اپوزیشن کرنا مشکل‘ حکومت کرنا بہت آسان ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کرنا مشکل ‘جبکہ حکومت کرنا بہت آسان ہے‘‘ کیونکہ اپوزیشن کو ادارے مصروف رکھتی ہیں اور وہ اور کوئی کام کر ہی نہیں سکتے‘ جبکہ حکومت کرنا اس لیے بھی بہت آسان ہے کہ وزیراعظم کو زیادہ تر یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ واقعی وزیراعظم ہیں اور حکومت کا کام اپنے آپ ہی چلتا رہتا ہے اور اگر وزیراعظم کو یاد دلا بھی دیا جائے تو ان کا زیادہ تر وقت اداروں کو ہلاشیری دینے اور اپوزیشن کو ڈرانے دھمکانے میں صرف ہو جاتا ہے‘ جو بجائے خود ایک قومی فریضہ ہے اور میں یہ فریضہ نہایت احسن طریقے سے انجام دیا کرتا ہوں‘ جبکہ فرض شناس ہونا ویسے بھی وزیراعظم کے لیے بیحد ضروری ہے‘ نیز اپوزیشن کا حافظہ؛ چونکہ بیحد کمزور واقع ہوا ہے‘ اس لیے اُسے بار بار یاد دلانا پڑتا ہے کہ اسے این آر او نہیں ملے گا ۔ آپ اگلے روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں گفتگو کر رہے تھے۔
گرفتاری سے بھاگتے پاکستانی تاریخ نے بہت دیکھے ہیں: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کی سزا یافتہ صاحبزادی اور نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''گرفتاری کے ڈر سے بھاگتے ہوئے پاکستانی تاریخ نے بہت دیکھے ہیں‘‘ جن میں سب سے پہلے والد صاحب تھے ‘جو اپنے سارے خاندان کو ساتھ لے کر سعودی عرب بھاگ گئے تھے کہ این آر او کے بعد بھاگنے میں کافی سہولت رہتی ہے اور اب بھی جس کیلئے سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے‘ بصورت ِدیگر اپنی پراسرار خاموشی توڑ دیں گے اور پرانے بیانیہ کی گونج ہر طرف سنائی دے گی‘ نیز چچا جان نے پی اے سی کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ واقعی واپس بھی آ رہے ہیں‘ تاکہ میرے رنگ میں بھنگ ڈال سکیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ٹویٹ پر ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
حکمرانوں کے اوسان خطا ہو چکے ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے اوسان خطا ہو چکے ہیں‘‘ جنہیں بحال کرنا مقصود ہو تو خاکسار کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں ‘کیونکہ امیر جماعت ہونے کی وجہ سے آج کل کافی فارغ ہوں ‘بلکہ فارغ رہنے کیلئے ہی مجھے امیر منتخب کیا گیا تھا ؛حالانکہ باقی عہدیدار مجھ سے بھی زیادہ فارغ تھے‘ جن میں کئی فارغ البال بھی تھے‘ یعنی ان کے بال بچوں نے بھی اُنہیں فارغ کر دیا ہوا ہے‘ تاہم میں اتنا بھی فارغ نہیں ہوں‘ کیونکہ ہر روز مجھے ایک نیا بیان جاری کرنا ہوتا ہے اورجس دن ایسا نہ کر سکوں‘ میری باقاعدہ جواب طلبی ہوتی ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
98لاکھ جعلی اکاؤنٹس ہیں‘ سب کا حساب ہونا چاہیے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''ملک میں 98لاکھ جعلی اکاؤنٹس ہیں‘ سب کا حساب ہونا چاہیے‘‘ جبکہ 95لاکھ تو وہ ہیں ‘جو زرداری صاحب نے کھلوا رکھے تھے‘ باقی تین لاکھ کا حساب لگانا بھی بیحد ضروری ہے‘ جبکہ زرداری صاحب اپنی جگہ پر ناراض ہیں کہ یہ باقی تین لاکھ کہاں سے آ گئے ہیں ‘جبکہ اس سے پہلے اُن کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھی‘ کیونکہ وہ اپنے کام میں کسی کی شراکت اور مداخلت پسند نہیں کرتے‘ جبکہ کسی اور کو اس کام کا سلیقہ بھی نہیں؛ چنانچہ بہتر تو یہ ہے کہ ان تین لاکھ اکاؤنٹس کا سراغ لگا کر انہیں زرداری صاحب کے حضور پیش کر دیا جائے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
رسالہ باراں ماہ
اخباری اطلاعات کے مطابق ؛لاہور سے ''باراں ماہ‘‘ کے نام سے ایک پنجابی جریدے کا اجراء کیا جا رہا ہے‘ جو بجائے خود بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس سے ماں بولی کی ترویج و ترقی کا کام آگے بڑھے گا‘ تاہم اس جریدے کا نام بجائے خود محلِ نظر ہے‘ کیونکہ ''ماہ‘‘ خالصتاً فارسی زبان کا لفظ ہے ‘جو اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ جبکہ ''ماہ‘‘ کے لیے پنجابی کا لفظ مانہہ ہے‘ یعنی ''ساون مانہہ‘‘ کہیں گے‘ ''ساون ماہ‘‘ نہیں‘ نیز جہاں متبادل پنجابی لفظ دستیاب ہو ‘وہاں اُردو لفظ استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ‘جبکہ یہاں تو بسم اللہ ہی غلط ہو رہی ہے۔
زاہد مسعود
گزشتہ دنوں زاہد مسعود تشریف لائے ۔ میری فرمائش پر انہوں نے کچھ تازہ اشعار عنایت کئے‘ جو یہاں پیش خدمت ہیں۔
وفا کا مرحلہ سمجھو جہاں تک آ گیا ہے
مسافر ایک شہرِ بے اماں تک آ گیا ہے
لگی تھی آگ جو چوپال میں‘ بجھنے لگی ہے
ہوا کا زور سارا داستاں تک آ گیا ہے
کھلی جب آنکھ تو جانا سرابوں کے سفر میں
کہ پانی اب تو خطرے کے نشاں تک آ گیا ہے
گلی کے موڑ سے آگے کوئی رستہ بتاؤ
غریبِ شہر اک خالی مکاں تک آ گیا ہے
بڑی مدت سے اپنے ہی نشانے پر کھڑا ہوں
کہ اب تو تیر بھی اپنی کماں تک آ گیا ہے
آج کا مطلع
کوئی مکیں نہیں سارا مکاں بھرا ہوا ہے
درخت ہی نہیں اور آشیاں بھرا ہوا ہے