8 مئی کو سالگرہ کے موقع پر مشترکہ جامع منصوبہ بندی (جے سی پی او اے)ایٹمی معاہدے کے تحت نئی پیش رفت ہوئی ۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اعلان کیا کہ ایران 2018ء کے معاہدوں کے تحت کئے گئے دو وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ایٹمی پلان معطل کرے گا۔یہ بات بھی واضح کی کہ ایران پہلے مرحلے میں زیادہ سے زیادہ یورینیم ذخائر 300 کلو گرام تک یا بھاری پانی کے ذخائر کو 130 میٹرک ٹن تک محدود نہیں کرے گا۔ دوسری جانب صدر روحانی نے کہا کہ ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدے میں شامل ممالک (جرمنی، فرانس، برطانیہ، یورپی یونین، روس اور چین) تیل کے شعبے اور بینکنگ کے شعبے میں تعاون سے اپنے وعدوں کو پوراکریں۔ساتھ میں دھمکی بھرے لہجے میں یہ بھی کہا کہ اگر وہ ناکام رہے تو ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو ترک نہیں کرے گا بلکہ اسے مزید تقویت دے گا۔
حالیہ ہفتوں میں امریکہ کی ایران کے خلاف پابندیوں کی مہم کو تیز ہوتا ہوا دیکھا گیا۔ اپریل میں اسلامی انقلابی گارڈ کور کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا گیا اور پھررواں ماہ ایران کے تیل کے گاہکوں کو خریداری سے روکا گیا اور نئی پابندیاں لگائی گئیں۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن نے ایران کی سول سوسائٹی پروگرام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگائیں، لیکن اس نے دو اہم پابندیوں کی توسیع نہیں کی جس نے ایران کو بھاری پانی کی اضافی برآمدات اور 300 کلوگرام تک یورینیم کی اجازت دی۔امریکہ کا مقصد یہ ہے کہ ایران کے اقتصادی درد اور بغاوت کو روکنے کے نقطہ نظر کو بڑھائے ، جو ایرانی حکومت کی رٹ کو کمزورکیے ہوئے ہے اورحالات کے پیش نظر حکومت کو مذاکرات کی میز پر واپس لائے۔ ایک معاشی بحران کے ہوتے ہوئے بغاوت کو فوری طور پرکچلنے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ‘ صرف بات چیت کا عمل ہی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن امریکی پابندیوں کی بے مثال شدت ، ایران کو نئے ردعمل (مذاکرات) پر غور کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔
گزشتہ برس کے دوران ایران واشنگٹن کی حکمت عملی پرعمل کر تا دکھائی دیا۔ پچھلے کالم میں ذکر کیا جاچکاہے کہ ایٹمی معاہدے کے متعلق مذاکرات زیادہ دیر نہیں چلیں گے ،مگر ان کے اختتام کے وقت کا تعین ابھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ایران کے تیل پر لگی پابندیوں کے حوالے سے پچھلے ہفتوں میں امریکہ نے ایک بار پھر JCPOA کے فورم پر مکمل طور پرکمی سے انکار کیا۔ ایران کی قیادت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگلے چند سالوں میں ایرانی نیوکلیئر کے خلاف امریکی مداخلت کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ایران نہ صرف اپنی بات چیت کی تصدیق کو یقینی بنائے گا بلکہ مستقبل میں بات چیت کرنے کے عمل سے فائدہ بھی اٹھائے گا۔اپنا موقف تمام نیوکلیئر ممالک کے سامنے پیش کرے گا۔
لیکن ایران کا رد عمل ابتدائی طورپر بے ترتیب دکھائی دیا۔ امریکہ نے پابندیوں کے سبب ایران کو اس قدر جکڑا ہوا ہے کہ اسے دو میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا ۔ بھاری پانی کی پیداوار، جوہری طور افزودگی یا پھرمعاشی طور پر مستحکم سول حکومت۔ ایران بھاری پانی اور کم سے کم یورینیم پیدا کرنے کے عمل کوجاری رکھنا چاہتا ہے۔ایران تذبذب کا شکار ہے کہ وہ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے اس منصوبے کو ترک کر دے یا پھریورپی یونین اور ایٹمی توانائی کے ممالک کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کو بالائے تاک رکھتے ہوئے ،اپنے ایٹمی پروگرام کو بڑھائے۔مگر ایسا کرنے سے کئی خطرات بھی لاحق ہیں ۔واشنگٹن کا ابتدائی رد عمل تین گنا ہوسکتاہے۔ سب سے پہلے امریکہ کے علاقائی اتحادیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے شرق اوسط میں فوجی طاقت کی حیثیت کو بڑھانا ہوگا۔دوسرا ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے،جو واشنگٹن کی جانب سے ایران کی برآمدات اور درآمدات پر لگی موجودہ پابندیوں سے کئی گنا زیادہ ہوں گی ۔مگر JCPOA (ایٹمی حیثیت رکھنے والے ممالک کی تنظیم )کمزور ہو تا ہے تو فوجی تنازعات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ایرانی ایٹمی پلانٹ سے متعلق سرگرمیاں امریکہ اورا س کے اتحادی جیسا کہ اسرائیل‘ کے لیے پریشانی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر ایرانی سرگرمی ماپنے یا ایٹمی معاہدے کی حد ود کو زیادہ حد تک پار کرتا ہے تو واشنگٹن بھی ایران اور ایرانی اتحادی اہداف کے خلاف ممکنہ طور پر محدود امریکی فوجی ہڑتال کا تیزی سے امکان بڑھ جائے گا۔5 مئی کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے ایران کو ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران کے خلیج میں ایک بمبار ٹاسک فورس کے ساتھ یو ایس ایس ابراہیم لنکن کیریئر (امریکی بحری بیڑا)کو تعینات کیا جائے گا۔اسے ایرانی حکومت کے لیے واضح پیغام سمجھا جا رہا ہے ۔امریکی حکام کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ ایرانی حکومت کے خلاف فی الوقت کوئی جنگ نہیں چاہتے مگر ہر طرح کی جنگ کے لیے تیار بھی ہیں۔
بولٹن کا انتباہ امریکہ اور ایران کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کا پس منظر کچھ یہ بھی ہے کہ2015ء میں ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی ڈیل سے امریکہ گزشتہ برس پیچھے ہٹ چکا ہے۔ امریکی منصوبے نے ایران کے وسائل کومحدود اور حکومت کوغیر مستحکم کیا ۔ سخت نقصان دہ بینکنگ اور تیل کی پابندیاں لگائی گئیں،ان پابندیوں نے ایران کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ لیکن امریکی انتظامیہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی یہ مہم ابھی تک ایران کو ایک نئے ایٹمی معاہدے پر تبادلہ خیال کرنے پر رضا مند نہیں کر سکی۔حالیہ دنوں میںایران سے تیل درآمد کرنے والے ممالک کے لیے امریکی استثنیٰ کی مہلت اختتام پذیر ہوئی۔امریکی استثنیٰ سے مستفید ہونے والے 8 ممالک (جن میں چین، بھارت، جنوبی کوریا اور ترکی بھی شامل ہیں) تہران سے تیل درآمد نہیں کر سکیں گے۔اس کے تیل کی برآمدات میں تقریبا 53 فیصدکی کمی واقع ہوئی،اکیلا چین ہی یومیہ 5 لاکھ بیرل سے زیادہ ایرانی تیل درآمد کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت یومیہ 4.05 لاکھ بیرل اور جنوبی کوریا 2.85 لاکھ بیرل تیل ایران سے درآمد کر رہا تھا۔تیل پر پابندیاں لگنا ایران کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔