لوگ کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں اخباری کالم واقعی فِکاہیہ ہوا کرتے تھے۔ اب فِکاہیہ کم اور مِزاحیہ کالم زیادہ شائع ہوتے ہیں۔ اِس میں حیرت کیسی؟ جب ہر معاملے میں بَھد اُڑنے کا سا گماں ہوتا ہو اور بات بات پر غالبؔ کے پُرزے اُڑانے کی بات ہوتی ہو تو احتیاط سے سُپردِ قلم کی جانے والی فِکاہیہ تحریر بھی مِزاحیہ سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ بہت سے جہاں دیدہ ٹائپ قارئین کا اِصرار ہے کہ اگلے وقتوں کے کالم نگار بات سے بات پیدا کرنے کا ہُنر بخوبی جانتے تھے۔ ذرا سی بات میں بہت کچھ بیان کر جاتے تھے۔ ہم اِس حوالے سے ’’نُکتۂ اعتراض‘‘ پر کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اگلے وقتوں کے کالم نگار بے شک صحافت کے اجداد سہی مگر اُن کی عظمت کے لیے صرف اُن کی صلاحیتوں کو کریڈٹ نہ دیا جائے۔ تیس چالیس سال قبل اگر اخباری کالم معنی خیز اور فکر انگیز ہوا کرتے تھے تو اِس میں صرف لِکھنے والے کا کمال نہ تھا۔ نعمتِ غیر مترقّبہ کے طور پر کاتب اور پروف ریڈر بھی اپنا حصّہ ڈالنے کے لیے موجود تھے۔ اخباری کالموں میں پایا جانے والا مزاح محض لِکھاری کی اُفتادِ طبع اور شگفتہ مزاجی کا محتاج اور مُکلّف نہ تھا بلکہ کاتب اور پروف ریڈر بھی بساط بھر طبع آزمائی کرتے تھے جو کبھی کبھی طالع آزمائی کی منزل کو چُھو لیا کرتی تھی۔ اگلے وقتوں کے اخباری مِزاح کے لیے اگر کریڈٹ دینا ہے تو ’’ٹیم ورک‘‘ کو دیا جائے، سب کچھ ایک رُکنی کابینہ کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ تحریر میں شگفتگی اور مزاح پیدا کرنے کا فن کیا ہے؟ چند الفاظ کی ترتیب کا پلٹ جانا یا ایک نُقطے کا اِدھر سے اُدھر ہو جانا۔ کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے ایصال ثواب کے لیے ایک تنظیم نے قرآن خوانی کرائی۔ تصویر کا کیپشن کچھ یوں شائع ہوا ’’… کے زیر اہتمام کراچی میں ہلاک ہونے والوں کے لیے قرآن خوانی کرائی جا رہی ہے‘‘ نُقطے کی کار فرمائیوں پر نظر دوڑائیے گا تو آخر میں یہ ہو گا کہ ع پھر نظر لَوٹ کر نہیں آئی! جو نُقطہ ’’دُعا‘‘ کو ’’دَغا‘‘ میں تبدیل کرتا ہے وہی نُقطہ ’’محرم‘‘ کو ’’مجرم‘‘ بھی بنا دیتا ہے۔ احتیاط نہ برتی جائے تو ’’بابو‘‘ کو (کِسی آپریشن کے بغیر) ’’بانو‘‘ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ تو ہوا نُقطے کے اوپر نیچے ہو جانے کا افسانہ۔ اگر یہی نُقطہ لِکھنے یا چَھپنے سے رہ جائے تو اچھے خاصے ’’نامزد‘‘ شخص کو … خیر جانے دیجیے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ ذرا سی غلطی اخبارات کے صفحات پر معانی کا ایک نیا جہان اُسی طرح آباد کیا کرتی ہے جس طرح سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے بیانات میں ہمیں عمران خان کے خوابوں کا ’’نیا پاکستان‘‘ آباد مِلتا تھا۔ جب کمپیوٹر نہیں آئے تھے اور کمپوزنگ عام نہیں ہوئی تھی تب فِکاہیہ ادب کو پروان چڑھانے میں کاتب اور پروف ریڈرز مرکزی کردار ادا کیا کرتے تھے۔ مُسوّدے میں اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی تو کاتب اپنی ’’صوابدید‘‘ کے مطابق کتابت کر دیا کرتے تھے اور پروف ریڈر لکیر کے فقیر ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے کاتبوں کے لِکھے سے احتراماً صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ اِن دو پیشوں نے مِل کر معانی کے کئی نئے جہان آباد کئے۔ کاتبوں کی طرف سے ’’صوابدیدی اختیار‘‘ کا استعمال بھی قیامت ڈھانے میں کچھ کم نہ تھا۔ یہ کیفیت پروف ریڈرز کی بے نیازی اور صرفِ نظر سے بغل گیر ہو کر تحریر کے ماحول کو دو آتشہ کر دیتی تھی! ع جیسے کوئی شراب مِلا دے شراب میں اخباری مِزاح کے اُس ’’سُنہرے‘‘ دور میں تحریر کی ’’خرابی‘‘ سے صرفِ نظر یا درگزر معیوب فعل سمجھا جاتا تھا اور آن کی آن میں ’’اِصلاح‘‘ پر کمر کَس لی جاتی تھی۔ یہ ’’اِصلاح پسندی‘‘ کبھی کبھی تحریر کا ’’مُثلہ‘‘ بنا ڈالتی تھی! کاتبوں کا اِصلاحی مزاج کبھی کبھی تحریر کو ایسے مفاہیم عطا کرتا تھا کہ خود لِکھاری ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا تھا کہ داد دے یا (اپنا) سَر پیٹے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ لِکھاری کِسی غلط العام لفظ کو تحقیق کر کے صحیح ہجّے کے ساتھ لکھتا تھا تو کاتب اُس کی ’’جہالت‘‘ پر لعنت بھیجتے ہوئے اپنی طرف سے ’’تصحیح‘‘ فرما دیا کرتے تھے۔ یہ ’’تصحیح‘‘ ایسی ’’فصیح‘‘ ہوتی تھی کہ تحریر کے ’’حُسن‘‘ کو چار چاند لگ جاتے تھے اور لِکھنے والا شہر بھر سے داد وصول کرتا پھرتا تھا۔ آج کے کمپوزر ایسے ’’صاحبِ نظر‘‘ کہاں؟ اب تو لِکھاری ہی کو کمپوزنگ کرنی پڑتی ہے اور پروف ریڈنگ بھی خود ہی کرتا ہے۔ اِن دونوں ذمہ داریوں سے سُبک دوش ہونے کے عمل میں اگر نیند کے جھونکے یا دھیان کے بھٹکنے سے کچھ مزاح پیدا ہو جائے تو ہو جائے! یعنی اب کالم میں مزاح پیدا کرنے کی ذمہ داری لِکھاری کے اپنے کاندھوں پر آ پڑی ہے۔ ع ’’اپنا کالم‘‘ آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے! آپ جانتے ہیں کہ شعوری کوشش سے کبھی کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوا۔ ہم تو ویسے بھی حادثاتی قوم ہیں۔ یہاں سبھی کچھ گیارہویں گھنٹے پر یعنی حادثاتی انداز سے ہوتا ہے۔ کِسی تحریر کو فِکاہیہ بنانے کی شعوری کوشش کی جائے تو وہ مِزاحیہ بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ فِکاہیہ لکھنے کی کوشش میں مِزاحیہ لِکھتے رہتے ہیں اور جب لوگوں کے سمجھانے بُجھانے پر اپنی اِصلاح کی طرف آتے ہیں تو تحریر کے مِزاحیہ پن کا گراف مزید بُلند ہو جاتا ہے۔ جب سے مِزاح پیدا کرنے کی ذمہ داری کالم نگار یا لِکھاری کے کاندھوں پر آ پڑی ہے، مِزاح پیدا کرنا جاں گُسل مرحلہ ہو گیا ہے۔ اِس راہ میں بہتوں نے ٹھوکر کھائی اور انتہا یہ ہے کہ گرنے کے بعد اُٹھنے سے پہلے پھر ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اخبار میں فِکاہیہ کالم لکھنا اب اِس لیے بھی بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سیاست دان کب کوئی کسر چھوڑتے ہیں جو لِکھنے والے پوری کریں۔ ایسے میں ’’ذرا ہٹ کے، ذرا بچ کے‘‘ ٹائپ کا مِزاح لِکھنا پاسپورٹ بنوانے جیسا سخت اور اعصاب شِکن مرحلہ ہو چلا ہے۔ ایک مصیبت یہ ہے کہ اخبار کی زندگی ایک دن کی ہوتی ہے۔ سیاست دان، ماہرین اور مبصرین اپنی تقاریر، تجزیوں اور گفتگو میں اچھا خاصا مِزاح فرمانے لگے ہیں۔ اخباری تالاب میں اِن مگر مَچھوں کے درمیان رہتے ہوئے خود کو بچانا اور اپنا آپ منوانا اب جُوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ صحافتی یا اخباری مِزاح لِکھنے کی کوشش نے کئی فرزانوں کو دیوانہ کیا ہے اور کئی مُستند دیوانے توبہ کرتے ہوئے فرزانگی کی طرف آ گئے ہیں۔ لِکھنے والے اور چھاپنے والوں کو یہ خوف لاحق ہے کہیں آپ اچھے خاصے فِکاہیہ (یعنی مِزاحیہ) تجزیے کو سنجیدہ سمجھ کر نہ پڑھ جائیں اور پھر آپ کو ہوش میں لانا محال ہو جائے۔ فِکاہیہ کالموں کے معاملے میں ’’قحط الرّجال‘‘ کا عالم یہ ہے کہ اب لوگ سیاسی تجزیوں کو مِزاح کے زُمرے میں شمار کر کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔ اِن تجزیوں میں جب خیالات لڑکھڑا کر گرنے لگتے ہیں تو مِزاح جنم لیتا ہے اور گرتے ہوئے خیالات کو سنبھالا دینے کی کوشش مزید مِزاح پیدا کر جاتی ہے۔ کالم نگار جب کِسی ممدوح کو سراہنے پر تُل جاتے ہیں تو ہزار بارہ سو الفاظ کے کوزے میں دریا کو بند کر کے داد پاتے ہیں۔ پڑھنے والوں کو ایک ہی کالم میں دیومالائی کہانیاں، محبت کی داستانیں، رزمیہ قِصّے، قصیدے، شہر آشوب، واسوخت، ہجو … غرض ادب کی ہر صنف کا ذائقہ نصیب ہو رہتا ہے۔ کالم میں بھرپور لَذّت کے اہتمام کی ترکیب کچھ ایسی مُشکل نہیں۔ موجودہ ممدوح کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملائیے اور سابق ممدوح کی مِٹّی پلید کیجیے، حشرات الارض کے ماہر کی طرح اُس کی ذات میں غیردریافت شدہ کیڑے تلاش کیجیے۔ بعض کالم فاؤنڈری کا سا ماحول پیش کر رہے ہوتے ہیں یعنی کِسی کو پگھلایا اور کِسی کو ڈھالا جا رہا ہوتا ہے اور کئی کالم ڈیپارٹمنٹل سٹور کا منظر آنکھوں کے سامنے دَھر دیتے ہیں۔ گویا صلائے عام ہے … بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے! اب جس کے جی میں جو آئے وہ کالم کے بین السطور سے کشید کرتا پھرے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved