کچھ دن ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دورۂ پشاور کے دوران طلبا کے ایک گروپ سے انتہائی دوستانہ ماحول میں گفتگو کر رہے تھے کہ ایک سکھ طالب علم ان سے درخواست کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ہمیں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی تصویر قلعہ با لا حصار میں آویزاں کرنے کی اجا زت دی جائے‘ جس پر جنرل باجوہ ہنستے ہوئے چند لمحے اس سکھ طالب علم کی جانب دیکھنے کے بعد بولے: اگر ممکن ہوا تو آپ کی اس خواہش پر پر غور کریں گے۔بس اتنی سی بات تھی کہ پی ٹی ایم کی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک ایڈمن نے اس ''غور‘‘ کو اپنے پراپیگنڈہ کا نشتر بناتے ہوئے پنجاب اور فوج پر یہ کہتے ہوئے تیر برسانے شروع کر دیئے کہ پشتونوں پر ظلم کرنے والوں کو یہ لوگ پسند کرتے ہیں اور جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہاتھا تو وہاںکے پنجابی پروفیسر بھی ہمارے سامنے رنجیت سنگھ کی تعریفیں کیا کرتے تھے جس سے ظاہر ہے کہ پنجابیوں کو پشتونوں سے نہیں بلکہ ان پر ظلم کرنے والے رنجیت سنگھ سے ہمدردی ہے!
جھوٹ بغض اور مفادات کی چاکری کس طرح حواس چھین لیتی ہے اس کا اندازہ اس موومنٹ کے میڈیا سیل کے اس مکر و فریب سے کیا جا سکتا ہے‘ لیکن یہ میڈیا سیل اس قدر بودا اور لاعلم نکلا کہ اسے پتہ ہی نہیں کہ رنجیت سنگھ نے پشتون ہو یا پنجابی ہر مسلمان کا بے دریغ قتل عام کیا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ رنجیت سنگھ کے ہاتھوں ملتان سے لے کر اٹک تک سب سے زیا دہ قتل عام پنجابی مسلمانوں کا ہوا تھا‘ اس لئے وہ پنجابی سکھوں کا ہیرو تو ہوسکتا ہے پنجاب کے مسلمانوں کا کبھی نہیں ۔ پی ٹی ایم کی آنکھ تو دیکھ ہی نہیں سکتی کہ رنجیت سنگھ کے دور میں سب سے زیا دہ مساجد کی بربادی پنجاب میں ہوئی‘ جس کے لیے لاہور کی بادشاہی مسجد کی مثال سب کے سامنے ہے‘ جس کی تفصیلات لکھتے ہوئے آج بھی ہاتھ کانپتے ہیں۔
رنجیت سنگھ کے ہاتھوں سب سے زیا دہ بے حرمتی پنجاب کی مسلمان خواتین کی ہوئی‘ اس لئے ہر پنجابی اپنے پشتون بھائی کے ساتھ مل کر بلند آواز سے کہتا ہے کہ رنجیت سنگھ پٹھانوں اور پنجابیوں کامشترکہ قاتل تھا۔ اس لئے وہ کسی سکھ کے لیے محترم ہو سکتا ہے مسلمان کے لیے نہیں ۔ اب پشتون تحفظ موومنٹ کے ان میڈیا منیجر سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ رہا معاملہ گورنمنٹ کالج کے کسی ایک یا دو پروفیسرز کا تو جن وقتوں کی پی ٹی ایم کے یہ سوشل میڈیا انچارج بات کر رہے ہیں ان دنوں لاہور کی یونیورسٹی اور کالجوں میں بہت سے ترقی پسند استاد ایسے بھی تھے جو مائوزے تنگ ‘ کارل مارکس اورلینن کو دنیا کے تمام لیڈروں سے افضل مانتے اور ان کی کمیونزم کی تعلیمات کو طلباکے ذہنوں میں ایک منصوبے سے ٹھونسنے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ تو کیا ان کی ترغیب سے کارل مارکس اور لینن پنجابیوں کے لیڈر بن گئے؟ اب اس قسم کے ترقی پسند اور دو قومی نظریے کے مخالف بہت سے پنجابی دانشور اور سیا سی لیڈرجو رنجیت سنگھ کی محبت کا شکار تھے‘ جو اسے پنجاب کا سکہ بند لیڈر کہتے تھے‘وہ یا تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں یا بڑھاپے کی زندگی گزار رہے ہیں۔تو کیا ایسے لوگ جو پنجاب کے اندر بیٹھ کر رنجیت سنگھ کے گیت گاتے ہوئے پنجابیوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں‘ ان کے اس گناہ کو کوئی پشتون کس طرح پنجابیوں اور فوج کے کھاتے میں ڈال سکتا ہے؟
کچھ برسوں سے لاہور میں ترقی پسندوں کا ایک ایسا گروہ ابھر ا ہے جو بھگت سنگھ کو پنجاب کے لیڈر کے طور پر روشناس کرانے کے لیے ہر سال بھگت سنگھ کی پھانسی کے دن شادمان چوک لاہور میں جمع ہو کر موم بتیاں جلاتے اور نظمیں پڑھتے ہیں۔یہ لوگ شادمان کے اس چوک میں بھگت سنگھ کی یاد گار بنانے اوراس چوک کا نام بھگت سنگھ کے نام پر رکھنے کے لیے باقاعدہ اشتہار بازی کرتے ہیں ۔ ان دانشوروں اور ترقی پسندوں نے نواز لیگ کی پنجاب حکومت سے مل کر قرار دادیں منظور کرانی شروع کر دیں‘ جس سے کچھ وطن دوست اس معاملے کو عدالت میں لے گئے جس سے ان کی یہ کوشش نا کام ہو ئی ورنہ آج شادمان کے اس چوک میں بھگت سنگھ کا مجسمہ گاڑ دیا جانا تھا اور یہ صرف ابتدا تھی اس کے بعد گاندھی کے مجسمہ کی بات بھی شروع ہو سکتی تھی۔وہ تو بھلا ہو اس ملک کے دو قومی نظریے سے محبت کرنے والے لوگوں کا کہ وہ اس گروہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ۔ اس جھگڑے میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امن و امان خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا لیکن پولیس اور انتظامیہ نے بروقت آگے بڑھ کر معاملہ بڑھنے سے روک دیا۔تو کیا چند لوگوں کی بھگت سنگھ سے اس محبت سے یہ تاثر لیا جائے کہ پنجاب کے لوگ بھگت سنگھ کو اپنا لیڈر تسلیم کر کے پشتونوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ؟
یہ سوشل میڈیا سیل کس منہ سے پشتون خون بہنے کے دکھ بیان کر تا ہے؟ ایسا کچھ کہنے سے پہلے کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ ایس ایس پی رائو انوار کون ہے؟کیا منظور پشتین ٹولہ بھول گیا کہ اسی رائو انوار کے ہاتھوں نوجوان اور ہر دلعزیز پشتون نقیب اﷲ محسود کا مبینہ طور پر قتل ہوا؟ میڈیا سیل کیسے بھلا سکتا ہے کہ اسی نقیب اﷲمحسود کے مبینہ قاتل رائو انوار کو آصف علی زرداری اپنا بچہ قرار دیتے ہیں۔ منظور پشتین نے نقیب اﷲ محسود کے خون سے پشتون تحفظ مووومنٹ کے نام پر اپنی لیڈر شپ تو قائم کر لی لیکن وقت بتائے گا کہ کس کی انگلیوں پر لگا ہوا نقیب اﷲ کا وہ خون جسے اس نے پی ٹی ایم کا اشتہار بناکر اپنے ماتھے پر سجا یا ہوا ہے‘ وہ معصوم اور بے گناہ خون خاموش نہیں رہے گا اور دنیا دیکھے گی کہ نقیب اﷲ محسودکا خون اشارہ کرتے ہوئے ہر ایک کو بتائے گا دیکھو میری لاش پر سیا ست کرنے والے انہی کے قدموں میں بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے رائو انوار سے میرا قتل کرایا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ہی تھے جنہیںرائو انوار کو سپریم کورٹ لانے میں کامیابی ملی ورنہ سب جانتے تھے کہ دو ماہ تک وہ کہاں اور کس کے پاس قیام پذیر رہا۔ تو پھر جن لوگوں کی سیا ست چمکانے کے لیے منظور پشتین فوج مخالف کہانیاں تراشتے ہوئے گھٹیاکھیل کھیل رہا ہے وہی تو نقیب اﷲ محسود کے قاتل ہیں۔
رائو انوار کا چہرہ چھپانے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن اسے سامنے آنا ہی پڑا۔ میاں ثاقب نثار اگر کچھ عرصہ اور رہ جاتے تو نقیب اﷲ محسود کے تمام پس پردہ قاتلوں کے چہرے ایک ایک کرتے ہوئے کب کے بے نقاب ہو جاتے ۔ نقیب اﷲ محسود کے قتل کا فائدہ منظور پشتین اٹھا رہا ہے۔ کراچی میں جب نقیب اﷲ کی شہا دت ہوئی تو اچانک ایک انجانا اور نئی قسم کا پشتون تحفظ موومنٹ کا نام گونجنے لگا جو جلد ہی کراچی سے نکل کر فاٹا اور کے پی کے میں لیا جانے لگا اور پھر اس کے نام سے تشہیری مہم جلد ہی پنجاب اور فوج سے نفرت کا رخ اختیار کرنا شروع ہو گئی ۔دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان اور بھارت کے دوستوں اور نمک خواروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لینا شروع کر دیا اور یہ سارا عمل اس قدر مشکوک تھا کہ بہت سے لوگ اسی وقت کہنے لگے کہ''کوئی تو ہے جو یہ کروا رہا ہے‘‘۔