چوتھے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے ‘جب تک اس چیز کوخرچ نہیں کرتے ‘جو تمہیں محبوب ہے اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ اس کو خوب جانتا ہے ۔اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرامث نے اپنے محبوب ترین مال کو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا شروع کردیا تھا ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں انس بن مالک صسے مروی ہے کہ جناب ابو طلحہ صبہت مالدار صحابی تھے ۔ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ تھا‘ جو مسجد نبوی کے بالمقابل تھا۔ رسول کریم ﷺ کبھی کبھا ر اس باغ میں تشریف لاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول کریمﷺ سے عرض کی کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ ہے‘ میں اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔
اس پارے میں اللہ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پہلا گھر مکہ مکرمہ میںتعمیر کیا گیا تھا اور ہر صاحب استطاعت مسلمان پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو بھی اس گھر میں داخل ہوتا ہے اس کو امن حاصل ہو جاتا ہے ۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اگر اہل ایمان ‘ اہل کتاب کے کسی گروہ کی اطاعت اختیار کریں گے ‘تو وہ ان کو ایمان کی سرحدوں سے نکال کر کفر کی حدود میں داخل کر دیں گے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ ان کو اللہ کی رسی کو مضبوطی کے سا تھ تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی سے مُراد قرآن مجید ہے۔اگر تمام مسلمان مضبوطی کے ساتھ قرآن کو تھام لیں تو ان کے باہمی اختلافات با آسانی دور ہو سکتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قیامت کے دن اہل ایمان کے چہرے سفید اور ایمان کو ٹھکرانے والوں کے چہرے سیاہ ہو ں گے ۔سفید چہروں والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے ‘جبکہ سیاہ چہرے والے اپنے کفر کی وجہ سے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمان بہترین اُمت ہیں ‘جن کی ذمہ داری نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ہے؛اگر ہم صحیح معنوں میں بہترین اُمت بننا چاہتے ہیں‘ توہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے پر چلنا چاہیے ۔
اس پارے میںاللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف آئے تو کافر خوش ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوشی حاصل ہو تو کافر‘ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں؛ اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں تو کافروں کی کوئی خوشی اور ناراضگی مسلمانوں کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی ۔
اس سورہ میں اللہ نے غزوہ بدر کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے نبی کریمﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی نصرت کے لیے تین ہزار فرشتوں کو اتارے گا اور اسی طرح اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کافر مسلمانوں تک رسائی حاصل کرلیں گے اور مسلمان صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کریں‘تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اتارے گا ۔سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی مددایک ہزار فرشتوں سے کی جائے گی‘ جن کے بعد مزید فرشتے آئیں گے ۔اللہ نے ساتھ ہی یہ بھی فرما یا کہ فرشتوں کی مدد تو ایک خوشخبری ہے‘ وگرنہ اصل میں تو مدد فرمانے والی اللہ کی ذات بالا صفات ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو!سود در سود کھانے سے اجتناب کرو۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ جنت کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ اس سورت میںاللہ تعالیٰ نے جنتی مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جب ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ہوجاتا ہے‘ تو انہیں اللہ کا خوف دامن گیر ہوجاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے۔
غزوہِ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس نقصان کی وجہ سے مسلمان بہت دکھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوتسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں اور اس ذریعے سے اللہ مومنوں کو بھی جانچ لیتے ہیںاور کئی لوگوں کو شہادت کا منصب بھی عطا فرما دیتے ہیں۔اللہ کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خوشی اور غم‘ تکلیف اور راحت اللہ کی طرف سے ہے اور دنوں کے پھرنے میں اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذارسانی کی باتیں سنو گے‘ لیکن تم نے دل گرفتہ نہیں ہونا اور صبر اور تقویٰ کو اختیار کرنا ہے بے شک یہ بہت بڑا کام ہے ۔اللہ کے نبی ﷺ کے بارے میں مشرکین ‘عیسائی اور یہودی طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ منافقین کا سردار عبد اللہ ابن ابی بھی اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں رسول اللہ ﷺ کو ایذا دینے میں مصروف رہا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی مدد فرمائی اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ناکام اور نامراد بنادیا۔
سورہ آل عمران کے بعد سورہ النساء ہے ۔سورہ النساء کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے‘ جو کہ ان کا پروردگار ہے اور اس نے ان کو ایک جان‘ یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا او ر ان سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا اور پھر کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا ۔اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذات پات اور برادری وجہ عزت نہیں اس لیے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے ۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے صنفی بدامنی کو روکنے والی ایک تدبیر بھی بتلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''تم اپنی من پسند دو‘ تین اور چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو ‘تاہم اگر تم محسوس کرو کہ تم انصاف نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ایک ہی کافی ہے‘‘۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل کو بھی بڑ ی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والد کی جائیداد میں سے بیٹوں کا بیٹیوں کے مقابلے میں دُگنا حصہ رکھا ہے ۔اگر کسی انسان کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں وہ انسان کی دو تہائی جائیداد کی مالک ہوں گی اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو وہ نصف جائیداد کی مالک ہو گی ۔شوہر اپنی بیوی کی جائیداد میں ایک چوتھائی حصے کا مالک ہو گا ‘جبکہ بیوی اپنے شوہر کی جائیداد میں آٹھویں حصے کی مالک ہو گی۔ والد اور والدہ کا اپنے بیٹے کی جائیداد میں چھٹا حصہ ہو گا‘ اسی طرح بے اولاد شخص کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی۔جائیداد کی تقسیم سے قبل انسان کے ذمہ واجب الادا قرض کو ادا کرنا چاہیے اور اگر اس نے کسی کے حق میں کوئی وصیت کی ہو جو کہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی‘ اس کو ادا کرنا چاہیے ۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے حق مہر کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ''انسان اپنی بیوی کو حق مہر کے طور پر خزانہ بھی دے سکتا ہے اور انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ حق مہر دینے کے بعد اس کو واپس لینے کی کوشش کرے‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)