تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-05-2019

انکار سے انکار تک

زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے اور دنیا کے ہر الجھے ہوئے معاملے کو بہتر انداز سے نمٹانے کیلئے جتنے بھی اُصول اور اقدار لازم ہیں اور تقریباً ہر معاشرے میں جنہیں اپنایا جاچکا ہے‘ اُنہیں اپنائے بغیر ڈھنگ سے جیا نہیں جاسکتا۔ پاکستانی معاشرہ بھی اس کُلیے سے مستثنٰی نہیں۔ جن اعلیٰ ترین اقدار کی مدد سے کوئی بھی معاشرہ اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے اور ہر شعبے میں پیش رفت یقینی بناتا ہے ‘اُن میں حق گوئی‘ شجاعت‘ دیانت‘ محنت‘ رواداری‘ تحمل اور دیگر بہت سی اقدار و صفات شامل ہیں۔ ہمارے ہاں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے لازم سمجھی جانے والی بنیادی اقدار کو کسی نہ کسی حد تک اپنایا گیا ہے۔ چند ایک معاملات میں غیر معمولی خرابیاں ہیں ‘تاہم مجموعی طور پر معاشرہ ایسا گیا گزرا نہیں کہ اُسے یکسر ناکام قرار دے کر بالائے طاق رکھ دیا جائے اور مایوسی کو گلے لگالیا جائے۔ 
ویسے تو خیر بہت سے معاملات ہیں جو پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ ان پیچیدگیوں کو دور کرنا حقیقی دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک معاملہ البتہ ایسا ہے ‘جو حد سے زیادہ خرابی کی نذر ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ ہے کسی سے بات چیت کرکے معاملات طے کرنا اور پھر اُسے کُھلے دِل سے قبول کرنا۔ ایک زمانے سے جاری عمل اور مزاج کے مطابق پاکستانی معاشرے کا ایک بنیادی وتیرہ یہ ہوگیا ہے کہ الجھے ہوئے معاملات کو الجھا ہوا رہنے دیا جائے‘ اصلاحِ احوال کی خاطر خواہ کوشش نہ کی جائے۔ سرِدست معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ لوگ بات بات پر ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ غصہ تو جیسے ناک پر دھرا رہتا ہے۔ جہاں کسی نے کوئی ایسی ویسی بات کی اور پھٹ پڑنے کا موقع ملا۔ لوگ ذرا سی بات پر یوں مشتعل ہو جاتے ہیں گویا قتل کردیں گے۔ ایسا کیوں ہے؟ معاشی اور معاشرتی پیچیدگیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ جب لوگ شدید معاشی الجھنوں سے دوچار ہوتے ہیں تب معاشرتی امور میں بھی اُن کیلئے الجھنیں بڑھتی جاتی ہیں؛ اگر گھر کا بجٹ تنگی کا شکار ہو تو اثرات معاشرتی معاملات پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے معاشی مشکلات بڑھتی جاتی ہیں‘ معاشرتی معاملات میں بھی پیچیدگی کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے۔ کم ہی لوگ ہیں‘ جو معاشی خرابیوں کو اپنی طرزِ فکر و عمل پر اثر انداز ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ 
بات ہو رہی تھی ''جا‘ میں تو سے ناہی بولوں‘‘ پر مبنی ذہنیت کی۔ آج ہمارے ہاں یہ بات بہت عام ہوگئی ہے کہ کسی کو اُس کی کسی کوتاہی پر ٹوکیے‘ جواب طلب کیجیے‘ تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے‘ جیسے ماں کی گالی دے دی گئی ہو۔ کوئی اپنی کسی کوتاہی کے بارے میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ کوتاہی بالعموم جان بوجھ کر نہیں کی جاتی۔ اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ جب کوئی کسی کوتاہی اور غفلت کے بارے میں کچھ سننا نہیں چاہتا تو پھر دانستہ کی جانے والی غلطی پر جواب طلبی سے اُس کا کیا حال ہوتا ہوگا! بات چیت بند کردینا اور منہ نہ دیکھنا آج ہمارے معاشرے کی پسندیدہ ترین روشوں میں سے ایک ہے۔ اس روش پر لوگ اتنی تیزی سے گامزن ہیں کہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دس پندرہ سال بعد کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا ہوگا! تعلیم اور تربیت میں رہ جانے والی کمی کے باعث لوگ بیشتر معاملات میں پریشان کن اور شرمناک حد تک الجھے ہوئے رہتے ہیں۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے‘ اُنہیں کچھ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ جس روش پر وہ گامزن ہیں وہ اُنہیں کس طرف لے جائے گی۔ ذہن میں رونما ہونے والے کسی بھی خلل کے بہت سے اسباب ہوا کرتے ہیں۔ بات بات پر روٹھ جانا بھی ذہنی خلل ہی کا ایک واضح مظہر ہے۔ ذہنی خلل کی یہ قسم بھی تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ جب کسی کو بچپن ہی سے ذہنی طور پر تیار کیا جائے ‘تو وہ لوگوں سے معاملات بہتر بنائے رکھنے سے متعلق بہت کچھ سیکھتا ہے۔ بڑی عمر میں کسی کو کچھ سکھانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ ہمارے فکری ڈھانچے میں بہت سی کمزوریاں تربیت میں رہ جانے والی کمی اور خامی کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ انسان گھر کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے؛ اگر کسی گھر یا گھرانے میں بات بات پر روٹھ جانے کا میلان پایا جاتا ہو تو وہاں پیدا ہونے والے بچے بھی یہی سب کچھ سیکھیں گے۔ وہ بچپن ہی سے بات بات پر روٹھنے اور ٹھنکنے لگیں گے۔ 
اپنے گھر‘ گھرانے اور خاندان کے ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ آپ کے مزاج میں بھی ایسا بہت کچھ ہے ‘جو دراصل آپ کو ماحول سے ملا ہے۔ بہت سی خرابیاں ماحول کی پیدا کردہ ہوتی ہیں اور اگر اصلاحِ نفس پر خاطر خواہ توجہ مرکوز نہ کی جائے تو یہ خرابیاں مزید پیچیدہ ہوکر انتہائی پریشان کن مسائل میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں سے عبارت ہوتا ہے۔ خوبیوں کو پروان چڑھانے اور خامیوں کو دور یا کنٹرول کرنے ہی سے زندگی متوازن ہوتی ہے‘ معاملات کی پیچیدگی دور ہوتی ہے۔ کوئی بھی انسانی ہر اعتبار سے تو بے داغ کردار و مزاج کا حامل نہیں ہوسکتا۔ ہر انسان میں چند ایک خامیاں‘ خرابیاں اور پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ کمزوریوں کو کنٹرول کرنے کا عمل زندگی بھر جاری رہنا چاہیے‘ تاکہ بیشتر معاملات متوازن رہیں۔ 
اگر کسی کے مزاج میں بات بات پر ٹھنکنا اور روٹھ جانا شامل ہوگیا ہو تو ڈھنگ سے جینا دشوار ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ جب کسی معاملے میں حقیقت کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تو منہ پُھلاکر‘ بات چیت بند کرکے ''ٹائم آؤٹ‘‘ لیتے ہیں۔ اس کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس روش پر دیر تک اور دور تک گامزن رہنے والوں کے مزاج میں کجی بڑھتی جاتی ہے‘ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ ہر معاملے میں شدید منفی سوچ کے حامل ہو جاتے ہیں۔ یہ منفی سوچ اُن کے پورے وجود کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ 
اپنے مزاج کے خلاف معمولی سی بھی بات برداشت نہ کرنے والوں کو زندگی بھر شدید الجھنوں کا سامنا رہتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ قدم قدم پر اپنے آپ سے اور دوسروں سے الجھتے ہیں۔ معاملات کو نمٹانے پر یقین رکھنے کی بجائے وہ بُرا مان کر‘ روٹھ کر‘ منہ پُھلاکر‘ بات چیت کرکے بات کو بگاڑ لیتے ہیں اور اصلاحِ احوال کا امکان ہی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ایسے لوگ انکار میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا ہر معاملہ انکار سے شروع ہوکر انکار پر ختم ہو جاتا ہے۔ معاملات کو خوش دِلی سے درست کرنے کی بجائے منہ پُھلاتے رہنے کا آپشن اپناکر یہ لوگ خرابیوں کی جڑیں مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ اپنے ماحول پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ کون ہے‘ جو اِنکار کی دلدل میں دھنس گیا ہے۔ لازم ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو ڈھنگ سے‘ تعقل اور تحمل کے ساتھ جینے کی تحریک دی جائے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کا معیاری طریقہ یہ ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے مسئلے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جائے۔ اپنے پورے وجود کو انکار کے mode اور mood کی نذر کردینا کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول اور قابلِ ستائش نہیں۔ ہر معاملے میں انکاری مزاج کا اظہار زندگی کو بالآخر بند گلی میں دھکیل دیتا ہے۔ انکاری مزاج شخصیت کے پنپنے کی راہ رفتہ رفتہ مکمل طور پر مسدود کردیتا ہے۔ انکاری مزاج ہی کے ہاتھوں تمام معاملات ایسے الجھتے ہیں کہ پھر سلجھائے نہیں سلجھتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved