہے‘ ہر چیز مہنگی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بس‘ رکشا اور ٹیکسی کے کرائے خود بخود بڑھ جاتے ہیں۔ چائے کے ہوٹل اپنے نرخوں پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ سات روپے والی روٹی آٹھ کی کردی جاتی ہے۔ ایک پلیٹ سالن کے نرخ میں بھی دس‘ پندرہ یا بیس روپے کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اسی طور الیکٹریشین‘ پلمبر‘ راج مستری (معمار)‘ گھروں کو پینٹ کرنے والے‘ درزی‘ نانبائی‘ پھل فروش‘ سبزی فروش‘ ہیئر ڈریسر‘ قصائی‘ شربت بیچنے والے‘ پان والے اور دوسرے بہت سے لوگ اپنی اپنی اشیاء و خدمات کا معاوضہ یا نرخ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جانے کی صورت میں جب کرایا بڑھ جانے کی بنیاد پر اشیاء کی قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں تب تاجر بھی اپنا منافع بڑھادیتے ہیں۔ باقی سب کے لیے معاملہ ایڈجسٹمنٹ کا ہوتا ہے مگر تنخواہ دار طبقہ کیا کرے‘ کس سے انصاف چاہے؟ اُسے تو محدود تنخواہ ملتی ہے اور اُسی میں گزارا کرنا ہوتا ہے۔ مہنگائی بڑھتی چلی جائے تو بالآخر اُس کے لیے جینا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ اگر بہتر طور پر گزارا کرنا چاہے تو اُس کے لیے زیادہ کام کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ اس طبقے کے لوگ بالعموم دو نوکریاں کرتے ہیں۔ گویا زندگی کو بوجھ ڈھونے کے لیے دوسروں سے دگنی محنت کرنا پڑتی ہے۔ 
یہ تماشا کم و بیش ڈھائی عشروں سے جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت تک معاملات قابو میں تھے۔ نواز شریف کے دورِ حکومت میں مہنگائی کا گراف بلند ہوتے چلے جانے کی روایت شروع ہوئی۔ نواز شریف نے اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے تک معاملات کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی۔ جب اُنہیں ہٹاکر پرویز مشرف نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ‘تب معاملات یکسر پلٹ کر رہ گئے۔ ایک طرف تو مہنگائی کی لہر آئی اور دوسری طرف املاک کی قیمتیں بڑھتی چلی گئیں۔ پلاٹس اور مکانات کی قیمتیں (مصنوعی طور پر) بڑھنے سے مہنگائی کے گراف کا بلند ہونا فطری امر تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں مہنگائی کے گراف کے بلند ہونے کا عمل اس انداز سے شروع ہوا کہ معاملہ اب تک قابو میں نہیں لایا جاسکا ہے۔ خیر‘ قوم بھی ایسی گئی گزری نہیں۔ اُس نے ''سیلف ایڈجسٹمنٹ‘‘ کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ حکومت ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو یار لوگ چار قدم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کسی چیز کے نرخ میں محض دو تین فیصد کا اضافہ کرتی ہے تو لوگ اپنے اپنے معاوضے میں پچیس فیصد تک اضافہ کرلیتے ہیں۔ یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور‘ مکینک‘ ٹیکنیشین اور دیگر افراد اپنا معاوضہ بڑھاکر پوری وصولی کرتے ہیں۔ یہاں تک بھی ٹھیک ہے۔ معاملہ جب سفّاکی کی حد کو چُھولے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ لوگ جب مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی ٹھانتے ہیں تو مظلوم کی کیٹیگری سے نکل کر ظالم کی کیٹیگری میں داخل ہو جاتے ہیں! اگر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں کسی چیز کے دام محض ایک فیصد بڑھے ہوں تو دُکاندار پانچ فیصد سے بھی زائد اضافی رقم وصول کرنے لگتے ہیں۔ یہی حال دوسرے بہت سے معاملات کا ہے۔ جب سبھی اپنا خسارہ پورا کرنے میں مصروف ہیں ‘تو رونا کس بات کا ہے؟ 
مہنگائی معاشی معاملہ ہے ‘مگر اس کے چند ایک معاشرتی پہلو بھی ہیں۔ اگر حکومتی اقدامات کے نتیجے میں چند ایک اشیاء کی قیمت بڑھ بھی جائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو ذبح کرنا شروع کردیں۔ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے مفادات پر ''جَھپٹّا‘‘ مارنا اُنہیں ذبح کرنے ہی کے مترادف ہے۔ ذرا سی مشکل آن پڑے تو لوگ جھیلنے کے بجائے دوسروں کی جیب سے سب کچھ نکلوانے پر تُل جاتے ہیں۔ عام آدمی کا یہی المیہ ہے۔ ہوش و حواس کا برقرار رہنا لازم ہے‘ مگر وہ سب سے پہلے ہوش و حواس ہی کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ معاشی مسائل سے بہتر طور پر نپٹنے کا ایک معقول طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشرتی اور اخلاقی معاملات کی درستی کے حوالے سے لوگوں کی تربیت کی جائے۔ معاشی الجھنوں کے بڑھنے کا لازمی مفہوم یہ نہیں کہ انسان تمام اعلٰی اقدار کو بالکل بھول کر پتھر کے دور کے انسان کی سی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ بہت سی خرابیوں کے باوجود ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ایسا گیا گزرا نہیں کہ ذرا سی الجھن پر ہم انتہائے بے حواسی کے عالم میں تمام اخلاقی اور تہذیبی حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کو لُوٹنے لگیں۔
ہر بڑی تبدیلی اپنے ممکنہ نتائج کی شکل میں چند ایک چھوٹی تبدیلیاں بھی ساتھ لاتی ہے۔ مشکلات معاشی ہوں یا معاشرتی‘ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ خرابیوں کو اپنے سامنے پاکر بھی ہم کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ خالص عارضی نوعیت کا حل تلاش کرکے ہم بھرپور اطمینانِ قلب چاہتے ہیں۔ یہ سوچ کی بھی غلطی ہے اور عمل کی بھی۔ دنیا بھر میں جو معاشی و معاشرتی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اُن کے نتیجے میں ہمارے ہاں بھی بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس پر کُڑھنے کی بجائے اصلاحِ احوال کی فکر لاحق ہونی چاہیے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved